70فیصد کاشتکارمحنت کا معاوضہ ہڑپ کرنیوالے سودخوروں کے رحم وکرم پر ہیں، ڈاکٹر مرتضی مغل

بینک زراعت کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، ساڑھے 6فیصد قرضہ دیا جاتا ہے،ساہوکاروں نے زراعت اور لائیو سٹاک کے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے، صدر پاکستان اکانومی واچ

جمعرات 9 اپریل 2015 17:38

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔09 اپریل۔2015ء) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ بینکوں کی عدم توجہ کے سبب ملک کے ستر فیصد کاشتکار سود خوروں کے رحم و کرم پر ہیں جو انکی محنت کا معاوضہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔سٹیٹ بینک کی کوششوں کئے باوجود زرعی قرضے بینکوں کی جانب سے جاری ہونے والے تمام قرضوں کا صرف ساڑھے چھ فیصد ہیں ۔

کاشتکاروں اور لائیو سٹاک سے وابستہ افراد جو ملکی آبادی کا چوالیس فیصد اور جی ڈی پی کا21 فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں کی جانب سے ڈیفالٹ کی شرح اٹھارہ فیصد سے کم ہو کر ایک فیصد ہو گئی ہے مگر اسکے باوجود انھیں توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کی بھاری اکثریت اپنی فصل ساہوکاروں کے پاس گروی رکھوانے پر مجبور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ زرعی ترقی کا دارومدار سستے قرضوں کی فراہمی پر ہے جس کے بغیر کاشتکاروں کی خوشحالی ، زرعی خود کفالت اور غذائی تحفظ کا حصول نا ممکن ہے۔

(جاری ہے)

کاشتکاروں کو بینکوں کے زریعے سستے قرضے آسانی سے نہیں ملتے اسلئے وہ مقامی زرائع سے ملنے والے مہنگے قرضے لینے پر مجبورہیں جس وجہ سے سود خوروں نے سارے زرعی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔کسانوں کا معیار زندگی بہتر ہونے سے زراعت جو ملک کی کل پیداروا کا چوتھائی ہے ترقی کرے گی جس سے پوری معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔حکومت زرعی اصلاحات نافذ کرے، اس شعبہ میں ریسرچ کو ترقی دے اور نظام کا جائزہ لے کر ترقی کے لئے اقدامات کرے ۔ ملک کی متعدد بڑی صنعتوں بشمول ٹیکسٹائل، شوگر اور لیدر انڈسٹری کا دارومدار دیہی اکانومی پر ہے۔ پچیس فیصد قابل کاشت رقبہ اور دنیا کے بہترین نہری نظام کے باوجود زراعت کی بدحالی ارباب اختیار کی عدم توجہ کا ثبوت ہے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں