پاک چین اقتصادی راہداری قوم کی ترقی کا سفر

پاکستان کوقدرتی طورملاجغرافیائی محل وقوع( اسٹریٹجک پوزیشن )اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس ،زراعت، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتاہے۔اس قدرتی محل وقوع کی اہمیت اورافادیت کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے مل کر”پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ“بنانے کافیصلہ کیاہے جوکاشغر سے شروع ہو کر گلگت۔ بلتستان اور خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے گزرے گا۔واضح رہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے

ہفتہ 22 اکتوبر 2016

Pak China Iqtesadi Rahdari
پاکستان کوقدرتی طورملاجغرافیائی محل وقوع( اسٹریٹجک پوزیشن )اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس ،زراعت، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتاہے۔اس قدرتی محل وقوع کی اہمیت اورافادیت کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے مل کر”پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ“بنانے کافیصلہ کیاہے جوکاشغر سے شروع ہو کر گلگت۔

بلتستان اور خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے گزرے گا۔واضح رہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے۔یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔چین یومیہ60لاکھ بیرل تیل بیرون ملک سے درآمدکرتاہے جس کاکل سفر12000کلومیٹر بنتاہے جبکہ یہی سفرسی پیک کی تکمیل کے بعدسمٹ کرمحض3000کلومیٹر رہ جائے گا جس کے باعث چین کوتیل کی سالانہ تیل کی درآمدت پر 20 ارب ڈالربچت ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مدمیں5 ارب ڈالریعنی پانچ کھرب یاپانچ سو ارب روپے سالانہ ملیں گے۔

(جاری ہے)

سی پیک صرف چین کیلئے نہیں بلکہ روس کیلئے بھی انتہائی سودمندہے کیونکہ وہ بھی اپنی تجارت اس خطے سے کرناچاہتاہے اس کے لیے روس کے پاس صرف دوہی راستے ہیں۔ایک ایران کی چاہ بہاربندرگاہ جسکی گہرائی11میٹر سے زیادہ نہیں جبکہ دوسراراستہ گوادر کاہے جو دنیا کی تیسری سب سے گہری بندرگاہ ہے۔وسطی ایشیا کی ریاستیں دنیا کا دوسراسب سے بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔

جن کووہ ان ممالک تک پہنچانا چاہتے ہیں روس اور وسطی ایشائی ممالک گوادر کی بدولت بہت جلد پاکستان پر انحصارکرینگے۔ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار ٹرک روزانہ چین، روس اوروسطی ایشیا کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کرینگے۔ پاکستان کو صرف ٹول پلازے کی مد میں ہی 20سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔سی پیک منصوبوں کاپہلا مرحلہ 2017 ء کے آخریا 2018ء کے آغاز میں مکمل ہو جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے کے منصوبے2020ء اور تیسرے مرحلے کے پروجیکٹ2030ء تک مکمل ہو جائیں گے تاہم سی پیک منصوبے کے ثمرات پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعدہی پاکستانی عوام کو ملناشروع ہو جائیں گے۔

سی پیک کا اصل مقصد اہم یورپی اور ایشیائی معیشتوں کو انفراسٹرکچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرناہے۔ اس منصوبے کے تحت دو طرح کے عالمی رابطے قائم کرنا مقصود ہے ۔ ایک جانب سلک روڈ کے ذریعے اقتصادی رابطہ یعنی سلک روڈ اکنامک روڈ جبکہ دوسری جانب(میری ٹائم سلک روٹ)زمینی راستے کے منصوبوں میں سڑکیں، ریلوے ٹریکس، تیل اور گیس پائپ لائنز اور اس سے منسلک کئی دیگر منصوبے ہیں جن کے ذریعے و سطی چین کے علاقے زن جیانگ کو ابتداء میں وسطی ایشیا سے مربوط کر نے کا پلان ہے۔

بعدمیں اس انفراسٹرکچر کو پھیلا کر روس کے شہر ماسکو، ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم اوراٹلی کے شہر ونیس تک لے جانے کاارادہ ہے۔ان منصوبوں کے لئے ایک مخصوص سڑک کے بجائے اس بیلٹ یاکوریڈور کو پہلے سے موجود زمینی راستوں یعنی سڑکوں اور پلوں کے ساتھ ساتھ جوڑاجائے گا۔ یوں چین، منگولیا،روس، وسطی چین اور مغربی ایشیا، انڈو چا ئنا کا علاقہ ، چائنا، پاکستان،بنگلہ دیش، چائنا، انڈیا اور میانمارکو آپس میں ملانے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔

دوسری طرف سمندری نیٹ ورک کے ذریعے بندر گاہوں اور ساحلی علاقوں میں انفراسٹرکچر منصوبوں کو زمینی راستوں سے مربوط کرنے کا پروگرام ہے تاکہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء سے لے کر مشرقی افریقہ تک اور بحیرہ قلزم تک تجارتی راستوں کا وسیع اور مربوط نظام قائم کر دیا جائے۔ اس منصوبے میں65پینسٹھ ممالک کی شمولیت متوقع ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دیکھیں تو ساڑھے چار ارب افراد ان منصوبوں سے مستفید ہوں گے۔

بین الاقوامی اداروں کے مطابق سی پیک کے ذریعے 150ارب ڈالرکی سرمایہ کاری متوقع ہے۔اس میگا منصوبے کے ذریعے رابطوں کو بڑھانے سے پاکستان کوتجارتی مواقع میسرہوں گے اوردنیا کی 70 فیصدسمندری تجارت پاکستان کی 2بڑی بندرگاہوں کراچی اور گوادر کے راستے ہو گی۔گوادر متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ملحقہ خطوں کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کا تیز ترین ذریعہ بن جائے گا۔

مختصر یہ کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان دنیا میں ایک مستحکم اقتصادی قوت کاحامل ملک بن کے ابھرے گا اسی وجہ سے پاکستان مخالف طاقتوں اور گروہوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں جوکہ پاکستان کو پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتیں جبکہ سی پیک منصوبے پرسب سے زیادہ مخاصمت بھارت کوہے جس نے سی پیک منصوبے کی ابتداء سے ہی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا تھا۔ بلو چستان میں بدامنی اورعلیحدگی پسند تحریکیں ، کنٹرول لائن پربلااشتعال فائرنگ،باڈرپرسرجیکل اسٹرانک کاڈھونگ رچانے سمیت دیگر ہتھکنڈیاس منصوبے کو سبوتاڑکرنے کی گھناوٴنی سازش ہے۔

بھارت اس منصوبے کوروکنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیارہے۔مختلف صوبوں میں سی پیک کی مخالفت میں اٹھنے والی انتہائی خفیف آوازوں کے پیچھے بھی بھارت کامکروہ چہرانمایاں ہے۔واضح رہے کہ مختلف سیاسی اور قوم پرست جماعتیں سی پیک کے خلاف آوازیں بلند کررہی ہیں جس کیلئے وفاق وعسکری قیادت کو چاہیے کہ انہیں آن بورڈلیکر ان کے جائزمطالبات کوپوراکریں مگرتمام سیاسی وقوم پرست جماعتوں کو چاہیے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفادات ،سالمیت اورخوشحالی کیلئے اس عظیم منصوبے کے خلاف صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہرزہ سرائی سے گریز کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی ترقی ،سالمیت اورخوشحالی کے ضامن سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے قوم کا ہرفرد خواہ اس کی وابستگی کسی بھی سیاسی ، مذہبی جماعت سے ہو یا کسی بھی علاقے وزبان وقوم سے ہوکو چاہیے کہ مل کر ملک کی ترقی میں حائل رکاوٴٹوں کومشترکہ جدوجہدکرکے اس عظیم ترین منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچاکرپاکستان کوترقی کے ناختم ہونے والے سفرپرگامزن کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak China Iqtesadi Rahdari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.