مقتول بھی ہم، مشکوک بھی ہم

دنیا نے مسلمانوں کیلئے دُہرا معیار بنا رکھا ہے سلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے اور مسلمانوں کو اذیت دینے کیلئے گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دنیا تیزی سے دو حصوص میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایک جانب وہ لوگ ہیں

پیر 2 فروری 2015

Maqtool Bhi Hum Mashkook Bhi Hum
اسعد نقوی:
دنیا بھر میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عام رائے یہی ہے کہ مسلمان اس میں ملوث ہیں اور یورپ اس دہشت گردی کا اصل نشانہ ہے۔ دوسری جانب سچ یہ ہے کہ دہشتگردوں کے حملوں میں مرنے والوں میں سے 95فیصد کے لگ بھگ کا تعلق اسلام سے ہے۔ یہ عجیب جنگ ہے جس میں قاتل اور مقتول دونوں مسلمان ہیں لیکن اس کے ثمرات یورپ سمیٹ رہا ہے۔
اس وقت دنیا کے بڑے مسائل میں سرفہرست دہشتگردی کا مسئلہ ہے۔

ترقی یافتہ ممالک دہشتگردی کے خلاف اربوں ڈالر صرف کر چکے ہیں۔ دوسری جانب متعدد ممالک اسی دہشتگردی کی لپیٹ میں آکر راکھ کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں۔ 9/11کے بعد دنیا بھر نے اس حوالے سے نہ صرف بھرپور توجہ دی بلکہ ہنگامی بنیادوں پر اہم اقدامات بھی کئے گئے۔ کئی ممالک کی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں آئی اور کئی ممالک کی حکومتوں کے تختے اُلٹے گئے۔

(جاری ہے)

”نیٹو فورسز“ کے نام سے دنیا کے طاقتور ممالک ی مشترکہ فوج نے دہشتگردوں کا تعاقب کیا اور انہیں پناہ دینے والے ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیا جانے لگا۔ کئی ممالک نے مسلمانوں کو ویزا دینے کی پالیسی سخت کردی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یورپ سمیت عالمی برادی میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلمان دہشتگردی میں ملوث ہیں۔

اسی طرح اسلام کے بارے میں منفی پراپیگنڈے بھی عروج پر ہیں۔ اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے اور مسلمانوں کو اذیت دینے کیلئے گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دنیا تیزی سے دو حصوص میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایک جانب وہ لوگ ہیں۔ جو خود کو پُرامن اقوام میں شمار کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ بلکہ اس کے خلاف جنگ میں بھی سب سے زیادہ متحرک ہیں۔

ایسے ممالک اپنے عوام کی حفاظت کیلئے ہر اس جگہ حملہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جہاں سے انہیں اپنے اوپر حملے کا خطرہ ہو۔ ظاہر ہے یہ یورپین ممالک ہیں اور امریکہ ان میں سرفہرست ہے۔ اس کے عمومی خیال میں مسلم ممالک دہشتگردوں کے اڈے اور پناہ گاہیں بن چکی ہیں اور مسلمان دہشتگردہیں، یہ منظرنامے کا ایک رُخ ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ اس کے برعکس ہے۔

اگر ہم دہشتگردی اور اس سے متاثرہ افرا د کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان دہشتگردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں خود امریکہ کے سرکاری ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیریزم سینٹر نے 2011ء کی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اگر مذہبی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 5برس میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں میں 97فیصد کا تعلق اسلام سے ہے۔

اسی طرح ایک اور امریکی ٹیم ”دی گلوبل ٹیریزم ڈیٹا بیس“ کے نام سے رپورٹ پیش کی ہے۔ یہ ریسرچ میری لینڈ یونیورسٹی کے زیر اہتمام کی گئی۔ اس میں مذہبی حوالے سے تو اعداد و شمار اکٹھے نہیں کئے گئے کیونکہ ڈیٹا بیس میں صرف زخمیوں اور ہلاک شدگان کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تحقیق پیش کرنے والی ایرن ملر کا کہنا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر اعدادو شمار خبروں سے حاصل کئے تھے، جہاں ہر مرنے والے کے مذہب کا نہیں بتایا جاتا۔

اس لئے وہ یہاں مذہب کی بنیاد پر اعداد و شمار نہیں بتا سکتیں۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان کے ڈیٹابیس میں 50فیصد متاثرین کا ذکر نہیں ہوگا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خبر نہیں آسکی۔ ملر نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ 2004ء سے 2013ء کے دوران 60فیصد حملے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہی ہوئے ہیں۔ یہ تینوں ممالک دہشتگردی سے انتہائی حد تک متاثر ہوئے۔

دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ان تینوں ممالک میں اس حد تک مسلمانوں کی اکثریت ہے کہ انہیں مسلم ممالک کہا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے نتیجے میں متاثر ہونے والے تقریباََ 95فیصد افراد کا تعلق اسلام سے ہے۔ میری لینڈ یونیورسٹی کی محقق کے مطابق مسلم ممالک میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی وجہ سے 95فیصد متاثرین کا تعلق اسلام سے ہی ہے۔

تحقیق کے مطابق یور میں ہونے والے حملوں میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ، 7/7لندن ٹیوب بس پر حملہ، ٹریب بم اور 9/11 اہم ہیں۔ اسی طرح 2004ء سے 2013ء کے دوران یوکے میں 400حملے ریکارڈ ہوئے۔ ان میں زیادہ تر شمالی آئرلینڈ میں ہوئے۔ اسی طرح امریکہ میں 131حملے ریکارڈ کئے گئے اور فرانس میں 47 حملے ہوئے لیکن دوسری جانب صرف معاق میں ہی بارہ ہزار سے زائد حملے ہوئے۔

اگر ہم پورے یورپ کا تقابل صرف عراق سے ہی کرلیں تو بھی واضح ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہی بنے ہیں۔
اب تصویر کا ایک تیسرا رخ دیکھئے: عالمی برادری دہشتگردی کا الزام مسلمانوں پر لگاتی ہے۔ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے کیلئے میڈیا مہم چلائی جاتی ہے۔ دوسری جانب ایف بی آئی بی آئی کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 1080ء سے 2005ء تک دہشتگردی کے 94فیصد واقعات میں غیر مسلم ملوث تھے۔

2014ء کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے جن واقعات میں مسلمان ملوث پائے گئے۔ ان میں صرف 37 امریکی مارے گئے جبکہ مجموعی طور پر اس دوران میں 1لاکھ 90ہزار امریکی قتل ہوئے تھے۔ دیگر الفاظ میں 1لاکھ 90ہزار امریکیوں میں سے صرف 37امریکی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ باقی سب کے قاتل غیر مسلم تھے۔ اسی طرح امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2013ء میں یہودی آبادکاروں کی طرف سے دہشتگردی کے 399اقدام ریکارڈ پر ہیں۔

انہوں نے کئی مساجد اور گرجا گھروں کو بھی مسمار کیا۔ اسی طرح فرانس کی علیحدگی پسند تنظیم ایف ایل این سی نے جزیرہ کورسیگا کو فرانس سے الگ کرنے کیلئے فرانس کے شہروں کے پولیس سٹیشنوں پر دسمبر 2013ء میں مسلسل راکٹ حملے کئے تھے۔ ایسے اعداد و شمار کی طویل فہرست ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں۔
مجموعی صورتحال کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ اقوام عالم کا یہ نظریہ سراسر غلط ہے کہ دہشتگردی کا تعلق اسلام سے ہے۔

یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ مغرب دہشتگردی کے نشانے پر ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق دنیا بھر میں دہشتگردی کا شکار رہنے والے سب سے زیادہ افراد کا تعلق اسلام سے ہے۔ اسی طرح دہشتگردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں سب سے زیادہ اسلامی ممالک کو ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یورپ بھر میں ہونے والی شدت پسندانہ کارروائیوں میں بھی مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم حملہ آور سامنے آئے ہیں۔

اس کے باوجود عالمی میڈیا ایسی خبروں کو اُبھارتا ہے جس میں کسی حملہ آور کا تعلق اسلام سے ہو۔
فی زمانہ دنیا دہشتگردی کے خلاف جس جنگ کا واویلا کررہی ہے اس کا خلاصہ صرف اتنا سا ہے کہ اس جنگ میں مسلمان ہی مقتول ہیں اور مسلمان ہی مشکوک قرار دئیے جارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے نام پر کارروائیاں کرنے والے چند گروہوں کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے کا کلچر ختم کیاجائے جس کا مقصد مذاہب عالم میں ٹکراؤ کے سوا کچھ نہیں۔

او آئی سی سمیت مسلم نمائندہ تنظیموں اور مسلم ممالک کو اس بارے میں مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور علماء کرام کو خاص طور پراسلام کا اصل چہر دنیا کو دکھانا ہوگا۔ اگر بروقت صورتحال کو نہ سمجھا گیا تو عالمی طاقتیں دہشتگردی کا راپ الاپتے ہوئے مسلمانوں کو دیوار سے لگاتی رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Maqtool Bhi Hum Mashkook Bhi Hum is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 February 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.