نیب سے زیادہ بااثر

ملازمت سے نکالے گئے افراد عہدوں پر واپس آگئے

جمعہ 25 مارچ 2016

Nab Se Ziada Ba Asar
شاہ جی:
ہمارے ہاں کرپشن کے خلاف ایکشن تو ہوتا ہے لیکن اس ایکشن کے بعد پھر کرپشن ہی ہوتی ہے۔گذشتہ کئی سال سے ایسے معاملات پر عدلیہ کو ازخود نوٹس ہی لینا پڑرہا ہے کیونکہ جن کی ذمہ داری ہے وہ کہیں اور سے نوٹس لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عدلیہ کے ازخود نوٹس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جنہوں نے ایکشن لینا تھا وہ یا توبے خبر رہے یا پھر کرپٹ مافیا کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے تھے۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ عدلیہ کے ایکشن کو چند خبروں تک محدود کیا جارہا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہی ” چورن“ نئی ” پیکنگ“ کے ساتھ نظر آنے لگتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے اور نیب کے ملزمان کو عدالت نے نوکری سے برخواست کردیا لیکن عدالتی فیصلے کے بعد انہی ملزمان کو پھر نوازا جانے لگا۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق گزشتہ حکومت میں ای او بی آئی میں44ارب روپے کی کرپشن ہوئی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ 400جیالوں کو بھی غیر قانونی طورپر بھرتی کیا گیا تھا۔

یاد رہے ہمارے بعض سیاست دان اپنے دور حکومت میں ہی اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں میں نوکریاں بانٹی ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں حاصل کرنے والوں میں سے 358 افراد کو سپریم کورٹ کے حکم پر ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی اعلیٰ ایوانوں میں تھرتھلی پڑ گئی کیونکہ نکالے گئے افراد میں قائد جزب اختلاف سید خورشید شاہ کا بیٹا سید ناظم علی شاہ‘ بھانجا مظہر علی شاہ اور قریبی عزیز طارق علی شاہ بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 17مارچ 2016ء کو ای او بی آئی میں پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والے بھرتیوں کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ایسے تمام افراد کو ملازمت سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نیب کو راجہ پرویز اشراف کے دامادراجہ عظیم الحق منہاس سمیت تمام بھرتیوں کی تفصیلی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا حکم دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ای او بی آئی میں بھرتی ہونے والے سابق وزیراعظم کے دماد راجہ عظیم الحق منہاس نے ایک دن بھی کوئی سرکاری کام نہیں کیا لیکن گھر بیٹھے تنخواہ اور مراعات وصول کرتے رہے۔

پھر انہیں اگلے گریڈ میں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بطور جوائنٹ سیکرٹری لگادیا گیا۔ اس کے بعد خلاف ضابطہ عالمی بنک میں ایگز یکٹوڈائریکٹر لگایا گیا۔ سرکار کی ان ” پھرتیوں“ پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو موصوف مستعفی ہوکر دوبارہ ای او بی آئی آگئے اور پھر سے گھر بیٹھے بھاری تنخواہ اور مراعات لیتے رہے۔اسی وجہ سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نیب ریفرنس میں ملزم بنے تھے۔

یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے راہنماؤں اور عوامی ٹیکس سے تنخواہ وصول کرنے والی افسرشاہی نے جب کرپشن کی تو پھر انتہاہی کردی۔ محنت کشوں کے فنڈ پر عیش کرنے والے پرویزکلیم بھٹہ ای او بی آئی لاہور میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ موصوف بھی نیب کے ملزم ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ ملزم راجہ فیض الحسن ای او بی آئی کے ذیلی ادارے پر اٹمکوسے تنخواہ لے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ انہیں بھی بطور سزا ملازمت سے نکالا گیا تھا۔ ملزمان میں شامل ای او بی آئی کے 10افسران میں سے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل میگا کرپشن کیس میں پہلے سے گرفتار ہیں جبکہ سابق ڈی جی انویسٹمنٹ واحد خورشید کنور اور سابق فنانشل ایڈوائز ڈاکٹر امتیاز احمد مرزا کو بھی حال ہی میں ایف آئی اے نے کرپشن کے کیس میں گرفتار کیا ہے ۔ دوسری جانب انہی کے ساتھ دیگر کئی بااثر ملزمان کے خلاف سرے سے کوئی کارروائی ہی نہیں کی گئی۔

صورت حال یہ ہے کہ نیب ریفرنس کے دیگر ملزمان میں پیپلزپارٹی کی ایک سابق رکن اسمبلی کے شوہر سابق ڈی جی محمد حنیف بلوچ اور سابق ڈی جی جاوید اقبال کو کمال مہارت سے باعزت ریٹائرڈ کردیا گیا ہے اور انہیں گریجوایٹی اور دیگر فنڈ دیئے گئے ۔دیگر الفاظ میں انہیں کرپشن پنشن بھی دی جارہی ہے۔ دوسری جانب ایک اور ملزم کا فنڈ اور پنشن روک دی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب وطن عزیز میں بااثر افراد کے لئے الگ قانون بنایا جائے چکا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر کیوں ان ذمہ دارا ن کو گرفتار نہیں کیا جاتا جو سیاسی بھرتیاں کرواتے ہیں؟ بدقسمتی سے وہ لوگ تو آزادی ہیں جنہوں نے یہ بھرتیاں کروائیں البتہ جن کے ذریعے بھرتیاں کروائی گئیں وہ شکنجے میں ہیں۔ نیب کے ملزمان کو کاغذی گو رکھ دھندے کی مدد سے مراعات دی جارہی ہیں۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عدلیہ کے فیصلے اور نیب کے ایکشن سے بھی زیادہ بااثر افراد یہاں موجود ہیں؟ آخر کویں سیاسی گھرانوں کے ایسے چشم وچراغ کے خلاف کارروائی نہیں ہوپاتی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nab Se Ziada Ba Asar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.