دہشت گردی کیخلاف اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد

گذشتہ سال کے آخر میں سعودی عرب کی طرف سے اسلامی ممالک کا ایک ایسا اتحاد بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جو دہشت گردی کیخلاف مل کر ایک موثر فورس کے طور پر کام کریگا۔ پاکستان کو بھی اس اہم فوجی اتحاد کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس پیش رفت کے بعد ملک کے اندر ایک نئی بحث چھڑ گئی

ہفتہ 19 مارچ 2016

DehshatGardi K Khilaf Islami Mumalik Ka Fouji Ittehad
رابعہ رحمن:
عالمِ اسلام آج ایک انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ دہشتگردی نے تقریباً پوری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا اسکی بڑی وجہ مسلم انتہا پسندی کو قرار دیتی ہے اور اسلام کو ایک منفی مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ باوجود اسکے کہ مسلم دنیا خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے دنیا ہمیں دہشتگرد قرار دے رہی ہے کیونکہ تقریباً ہر دہشتگردی کی واردات میں کسی نہ کسی مسلمان کا ہاتھ ہوتا ہے۔

اسلام نہ صرف ایک عالمگیر مذہب ہے بلکہ امن اور بھائی چارے کا درس بھی دیتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مسلم امہ انتشار اور نفاق کا شکار ہے جس کا فائدہ ہمارے دشمن اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک بد امنی کا شکار ہیں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

(جاری ہے)

آج ہمیں مل کر دنیا کو یہ بتانا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ ہم حضرت محمدﷺ کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیشہ عفوو درگزر، بھائی چارے،امن اور اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور جو لوگ اسلام کے نام پر یہ سب کر رہے ہیں ان کا مذہب اس عظیم سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ سب کرنے کیلئے اتحاد، یگانگت اور آپس میں رابطے کی ضرورت ہے جو نظر نہیں آتا نتیجتاً اسلامی دنیا فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں گذشتہ سال کے آخر میں سعودی عرب کی طرف سے اسلامی ممالک کا ایک ایسا اتحاد بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جو دہشت گردی کیخلاف مل کر ایک موثر فورس کے طور پر کام کریگا۔ پاکستان کو بھی اس اہم فوجی اتحاد کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔

اس پیش رفت کے بعد ملک کے اندر ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ ہمیں کسی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اس اتحاد کے مقاصد واضع کیے جائیں۔ حکومت کا موقف یہی رہا ہے کہ پاکستان کسی بھی فوجی اتحاد کا باقاعدہ حصہ تب بنے گا جب اسکے اغراض و مقاصد واضع ہو جائینگے اور ہماری شمولیت امہ کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر ہو گی نہ کہ کسی کے مفادات کی خاطر۔

بعض حلقوں کی جانب سے اسے ایران اور اسکے نظریے کیخلاف اتحاد بھی کہا گیا کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس اتحاد میں ایران کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی بلکہ اس میں شامل زیادہ تر ممالک سعودی عرب کے حلیف سمجھے جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر سیاسی اور عسکری قیادت کی مسلسل مشاورت بھی دیکھنے میں آئی جو کہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے۔ گذشتہ ہفتے اس اتحاد میں شامل ممالک کی افواج نے ایک انتہائی پیشہ وارانہ فوجی مشق میں بھی حصہ لیا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔

وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی سعودی دعوت پرسعودی عرب تشریف لے گئے اور ایک درجن سے زائد سربراہان مملکت کے ساتھ اِن مشقوں کا مشاہدہ کیا۔ ہمارے وزیر اعظم اور آرمی چیف ان مشقوں کی اختتامی تقریب میں خصوصی مہمانوں کے طور پر شریک ہوئے جو کہ نہ صرف ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے بلکہ ہماری افواج کی مہارت اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا بھر پور اعتراف بھی۔

پاکستانی فوج دنیا بھر میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور دنیا ہماری پیشہ وارانہ مہارت کی معترف بھی ہے۔ یہ مقام ہمیں ایسے ہی نہیں ملا بلکہ ہماری تاریخ اور بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بے مثال کامیابیوں نے دْنیا کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک میں ہماری افواج کی کامیابیوں کو ماڈل کے طور پر پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔

اسلامی ممالک کا یہ مجوزہ اتحاد بھی پاکستان کی بھرپور شرکت کے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ بعض مبصرین اسے نیٹو کی طرز پر ایک اسلامی اتحاد قرار دے رہے ہیں جو کہ آج وقت کی ضرورت بھی ہے تا کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ ہم خود دہشت گردی کی اس لعنت کو ختم کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پاکستان اس فوجی اتحاد کی کمان سنبھالے اور آرمی چیف جرنل راحیل شریف اپنے تجربے اور شاندار پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بنا پر اس فورس کی بھی قیادت کریں۔

یہ سب ہمارے لیے بحیثیت قوم ایک اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اتحاد کا دائرہ اور بھی وسیع کیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ اسلامی ممالک اس کا حصہ بنیں۔ اس سے نہ صرف مسلم امہ کے مابین اتحاد و یگانگت میں اضافہ ہو گا بلکہ ہمارے دْشمنوں اور دہشت گردوں کو بھی ایک واضع اور موثر پیغام جائیگا۔ ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کو بھی اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی جائے تاکہ تفرقے کی بات کرنیوالوں کی حوصلہ شکنی ہو۔

اس مرحلے میں بھی پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
آج اسلامی دنیا کو اپنے مفادات اور اختلافات سے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دوسروں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی تباہی کرتے ہوئے بہت دیر ہوچکی ہے اور نتیجہ عراق، شام، یمن، افغانستان اور لیبیا کی صورت حال میں سب کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ جنگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے ایک اجتماعی سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کا تمام اہم اندرونی اور بیرونی معاملات پر مشاورت کے بعد مل کر چلنا یقینا ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو کہ انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہے مگر ہماری تاریخ میں ایسا ہوتا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ اگر مسائل کے حل کیلئے اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ آئندہ بھی کیا گیا تو ہم بہت سے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائینگے۔ اسلامی دنیا تمام تر وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود زوال کا شکار ہے اور دوسرے ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں اور پھر ہمارے وسائل کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ امید کی جانی چاہیے کہ اسلامی ممالک کا یہ فوجی اتحاد مزید وسیع اور موثر ہو گا اور اس پر ایک نظریے اور سوچ کی چھاپ نہیں لگے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

DehshatGardi K Khilaf Islami Mumalik Ka Fouji Ittehad is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.