سلامتی کونسل نے فیصلہ دے دیا ،یہودی بستیاں غیر قانونی قرار

اقوام متحدہ کی قرارداد نے اسرائیل کو بے نقاب کر دیا۔۔۔۔سلامتی کونسل کی یہودی بستیوں کے خلاف قرارداد، اسرائیل کا ردعمل اوراقوام عالم میں یہودی اثرو رسوخ کے حوالے سے خصوصی رپورٹ

Zabeeh Ullah Balghan ذبیح اللہ بلگن منگل 27 دسمبر 2016

Salamti Council Ne Faisla De Diya
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کی منظوری کے بعداسرائیل سخت پا ہے ۔تازہ ترین صورتحال کچھ ہوں ہے کہ اسرائیل ہر اس ملک کے خلاف زہر اگل رہا ہے جس نے بھی اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی اس قراداد میں حصہ لیا ہے ۔قرار داد کی منظوری کے بعد اسرائیل کا سب سے زیاہ غصہ امریکہ پر نکل رہا ہے ۔

گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے اس ووٹ کی حمایت کی ہے اور اس نے سلامتی کونسل میں ووٹ کو منظم کیا ہے۔اگرچہ امریکہ کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جارہی ہے تاہم اس کے باوجود اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور تل ابیب میں امریکی سفیر کو طلب کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا جو معلومات ہمیں ہیں ہمیں کوئی شک نہیں کہ اوباما انتظامیہ نے اس ووٹ کی ابتدا کی، اس کی حمائت کی، اس کے الفاظ کے حوالے سے رابطے کیے اور مطالبہ کیا کہ اس قرارداد کو منظور کیا جائے۔

نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ“دوست دوستوں کو سلامتی کونسل میں نہیں لے کر جاتا“۔اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ ان ممالک کے سفیروں کو طلب کیا جائے جنھوں نے سلامتی کونسل میں قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔یاد رہے کہ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم گذشتہ چند روز میں امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔

اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد اسرائیل نے نیوزی لینڈ اور سینگال سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ اس کے علاوہ سینیگال اور یوکراین کے وزرائے خارجہ کے اسرائیل کے دوروں کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔

بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اس قرارداد کو واپس کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی مالی معاونت روک دی ہے اور یہ وہ ادارے تھے جو اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی ترک کر کے اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا، تاہم اس نے اس موقعے پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔
اس سے قبل اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کو شرمناک قرار دیا تھا۔

وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل جمعے کو ہونے والے 15 رکنی سکیورٹی کونسل کے ووٹ کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں اس شرمناک اور اسرائیل مخالف قرارداد کو مسترد کرتا ہے اور اس کا پابند نہیں رہے گا۔ادھر فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے اس قرار داد کو اسرائیلی پالیسی کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا ہے۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس میں طے کی گئی شرائط پر عمل نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس قرارداد کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرامید ہے۔فلسطین کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ صائب اراکات نے اس قرارداد کو بین الاقوامی قانون کی فتح اور اسرائیل میں شدت پسند عناصر کی شکست قرار دیا۔

قرارداد میں اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ وہ غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر روک دے۔غربِ اردن میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک انتہائی متنازع موضوع ہے جسے خطے میں قیامِ امن کے لیے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہو۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی انھیں غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں تقریبا 140 بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی باشندے رہتے ہیں۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمینتھا پاول نے اس موقعے پر کہا ہے کہ یہ قرارداد زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے کہ بستیوں میں اضافے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بستیوں کا مسئلہ اس قدر بدتر ہو چکا ہے کہ اب یہ دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہے۔انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بستیوں میں اضافے اور دو ریاستی حل، دونوں کو اپنا موقف نہیں رکھ سکتا۔تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ نے قرارداد کے حق میں اس لیے ووٹ نہیں ڈالا کیونکہ اس کی توجہ صرف بستیوں پر ہی مرکوز ہے۔


قرار دا دکی منظوری کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔نتن یاہو کا کہنا تھا کہ میں نے وزارت خارجہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اقوام متحدہ کے ساتھ تمام تعلقات پر نظر ثانی کریں، بشمول اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے لیے مالی امداد اور اقوام متحدہ کے اسرائیل میں مستقل مندوب کے۔


محترم قارئین !ذیل میں ہم اسرائیل کے قیام ، فلسطینی سرزمین پر یہودی قبضے اور دنیا بھر میں یہودی اثرو رسوخ کے حوالے سے مفصل جائزہ لے رہے ہیں امید ہے مذکورہ تحریر قارئین کیلئے معلومات کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
اسرائیل کا قیام
ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل مشرق وسطی کی ایک صیہونی ریاست ہے جو سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو ملک تسلیم نہیں کرتے ۔

آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے جرمن زبان میں ایک کتاب ” ڈر جوڈن شٹاٹ“ یعنی یہودی ریاست لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں ہوا۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجنٹائن یا مشرق وسطی کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا۔

برطانوی حکومت نے ارجنٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اْس کے بعد برطانیہ نے یہ ڈکلیئریشن منظور کی’ حکومت برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے‘ ۔

اس کے بعد باسل، سوئٹزرلینڈ میں صیہونی کانگریس کااجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ، مکمل فلسطین ،اردن اور لبنان، شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ اس میں شامل تھا۔

فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا” ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اْن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے“ ۔

باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا ”جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ،ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اْردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب ملکوں کو۔ان کا ارادہ یہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا“ ۔

مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں باون سال گزرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔

اْس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہوگئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔
خفیہ معاہدہ
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیر اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں قتل عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رْخ نہ کر لیں ۔

برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیاری سے متذکرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کردیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیاری برتتے ہوے ایک خفیہ معاہدہ "سائیکس پیکاٹ" کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ انتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔

چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوے انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی ۔

فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جیسے جیسے یورپ سے یہودی آتے گئے ویسے ویسے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔

اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔

29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔
صیہونی دہشت گردی
صیہونیوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ،فلسطینی مسلمان ، عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔

برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباوٴ سے پریشان تھی ۔برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباوٴ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گا ۔ صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔

امریکہ صیہونیوں کی پشت پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔
صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان
روس، یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو ”یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان کر دیا ۔ مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواوٴں نے اس کی مخالفت کی ۔

اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاوٴنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلح دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہیں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدل دیے گئے۔

کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرچکی تھیں جن کو وہاں دہشت گرد قرار دیا جا چکا تھا ۔ ان کے مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ، اوردے ونگیٹ، ارگون، لیہی، لیکوڈ، ہیروت، مالیدت وغیرہ۔ ان کے چند مشہور سر پرستوں کے نام یہ ہیں: موشے دیان جو 1953 سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتزہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔

ایریئل شیرون جو سابقہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو اقوام متحدہ یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو اقوام متحدہ کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔

قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4 ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایریل شیرون ہی تھا جو اْن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
یہودی ریاست کا حق
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔

تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ (ہنگری) کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک (پولینڈ) کا ۔ گولڈا میئر کِیو (یوکرَین) کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک (روس) کا ۔ یِتسہاک شمِیر رْوزینوف (پولینڈ) کا ۔ خائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول (پولینڈ)کا تھا ۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔

ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جاے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داوٴد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک۔ 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے (یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک) تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ، مشرقی یورپ ، مغربی چین ، مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔

اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی عجب نہیں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان (چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح) نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔

قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ، جرمن اور ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کس طرح جائز ہے ؟
یہودیوں کی ملکیت عالمی طاقتور میڈیاگروپس
یہ بات اب منظر عام پر آچکی ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودیوں نے بیسویں صدی کے آغاز ہی سے صہیونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے میڈیا پر تسلط حاصل کرنا شروع کردیا تھا ۔

اور آج امریکی میڈیا میں ان کے تسلط کی داستان سناتی ایک رپورٹ کے مطابق صرف چھ کمپنیوں نے 96 فیصد میڈیا کو اپنی ملکیت میں لیا ہوا ہے۔ جن کے مالک یہودی ہیں میڈیا کی ہی بدولت یہودیوں نے امریکہ کو یرغمال بھی بنایا ہوا ہے۔ امریکہ کے اقتدار کے ایوانوں اور امریکی معیشت پر چھائے ہوئے صیہونی ٹولے نے گزشتہ ایک صدی کے دوران رفتہ رفتہ تمام اخبارات اور چینلوں کو انکے اصل مالکوں سے خریدنا شروع کیا۔

انہی اخبارات اور چینلوں کواب صہیونی پالیسیوں کی اشاعت اور مسلمانوں کے خلاف عالمی پراپیگنڈے اور عام امریکی باشندوں کو ایک خاص فکرو نظریے کے تحت ذہن سازی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت امریکہ میں یہ صورت حال بن چکی ہے کہ سیاست کانگریس ایوان صدر سے لیکر میڈیا کے تمام شعبوں میں اسرائیل نواز صہیونی ٹولے کا غلبہ ہے جو کہ خود امریکیوں کے لئے شدید تشویش کا باعث ہے۔

امریکہ میں میڈیا کمپنیوں میں سب سے بڑی کمپنی والٹ ڈزنی ہے جس کا مالک مائیکل آئیزنر ایک یہودی ہے۔ والٹ ڈزنی کمپنی میں شامل تمام ٹیلی ویژن چینل اور دو ویڈیو پروڈکشن کمپنیاں اسی شخص کی ملکیت ہیں۔ والٹ ڈزنی ٹیلی ویژن ٹچ سٹون ٹیلی ویژن اور بیوناوز ٹاٹیلی ویژن اسی کمپنی کے مختلف چینل ہیں ۔اسی طرح فچر فلموں کا گروپ والٹ ڈزنی پکچر گروپ کا سربراہ راتھ جو بھی یہودی ہے۔

اس کی سربراہی اور انتظامی امور میں ہالی وڈ پکچرز ٹچ سٹون پکچرز اور کاروان پکچرز جیسے مشہور ادارے اور فلمی کمپنیاں آتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈزنی گروپ وائٹ سٹائن برادرز کی سربراہی میں چلنے والی کمپنی میرا فلمز کا مالک بھی ہے۔ اس کمپنی کے صرف امریکہ کے اندر 225 الحاق شدہ سٹیشن ہیں جبکہ یورپ کے متعدد ٹیلی ویژن چینل بھی کسی حد تک اس کی ملکیت ہیں۔

امریکہ کی ایک اور مشہور میڈیا کمپنی اے بی سی کی ایک ذیلی شاخespnکا صدر بورن سٹائن بھی یہودی ہے۔ ٹائم وارنر دنیا بھر میں میڈیا کمپنیوں میں دوسری بڑی کمپنی ہے جس کا مالک ڈینی گولڈ برگ نامی بھی ایک یہودی ہے۔ نت نئی نئی فلمیں دکھانے والا دنیا کا مشہور ترین ٹی وی چینل ایچ بی او اسی کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو امریکہ میں میڈیا کی دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمارہا ہے۔

تقریبا پچاس مختلف ناموں سے دنیا میں اس کمپنی کے معروف میوزک ریکارڈنگ ادارے موجود ہیں ۔ٹیڈٹرنر بھی ایک یہودی ہے جس نے 1985میں سی این این کے نام سے ایک کامیاب کیبل ٹی وی نیوز چینل قائم کیا جو آج امریکہ میں خبروں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے سی بی سی کو خریدنے کا ارادہ کیا تو ایک اور کھرب پتی یہودی لارنس ٹش نے اسے خرید لیا۔

ویا کام امریکہ کی تیسری بڑی میڈیا کمپنی ہے جسکا سربراہ سمز ریڈ سٹون بھی ایک یہودی ہے ۔اس کمپنی کا سالانہ ریونیو 10 ارب ڈالر ہے۔ ویا کام میڈیا کمپنی ٹی وی پروگراموں کو بناتی اور ملک کے تین بڑے نیٹ ورکس کو بیچتی ہے۔ اس کمپنی کے پاس 12 ٹیلی ویژن سٹیشن اور 12 ریڈیو سٹیشن ہیں۔ پیر امانٹ پکچرز کے نام سے یہ فیچر فلمیں بناتی ہے جس کی سربراہ ایک یہودی خاتون شیری لینلنگ ہے۔

آسٹریلوی نژاد کروڑ پتی تراسی سالہ روپرٹ مور ڈاک جس کا نام سالہا سال سے میڈیا پر قابض کی حیثیت سے لیا جارہا ہے ۔ وہ گزشتہ کئی عشروں سے مختلف سیٹلائٹ چینلوں اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلط ہے اور مختلف طریقوں سے مغربی کلچر اور صیہونی پالیسیوں کی ترویج میں مصروف ہے۔ اس کی کمپنی فاکس ٹی وی اور20thسینچری فاکس فلم کی مالک ہے ۔پیٹر چرمن جو مرڈوک فلم سٹوڈیو اور اوورسیز ٹی وی پروڈکشن کا سربراہ ہے وہ یہودی ہے ۔

یونیورسل پکچرز بھی فلمی دنیا میں ایک جانا پہچانا اور معروف نام ہے۔ اس کا سربراہ ایڈ گربرونف مین ہے جو نہ صرف ایک یہودی ہے بلکہ یہودیوں کی ایک تنظیم عالمی یہودی کانگریس کا صدر بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا میں ان یہودیوں کے تسلط کا یہ عالم ہے کہ امریکہ میں ہر روز اخبار ات کی 6کروڑ کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اشاعت والے تین اخبارات نیویارک ٹائمز وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ بھی یہودیوں کی ملکیت ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک کوئی خبر نیویارک ٹائمز وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع نہیں ہوتی وہ اس وقت تک ایشو نہیں بن سکتی ۔

ان حقائق کے جاننے کے بعد کوئی دو رائے نہیں کہ یہودی عالمی سطح پر حکومت قائم کرنے کے لئے عالمی میڈیا پر قابض ہوچکے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو اپنی انگلیوں پر نچا کر دنیا میں ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلارہے ہیں ۔آج یہودی میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Salamti Council Ne Faisla De Diya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.