بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی

پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ”ضرب عضب “ نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے اور ان کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بڑی حد تک غیر موثر بنا دیا ہے لیکن باچا خان یونیورسٹی چار سدہ پر حملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن یہ نہیں چاہتے

جمعرات 25 فروری 2016

RAW Ki Bharti Hui DehshaatGardi
پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ”ضرب عضب “ نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے اور ان کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بڑی حد تک غیر موثر بنا دیا ہے لیکن باچا خان یونیورسٹی چار سدہ پر حملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو اس لیے تعلیمی اداروں کو آسان ہدف بنا دیا گیا ہے جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مداخلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

بھارتی خفیہ ایجنسی را نے بلوچستان میں شورش پیدا کر رکھی ہے۔ فاٹا سمیت قبائلی علاقہ جات میں امن وامان کو درپیش خطرات میں بڑا حصہ ” را “ کا ہی ہے جبکہ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کی دھمکی کے بعد پاکستان دہشت گردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں بری طرح آچکا ہے ۔

(جاری ہے)

یقینا پٹھان کوٹ کا ڈرامہ بھی صرف پاکستان کو پھنسانے کیلئے کھیلا گیا تھا جس میں بھارت کو کامیابی نہیں مل سکی۔

پٹھان کوٹ کے واقعے میں ہونے والے معمولی نقصانات بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اس میں باہر کی کوئی طاقت ملوث نہیں بلکہ بھارت نے خود ہی یہ کارنامہ انجام دیا ہے تاکہ نقصان زیادہ نہ ہو اور ان کا مقصد حاصل ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے اور کراچی میں گزشتہ سال رونما ہونے والا سانحہ صفوراچورنگی بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کے مقامی آلہ کاروں کو استعمال کیا گیا۔

بلوچستان کو را کی جانب سے مالی مدد فراہم کی جار ہی ہے بلکہ سرحد پار افغانستان کے شہروں کابل، نمروز اور قندھار میں قائم ٹریننگ کیمپوں میں دہشت گردوں کو خصوصی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ افغانستان میں موجود را کے حکام ان دہشت گردوں کو افغانستان سے بھارت ، متحدہ عرب امارات اور یورپی ملک بھجوانے کے لیے جعلی دستاویزات بنوانے میں بھی پیش پیش ہیں۔


وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مدد سے پانچ تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ یہی پانچ لشکر بلوچستان میں امن کی راہ میں رکارٹ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر قتل کرنے والوں کو دہشت گرد کہا جا سکتا ہے تو ان قوم پرست قاتلوں کو دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا۔
دیکھا جائے تو بھارت کی نظریں بلوچستان پرلگی ہیں۔

اس نے افغانستان میں کابل کے بعد قندھار میں بھی قونصل خانہ قائم کر رکھا ہے جس کا مقصد صرف بلوچستان کے معاملات میں مداخلت ہے ۔ یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ بلوچستان لبریشن آرمی نے ہتھیار خریدنے کے لیے قندھار کے بھارتی نصلیٹ سے بڑی رقم وصول کی تھی۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق را کے ایجنٹ بڑی تعداد میں افغانستان میں اس لیے تعینات کئے گئے ہیں کہ وہ بھارتی اسلحہ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو فراہم کریں تاکہ وطن عزیز میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا رہے ۔

اس کیساتھ ساتھ را کے ایجنٹس افغانستان سے افغانیوں کے بھیس میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ بی رامن نے بلوچستان میں حکومت پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کرنے کو بھارت کی تاریخی واخلاقی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ بلوچستان میں پاکستان فورسز کی طرف سے جاری آپریشن کا سبب ہندو بلوچ بنے جنہیں پاکستانی حکومت صوبہ بلوچستان سے بے دخل کرنا چاہتی تھی، لیکن بلوچ قوم پرستوں نے کمال ہوشیاری سے پاکستانی فورسز کی توجہ ہندو بلوچوں سے ہٹانے کے لیے سوئی گیس کی تنصیبات اور دوسرے صوبوں سے ملنے والی ریلوے لائنوں کو بارود سے اڑانا شروع کر دیا۔

اب بھارت کی اگلی نظر گوادر پر ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر روکنے کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کاآغاز کر دیا گیا ہے تاکہ چین امن وامان کا معاملہ اٹھا کر اس منصوبے کو سبوتاژ کر دے۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ کچھ ملکی اور غیر ملکی عناصر پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں خنجراب میں پاکستان اور چین کی سرحد سے لیکر بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ تک شاہراہوں اور ریل کے رابطوں کی تعمیر کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

RAW Ki Bharti Hui DehshaatGardi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.