پاک افغان تنازعہ

یہاں ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ طورخم سرحد پر حالات گزشتہ ماہ سے ہی کشیدہ ہیں ۔دراصل پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ پاکستان پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آمد ورفت اور منشیات سمگلنگ کے سدباب کیلئے سرحد پر باڑ اور گیٹ لگانا چاہتا ہےپاک افغان تعلقات کی تاریخ،حالیہ تنازعہ اور افغانستان کے پاکستان دشمن اقدامات کے حوالے سے مفصل رپورٹ

Zabeeh Ullah Balghan ذبیح اللہ بلگن بدھ 22 جون 2016

Pak Afghan Tanaziya
رواں ماہ کی 12تاریخ کی شب پاکستان اورافغانستان کے سرحدی مقام طورخم پر افغانستان کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ سے دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ دراصل یہ تنازع پاکستان کی جانب سے سرحد پر ایک گیٹ کی تعمیر پر شروع ہوا ہے اوردونوں اطراف کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے ایک عظیم سپوت میجر علی جوادشہید جبکہ 11معصوم پاکستانی شہری زخمی ہوئے تھے ۔

اگلے ہی روز ایک بار پھر افغان فوج کی جانب سے فائرنگ شروع ہوئی جس کے جواب میں پاکستانی فوجیوں نے بھی جوابی شاندار کارروائی کر کے افغان فوج کو پیچھے دھکیل دیا اور طورخم بارڈر کا کنٹرول سنبھال لیا ۔یہاں ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ طورخم سرحد پر حالات گزشتہ ماہ سے ہی کشیدہ ہیں ۔

(جاری ہے)

دراصل پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ پاکستان پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آمد ورفت اور منشیات سمگلنگ کے سدباب کیلئے سرحد پر باڑ اور گیٹ لگانا چاہتا ہے جبکہ افغانستان پاکستان کے اس اقدام کے خلاف ہے اور جب بھی گیٹ کی تعمیر کا آغاز کیا جاتا ہے افغان فوج اندھا دھند فائرنگ کر کے معصوم پاکستانیوں کو زخمی اور شہید کر دیتی ہے ۔

پاک افغان حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان نے افغان سفیر کو طلب کیا اور فائرنگ پر احتجاج کیا ۔ دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان سفارتکار کو بتایا گیا ہے کہ طورخم کی سرحد پر نقل و حمل کی نگرانی پاکستانی حکومت کی بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے اور اس سلسلے میں پاکستان افغان حکومت کا تعاون چاہتا ہے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کی سکیورٹی میں بہتری آئے گی اور دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

یہاں ہم قارئین کی معلومات کیلئے پاک افغان تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ پاک افغان تعلقات کی اصل ہیت کیا ہے ؟۔
پاک افغان تعلقات
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے دو اہم ستون ہیں جن میں ایک مسلم اور دوسرا پڑوسی ممالک سے قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کر نا شامل ہے ۔ قریبی ممالک میں افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ عرصے تک کشیدہ رہے ہیں ۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی پائی جاتی ہے ۔افغانستان سے درہ خیبر کے راستے ان گنت لشکر اس علاقے میں آتے رہے ہیں جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔آریہ، ہن، غوری، غزنوی، تغلق ، سادات، لودھی اور مغل اسی راہ سے آئے ۔ ان کے علاوہ بھی کئی گروہ برصغیر میں حملہ آور بن کے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ آج نسلی اعتبار سے لاتعدادخاندان برصغیر میں ایسے آباد ہیں جو افغانستان سے آئے تھے۔

یوں تاریخ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نسلی اور مذہبی تعلقات کا پتہ دیتی ہے ۔ کئی حوالوں سے باہمی طور پر مضبوط جڑیں رکھنے کے باوجود اعلیٰ روایات پر مبنی تعلقات استوار ہو نے کے بجائے بد قسمتی سے ان میں بار ہا بگاڑ پیدا ہوتا گیاجس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے دور کر نے میں اہم کردار ادا کیا۔افغانستان کی بد قسمتی ہے کہ اگر اس کے ہمسائے ممالک میں سے کسی ایک کے حالات خراب ہوں تو اس کاافغانستان پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد افغانستان کی حکومت نے خصوصی پالیسی کے تحت پاکستان کے خلاف زہر افشاں پراپیگینڈا شروع کر دیا۔ فقیر ایپی کے آدمیوں نے پاکستان کے کونسل خانے پر حملہ کر کے پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی جس پر پاکستان نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور سفارتی نمائندے واپس بلا لیے۔ افغانستان تقریباً سوا سو سال سے مغربی سامراج اور روسی اشتراکیت کے درمیان کچلا جا رہا ہے۔

پہلے اس پر برطانیہ نے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ 20ویں صدی کے آخر میں سوویت یونین نے اس پر جارحیت کی لیکن وہ خود شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ 21ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں امریکہ نے پوری دنیا کی فوج کے ہمراہ اس پر چڑھائی کی لیکن ہنوز اسے کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ در اصل پاکستان کی طرح، افغانستان میں بھی لوگوں کی خاص تعداد اگرچہ بہت تھوڑی ہے،اشتراکی نظام فکر سے جڑی ہوئی ہے جس کی ماضی میں قیادت سوویت یونین کے ہاتھ میں تھی ۔

اسی طرح دونوں ممالک میں عوام کی اکثریت اسلامی و سرمایہ درانہ نظام سے وابستہ ہے جس کا آج کل رہبر امریکہ ہے۔ دونوں سپر طاقتیں افغانستان میں ایک دوسرے سے نبردآزما رہی ہیں لیکن کسی کو فتح نہیں مل سکی ۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہ ترقی کرے لیکن کچھ بیرونی طاقتیں اور مقامی نا عاقبت اندیش عناصر دونوں ممالک کے باہمی دوستانہ تعلقات میں مختلف ایشوز کے زریعے رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

روس کو چونکہ ابتدا ہی سے افغانستان میں اثر و رسوخ حاصل تھا اس لیے اس کے تعلقات ان ممالک سے استوار رہے ہیں جن کو روس کی خوشنودی حاصل تھی۔ پاک افغان تعلقات میں روکاوٹ بننے والے متنازعہ ایشوز کا جائزہ لینے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ ایوب خان کے دور حکومت میں دونوں ممالک میں ہونے والے معاہدوں کا کیا بنا تھا۔
پاک افغان راہداری کا معاہدہ
1958میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان راہداری کا جو معاہدہ طے پایا وہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھا۔


1۔افغانستان کے پاکستان سے گزرنے والے مال کو ہر قسم کی آذادی حاصل ہو گی ۔
2۔ انتظامی اخراجات اور کرایہ کے سوا کسی قسم کی کسٹم ڈیوٹی، مرکزی، صوبائی یا میونسپلٹی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔
3۔پاکستان نے افغان مال کے گزرنے کے طریقہ کار کو آسان بناتے ہوئے پورٹ ٹرسٹ،کسٹمز اور ریلوے حکام کو حکم دیا کہ کراچی، پشاور اور چمن میں مال کو گوداموں میں رکھنے کے کرائے میں کمی کر دی جائے۔


4۔ افغانستان سے مال لے جانے کے عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے پاکستان نے چمن سے افغانستان تک ریلوے لائن بچھانے کی منظوری دی لیکن افغانستان نے ایسا نہ کیا۔
5۔ پاکستان افغان مال پر وہی کرایہ وصول کرتا تھا جو اندرون ملک اپنے مال پر کرتا تھا۔
6۔پاکستان نے ریلوے ویگنوں کی فراہمی کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا لیکن افغان حکام نے اس کا مناسب جواب نہ دیا۔


یہ معاہدہ تین سال تک کار آمد رہا اور افغان حکومت کے ناروا سلوک کی وجہ سے 1961میں ختم ہو گیا۔
سفارتی تعلقات کا خاتمہ
6ستمبر 1961میں پاکستان نے افغانستان کے منفی سلوک کی وجہ سے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھے لیکن افغانستان نے برطانیہ کو پاکستان کے مفادات کا نگران تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

تاہم پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر نے کہا کہ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات کے انقطاع کے باوجود1958کے معاہدے کے مطابق افغانستان پاکستان سے مال گزار سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی کوششوں کے باوجود حالات خراب ہوتے گئے اور افغان حکومت نے 14ستمبر 1961کو پاکستانی تاجروں کی املاک ضبط کر لیں۔21ستمبر1961کو افغانستان کے وزیر اعظم سردار داؤد نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی کے لیے مندرجہ ذیل شرائط پیش کر دیں۔


1۔پاکستان اس امر کی ضمانت دے کہ پختون قبائل کو حق خود ارادیت دیا جائے گا، کسی دوست ملک کی ضمانت دی جائے کہ جو پاکستان کی یقین دہانی کا ضامن ہو اس سلسلے میں امریکہ کو ترجیح دی جائے گی ۔
2۔ ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں واقع قبائلی علاقہ سے ، جسے افغان آزاد پختونستان کہتے ہیں ، پاکستانی فوج ہٹا لی جائے ۔
3۔ مقید افغان لیڈروں کو رہا کر دیا جائے ۔


4۔ پاکستان میں افغانستان کے قونصل خانے اور تجارتی دفاتر دوبارہ کھول دیے جائیں۔
ستمبر1961میں پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات کے انقطاع کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کی متعدد کوششیں کی گئیں جو ناکام رہیں ، تاہم 23مئی1963کو تہران میں ہوئے مذاکرات کامیاب رہے جس کے نتیجے میں 28مئی کو دونوں ممالک تعلقات کی بحالی پر رضامند ہو گئے ۔

پاکستان اور افغانستان کی طرف سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک دوستی، خیر سگالی اور باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر یں گے۔ تہران کی بات چیت کے لیے شاہ ایران کا شکریہ ادا کیا گیاجن کی کوششوں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ افغان وزیر اطلاعات سید قاسم شیشہ نے کہا کہ ’ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا‘۔

دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد یکم جولائی1964کو صدر ایوب خان نے کابل کا دورہ کیا جہاں ظاہر شاہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔7فروری1967کو ظاہر شاہ اپنی ملکہ حمیرہ کے ساتھ پاکستان آئے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ 1971کی جنگ میں افغانستان غیر جانبدار رہا۔ حالانکہ بھارت اور روس نے اس موقع پر ظاہر شاہ کو پاکستان پر حملہ کرنے پر اکسایا تھا۔


ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں
6اگست1972میں ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان کی حیثیت سے افغانستان کا دورہ کیاجس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ زمینی راستے سے افغا نستان سے بھارت کو تازہ پھلو ں کی برآمد کی اجازت دے دی جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ظاہرشاہ کے زمانے میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کافی بہتر تھے ۔

لیکن17جولائی 1973کو سردار داؤد نے فوجی انقلاب کے ذریعے شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ” پاکستان واحد ملک ہے جس کے ساتھ افغانستان کا کوئی جھگڑا ہے ، ہم یہ تنازعہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، افغانستان پختونستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا“۔سردارداؤد خان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد افغان پالیسی یکسر بدل گئی اور اس نے پاکستان کے خلاف پراپیگینڈا تیز کر دیا۔

وزیر اعظم بھٹو نے افغان حکمرانوں کو متعدد بار مذکرات کی پیش کش کی لیکن افغان حکومت نے اس کی پرواہ نہ کی اور پاکستان کی طرف سے دوستی کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا۔ چنانچہ پاکستان کو مجبوراً اپنی شمال مغربی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے انتظامات کرنے پڑے۔ حالات اس وقت سنگین ہو گئے جب اکتوبر1974میں افغانستان کے نائب وزیر داخلہ وحید عبداللہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پاکستان کے جن علاقوں پر افغانستان کا قبضہ تھا ان کے لیے وہ پاکستان سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جولائی1973کو سردار داؤد کے بر سر اقتدار آنے کے کچھ عرصہ تک پاک افغان تعلقات کشیدہ رہے۔ 9ستمبر1973کو الجزائر میں غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جہاں افغان مندوب نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا زکر بھی کیا اور اسلامی ممالک کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل جناب حسن التہامی کی مفاہمت کرانے کی پیش کش کو بھی سراہا۔ اس ضمن میں انہوں نے ستمبر1974میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور بعد ازاں وہ سردار داؤد سے مذاکرات کے لیے کابل گئے۔

چار روز بعد پاکستان واپس آکر انہوں نے بتایا کہ جب وہ تین ماہ پہلے یہاں آئے تھے تو تعلقات اس قدر کشیدہ نہ تھے ، دونوں ملکوں کے مابین تمام اختلافات کو منصفانہ اور مستقل طور پر حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔تا ہم پاکستان نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس وقت پہل کی جب اپریل1976میں افغانستان میں زلزلہ آیا۔ پاکستان زلزلہ زدگان کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی امداد کا عطیہ افغانستان کو دیا۔


خیر سگالی کے جذبات کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر داؤد نے وزیر اعظم پاکستان کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی جو جون 1976میں کیا گیا ۔ اس چار روزہ دورے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور انہیں پر امن خطوط پر قائم رکھنے کے لیے اہم قرار دیا گیا۔ اس کے بعد افغان صدر داؤد بھی پاکستان کے پانچ روزہ دورے پر پاکستان آئے اور انہوں نے لاہور میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جو مشکلات حائل ہیں وہ ایک یا چند بار کی بات چیت سے حل نہیں ہو سکتیں ، لیکن اگر دونوں ممالک نیک نیتی سے ایک دوسرے کے قریب آئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ منزل مراد تک پہنچ جائیں گے۔

بلا شبہ یہ حقیقت وضاحت کی محتاج نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مفاہمت اور خلوص کے جزبے سے سرشار ہو کر پر امن بات چیت سے ہی فروغ دیا جا سکتا ہے “۔ افغان صدر کے دورہ پاکستان کے اختتام پر جو اعلان ہوا اس میں دونوں ملکوں نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ڈیورنڈ لائن تنازعہ ۔
ماضی میں افغانستان کیمونسٹ روس اور برطانوی سامراج (ہند) کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔

روس دریائے آمو تک جبکہ مشرق میں برطانیہ ڈیورنڈ لائن تک آکر رک گیا اور افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان 12اکتوبر1893کو ایک معاہدے کے ذریعے اسے مستقل سرحد کا درجہ دیدیا گیا۔ 1905میں امیر عبدالرحمان کے بیٹے اور جانشین امیر حبیب اللہ نے بھی اس پر کار بند رہنے کی یقین دہانی کرائی ۔ اس کے بعد 1919میں راولپنڈی معاہدہ اور 1921میں اینگلو افغان معاہدے کے ذریعے اس کی توثیق کی گئی ۔

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو دولت مشترکہ کے سیکرٹری نے بھی ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد قرار دیا۔ 1950سے1960تک برطانیہ نے مختلف مواقع پر اس بات کا کئی بار اعادہ کیا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ 1944میں اس وقت ختم ہوگیا تھا جب برطانیہ نے ہندوستان چھورنے سے پہلے افغانستان کو آگاہ کر دیا تھا۔ اس لیے ڈیورنڈ لائن پر آکر افغانستان کے مفادات ختم ہو جاتے ہیں۔

قیام پاکستان کے فوری بعد 30ستمبر1947کو جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں رکنیت حاصل کر نے کے لیے درخواست دی تو جنرل اسمبلی میں درخواست پر بحث کے دوران افغان نمائندے نے کہا تھا کہ افغانستان اس وقت تک کے پی کے صوبے کو پاکستان کا حصہ تسلیم نہیں کر سکتا جب تک اس صوبے کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اس بات کا چناؤ کرنے کا موقع نہ دیا جائے کہ یہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا الگ حیثیت سے۔

افغانستان وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت تو مل گئی لیکن افغان حکمرانوں کی نیت کھل کر سامنے آگئی ۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کبھی انتخابات نہیں ہوئے ، ہمیشہ بندوق کے زور پر حکومتیں تبدیل ہوئیں ،لیکن پاکستان کے مغربی حصوں میں اس نے انتخاب کرانے کی بات کر کے دو طرفہ تعلقات کو ٹھیس پہنچائی۔

افغانستان ڈیورنڈ لائن کے متعلق قیام پاکستان سے لیکر اب تک چار نکات اٹھاتا رہا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے طاقت کے ذریعے اس سرحد کو قائم کیا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سر ہنری مور ٹائمر ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمان کے درمیان پائے جانے والے معاہدے کی مدت 100 سال تھی جو1993میں ختم ہو چکی ہے۔ افغان سیاستدانوں اور سماجی و مذہبی رہنماؤں نے عوام کی اکثریت کو اس نکتے کا بہکاوا دے رکھا ہے۔

افغانستان میں اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ برطانیہ نے یہ معاہدہ امیر عبدالرحمان سے جنگ کی دھمکی اور اقتصادی پابندیوں اور ناکہ بندیوں کے ذریعے مجبور کر کے کیا تھا۔لہذا دنیا کا کوئی قانون جبری طور پر کیے گئے معاہدے کی توثیق نہیں کرتا بلکہ اس کی تنسیخ کر تا ہے۔ افغانستان کے امیر نے اس سلسلے میں لویہ جرگہ طلب کیا نہ حکومتی ارکان سے مشورہ کیاتھا۔

اس ضمن میں تیسرا نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ 31جولائی 1947میں برطانیہ کے برصغیر سے جانے کے بعد ،افغان وزیر اعظم شاہ محمود خان اور برطانوی سیکرٹری آف امور خارجہ ،کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ خود بخود ختم ہو جائے گا، اس سرکاری نکتہ نگاہ کو14اگست 1947سے پہلے افغانستان کی طرف سے اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں افغان خارجہ پالیسی میں ڈیورنڈ لائن اور پختونستان کے قیام کو خاص جگہ دے دی گئی۔

افغان سیاست میں اس سلسلے کا چوتھا نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ صدیوں سے اس سرحد کے دونوں طرف بسنے والے پشتون دراصل مقامی سطح پر تحریک چلانے کی راہ میں مزاحم ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ نسلی، مذہبی اور سماجی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔چنانچہ افغان لیڈروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کواخلاقی طور پر قبول کر رکھا ہے۔
وزیراعلیٰ حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل
فروری1975میں کے پی کے( اس وقت کے صوبہ سرحد ) کے وزیر اعلیٰ حیات محمد خان شیر پاؤ کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔

اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس قتل میں افغانستان کا بھی ہاتھ ملوث ہے۔ حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ ایک ہمسایہ ملک پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے ۔یہ بقائے باہمی کے اصولوں کے خلاف ہے جس کی بنیاد’ خود جیو اور دوسروں کو بھی جینے کا حق دو ‘ جیسے سنہری اصول پر استوار ہے ۔

پاکستان کے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان نے دھمکی آمیز بیان دیا کہ اگر پاکستان کو مجبور کیا گیا تو وہ بھی جوابی کارروائی کرنے میں حق بجانب ہو گا۔ افغانستان نے اس الزام کی فوری تر دید کی ا ور اسے ایک سیاسی حربہ قراردیتے ہوئے پاکستان سے کہا کہ باہمی تعلقات کا راز بلوچوں اور پختونوں کی امنگوں کی توقیر اور احترام میں پنہاں ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ میں 1973سے ایک افغان سیل بھی قائم تھا جس کے اجلاسوں کی صدارت خود وزیر اعظم کرتے تھے۔

بعد میں یہ سیل خو ابیدہ ہو گیا۔اس کا کام افغان پالیسی کے رہنما اصول وضع کرنا ہوتا تھا۔ اس کے آپریشنل منصوبوں کی نگرانی ڈی جی فرنٹئیر کانسٹیبلری اور ڈی جی آئی ایس آئی کرتے تھے جو افغانستان کے اندر بھی کارروائیاں کرتے تھے ۔ اس سیل کے تعاون سے ہی پاکستان نے افغانستان سے پروفیسر برہان الدین ربانی اور انجینئر گل بدین حکمت یار کو پشاور بلایا۔

جب ان کی مدد سے افغانستان میں جوابی کارروائی کی گئی تو افغانستان فوراًمذاکرات کے لیے تیار ہو گیا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاک افغان تعلقات کشیدہ ترین سطح تک پہنچ چکے تھے۔ صدر داؤد نے جون1976میں پاکستان کے دورے کے دوران وزیر اعظم سے کہاکہ علاقائی استحکام اور خوشگوارتعلقات کی فضا پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان میں اندرونی سلامتی کے لیے جاری فوجی آپریشن کو ختم کیا جائے، بلوچ اور پشتون عوام کی مشکلات پر ہمدردی سے غور کیا جائے۔

عسکری خفیہ اداروں کے مطابق ، ذوالفقار علی بھٹو نے افغان صدر کو جواب میں کہا تھا کہ کچھ پشتون اور بلوچ رہنما منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تاہم پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صوبوں کی طرف سے زیادہ خود مختاری کے مطالبے کے حق میں نہیں ہیں۔ جب افغان صدر نے نیشنل عوامی پارٹی کے گرفتار رہنماؤں کا سوال اٹھایا اور بلوچستان میں شورش کا ذکر کیا تو وزیر اعظم نے کہا” بعض معاملات میں جرنیلوں کے موڈ کو بھی دیکھنا پڑتا ہے، میں اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کروں گا“۔

لیکن افغان صدر کے تین ماہ بعد اگست1976میں دورے تک کوئی تبدیلی نہ آسکی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھٹو نے کہا کہ سردار داؤد سے معاملات طے پا چکے تھے لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ مارچ1977میں زوالفقار علی بھٹو خود مشکلات میں پھنس چکے تھے لہذا اگلے 8ماہ تک کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
ضیا الحق کا دور حکومت اور افغانستان
جنرل ضیاالحق نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے افغانستانکے ساتھ اعلیٰ سطحی روابط قائم کیے۔

وہ افغا نستان کے خیر سگالی کے دورے پر اکتوبر1977میں گئے اور اپنے میزبان کو پاکستان میں سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا۔ صدر داؤد نے کہا کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر دوستی اور خیر سگالی کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گئے۔ افغان صدر نے وہ تمام گفتگو جو چند ماہ قبل وزیر اعظم ذوالفقار علی سے کی تھی ضیا الحق کے گوش گزار کی۔ دونوں سربراہوں نے خطے میں امن کے قیام پر رضامندی کا اظہار کیا اور دونوں کے تعلقات میں حائل روکاوٹیں دور کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

اس ملاقات مین دونوں رہنماؤں کے زاتی مراسم بھی قائم ہو گئے۔اس دو روزہ دورے میں صدر داؤد کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی گئی اور پاک افغان تعلقات ایک بہتر سمت میں رواں ہو ئے۔فوجی حکومت نے وہ حیدرآباد ٹربیونل توڑ دیا جو نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے سے بلوچستان میں حالات معمول پر آگئے،کے پی کے میں حکومت پر اعتماد بڑھنے لگااور افغانستان کے ساتھ صلح کا راستہ متعین ہونے لگا۔

مارچ1978میں افغانستان کے صدر داؤد نے پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا اور باہمی امور جو دونوں ممالک کی پالیسیاں متاثر کر رہے تھے کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اس ملاقات میں خطے میں آنے والے اس طوفان کا زکر بھی کیا گیا جس نے دس سالہ جنگ کا آغاز کیا تھا۔ بلوچ اور پختون رہنماؤں کی رہائی کے لیے جنرل ضیا کے اقدام کو بھی سراہا گیا، اقتصادی تعاون اور وفود کے تبادلے پر بھی بات چیت ہوئی۔

صدر داؤد کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت ایک شاندار تقریب تھی جس میں جیل سے رہا ہونے والے سیاستدان بھی شامل تھے۔ افغان صدر چند روز پہلے رہا ہونے والے خان عبدالولی خان، سردار عطااللہ مینگل، خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔( یہ سب روس نواز تھے) افغانستان واپسی سے پہلے صدر داؤد نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کی اور کچھ ماہ بعد کابل میں دوبارہ ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پاکستان سے روانہ ہونے سے پہلے صدر داؤد نے جنرل ضیاء سے کہا ” افغانستان پاکستان سے دیر پا اور مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے ، ہم نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایک موقف اپنا رکھا تھا جسے تبدیل کرنے کے لیے اسے کچھ وقت چاہیے ،میں افغان رہنماؤں کے جرگے میں اس بات کو رکھوں گا تاکہ پاکستان سے دوستانہ اور بردرانہ تعلقات قائم کیے جا سکیں“۔

جنرل ضیا کو یقین تھا کہ صدر داؤد اپنا وعدہ پورا کریں گے لیکن حالات کسی دوسری طرف نکل گئے ، پھر نہ داؤد رہے نہ ضیاء۔
اپریل1978 میں میں افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور صدر داؤد کو قتل کر دیا گیا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی جن کیمونسٹ افغان فوجیوں نے 1973میں اسے اقتدار دلوایا تھا وہی اس کے قاتلوں میں شامل تھے ۔ ان کی جگہ نور محمد ترہ کئی مسند اقتدار پر بیٹھے۔

ضیا الحق ایران کے دورے پر جانے لگے تو انہوں نے کابل میں مختصر قیام کیا اور نور محمد ترہ کئی سے بھی ملاقات کی ۔ پغمان تپہ میں بلاقات کے دوران نور محمد ترہ کئی نے جنرل ضیا کو بتایا کہ شاہی خاندان دو سو برس تک عوام کا استحصال کرتا رہا ۔اب انقلاب کے بعد عوام ہر چیز کے مالک ہیں اور 1کروڑ10لاکھ بے زمین عوام کو زمینوں کا مالک بنا دیا گیا ہے۔

دونوں سربراہوں میں یہ ملاقات تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہی ۔جب ترہ کئی قتل ہوئے تو حفیظ اللہ امین اقتدار میں آئے ۔ انہوں نے پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر آغا شاہی کو باہمی تعلقات پر بات چیت کے لیے دورہء افغانستان کی دعوت دی جو موسم کی خرابی کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ادھر 26دسمبر 1979کو روس کے فوجی دستے کابل ائیر پورٹ پر اترنے شروع ہو گئے۔

اس کے بعد کے حالات اوپر بیان کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں فوجی مارشل لاء کے بعد اے این پی کی قیادت روس اور افغانستان میں پناہ گزین تھی ۔ جب افغانستان میں انقلاب آیا تو سرخ پوش لیڈر خاں عبد الغفار خان جلال آباد میں تھے ۔ وہ افغانستان کی نئی حکومت سے ناخوش تھے کیوں کہ پختونستان کے مسئلے پر وہ ان کی ہمنوا نہ تھی ۔
افغانستان کے پاکستان دشمن اقدام
پاکستان نے نہ ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان کو بحران سے نکال کر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کیا جائے لیکن افغانستان نے اس کے برعکس سلوک کا مظاہرہ کیا ۔

ایک وقت ایسا تھا کہ افغان حکومت کے اہلکاروں کی تنخو اہ تک پاکستان ادا کرتا تھا۔ ایک دفعہ گندم کی ترسیل کا ایشو سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ پاکستانی ڈیلرز گندم افغانستان سمگل کر کے پیسے کماتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ افغانستان کی آبادی کو بھی پاکستان کی آبادی میں شامل سمجھا جائے اور اسے اسی طرح گندم فراہم کی جائے جیسے پاکستانی عوام کو دی جاتی ہے ۔

جب امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تو کرزئی کوافغان حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس کے دور میں تو پاکستان مخالف اقدامات کی انتہا کر دی گئی ۔ کرزئی نے ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو پارلیمنٹ میں پیش کیا اور کہا کہ پاک افغان سرحد کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے ۔ بلکہ یہ کہا کہ اگر اس وقت اس مسئلے کو چھیڑا گیا تو دہشت گردی کی جنگ متاثر ہو گی۔

پاکستان کی مخالفت میں افغانستان کی کرزئی حکومت اس حد تک آگے چلی گئی کہ اس نے بھارت کو پاک افغان سرحد کے قریب درجنوں قونصل خانے قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ قونصل خانے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان روانہ کیا جاتا ۔ پاکستان کی عسکری ادارے اس کے ثبوت کئی بار بھارت کو دے چکے ہیں کہ اس کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان میں رہ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ۔

بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی ذمہ داری بھی افغانستان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کے ملک کی سرحدوں کے اندر سے پاکستان کے خلاف منصوبے بنتے اور ان پر عمل کرایا جاتا ہے ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں قانون شکن افراد افغانستان میں چھپے بیٹھے ہیں پاکستان کی طرف سے کئی بار ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا لیکن افغانستان نے اسے تسلیم کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ ماضی قریب میں پاکستان سے اہم شخصیات اور ان کی اولادوں کو اغواء کر کے افغانستان لے جایا گیا اور کئی ایک توکروڑوں دالر کا تاوان دیکر رہا ہوئے جبکہ کچھ کو قتل کر دیا گیا ۔ سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Afghan Tanaziya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 June 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.