انسانیت اور انسانی حقوق

انسانی سماج حقوق و فرائض کے ایک متوازن نظام کی شکل میں پروان چڑھتا اورترقی پاتا ہے۔ ان بنیادی حقوق سے انکار ظلم ، جبر، ناانصافی،غلامی اور عدم مساوات جیسی قبیح سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کے درمیان بھائی چارے، باہمی احترام اور وسیع تر امن کے قیام کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا ایک ڈھانچہ تیار کیا ہے

بدھ 11 جنوری 2017

Insaaniyat Or Insaani Huqooq
انسانی سماج حقوق و فرائض کے ایک متوازن نظام کی شکل میں پروان چڑھتا اورترقی پاتا ہے۔ ان بنیادی حقوق سے انکار ظلم ، جبر، ناانصافی،غلامی اور عدم مساوات جیسی قبیح سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کے درمیان بھائی چارے، باہمی احترام اور وسیع تر امن کے قیام کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا ایک ڈھانچہ تیار کیا ہے جسے انسانی حقوق کا عالمی منشور کہا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اس منشور کے ذریعے اسکی رکن قوموں نے بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر، مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق، وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشی و سماجی ترقی کو تقویت دینے اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا مصمّم ارادہ کرتے ہوئے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ وہ خود بھی اقوام متحدہ کے اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گی اوردوسروں سے بھی کرائیں گی۔

(جاری ہے)

قوموں کے اس عہد کی تکمیل کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سمجھ سکیں۔ اس منشور میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تشہیر کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کے ذریعے رکن اور انکے ماتحت ملکوں سے منوانے کیلئے بتدریج کوشش کیجائے۔

حقیقت یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے اس ادراک و احساس کے باوجود یہ دنیا انسانوں کی تخلیق کے روزِ اول ہی سے ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم، جابر و مجبور اور آقا و غلام کے متحارب و متضاد طبقوں میں منقسم رہی ہے۔استحصالی و استبدادی قوتوں سے آزادی کے حصول اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا احساس و ادراک عہدحاضر کی نمایاں خصوصیت ہے جس نے بلا امتیاز شرفِ انسانیت کی عزّت و تکریم کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے ۔

اسی بناء پر دورِ جدید کی تہذیب نے ا نسانی مساوات، شخصی آزادی اور جمہوری اقدار کی ترویج کو اپنے بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کیا ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت ریاست اور معاشرے کی اجتماعی ذمّہ داری ہے۔اقوامِ متحدہ کیجانب سے انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کے اعلان کو آج 68سال ہونیوالے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان ریاستوں کے ہاتھوں بھی، جنہوں نے اس منشور کو تسلیم اور اسکی توثیق کی ہے، انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا جرم سرزد ہوتا رہا ہے اور اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو اس پامالی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

عالمی برادری اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کی ان تھک کاوشوں کے باوجود بھی انسانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے اور انسانی حقوق کے اس عالمی منشور میں بیان کردہ آزادیاں اور حقوق انہیں میسّر نہیں۔صحت بخش اور متوازن خوراک، صاف پانی، معیاری تعلیم ، محفوظ رہائش جیسی بنیادی ضر وریاتِ زندگی کی ریاست کے تمام افراد تک فراہمی ایک ایسا خواب بن کر رہ گئی ہے جسکے شرمندہ تعبیر ہونے کے راستے میں کئی فلک بوس اور آہنی رکاوٹیں حائل ہیں۔

ان بنیادی سہولیات کی فراہمی تو ایک طرف، دنیا کی ایک بڑی آبادی کو تو آج بھی انسان تک تصور نہیں کیا جاتا اور اکیسویں صدی کے روشن اور آزاد خیال معاشرے میں بھی کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کیساتھ امتیازی سلوک ہی نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اسے انسانیت کا بدترین المیہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ اس دنیا میں انسان اور انسانیت کیساتھ یہ نفرت انگیز سلوک جاری ہے جسکے خلاف اکّا دکا صدائیں تو سنائی دیتی ہیں مگر ظلم و جبر کی سیاہ رات کا خاتمہ دکھائی نہیں دیتا۔

دنیا میں ظالم و جابر کے ہاتھوں سے بزورِ طاقت اپنے حقوق چھین لینے کی روایت نے مسلّّح مزاحمت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ دنیا میں جاری اس مزاحمت کا ایک بڑا حصّہ اب مسلح جدوجہد کا روپ دھار چکا ہے۔اگر صرف براعظم ایشیاہی کی مثال لے لیں تو فلسطین و مقبوضہ کشمیر کے خطّے معصوم انسانوں کے خون سے رنگین اوریہ مسائل پوری دنیا کیلئے بالعموم اور عالمِ اسلام کیلئے بالخصوص ایسے ناسور بن چکے ہیں جن پر سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی عالمی برادری کا ضمیر خوابیدہ بلکہ مردہ دکھائی دیتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی دن اپنے ماننے اور منانے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ بس بہت ظلم ہو چکا، بہت خون بہہ چکا، بہت حرمتیں لٹ چکیں، بہت آنسو بہہ چکے، اب ظلم و ستم کی اس روایت کا خاتمہ ضروری ہے۔ محروم طبقے کا استحصالی اور غاصب طاقتوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرنا اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے طاقت کے استعمال کے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا جو عام طور پر استحصالی قوتوں، جابروں اور غاصبوں کا طرہ امتیاز رہے ہیں دراصل اس مایوسی اورنا امیدی کی علامت ہیں جس میں غاصب وجابر کے خلاف محض اسلئے آواز نہیں اٹھائی گئی کیونکہ ان ظالموں کیساتھ بڑی طاقتوں کے معاشی مفادات منسلک ہیں اور غاصب کے خلاف کسی بھی ٹھوس قدم کے اٹھانے میں یہی مفادات حائل ہیں۔

امن پسنداور انسانی حقوق کی علمبرادر قوتوں کو انسانی حقوق کی بحالی کے ان اعلیٰ مقاصد میں اسی صورت کامیابی مل سکتی ہے جب معاشی مفادات کی سطح سے اوپر اٹھ کر اور محروم و مظلوم طبقہ کی مشکلات و مصائب اور اسکے ردعمل کے نتیجے میں تشکیل پاتی ایک غیر محفوظ دنیا کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کوشش کی جائے اوراس غرض سے قابل عمل، ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کئے جائیں ورنہ انسانی حقوق کے ایسے منشوروں کی حیثیت محض کاغذ کی ایک بے جان دستاویز ہی کی رہ جاتی ہے جس پر پڑی بے حسی و بے اعتنائی کی دھول مٹی جھاڑ کراس موضوع پر ہزاروں سیمینار اور تقاریر کی جاتیں ہیں، اسے دوبارہ انہی کتابوں کی الماریوں میں دھول جمنے کیلئے واپس رکھ دیا جاتا ہے ہر بار۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Insaaniyat Or Insaani Huqooq is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 January 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.