بیرونی خطرات اور اندرونی خلفشار

اپنے محل وقوع،لاتعداد وسائل،افرادی قوت اور مضبوط دفاعی صلاحیت کیوجہ سے پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی ایک اہم ریاست ہے۔ اندرونی کمزوریوں اور مسائل کے باجود دنیا پاکستان کو نظر اندازنہیں کرسکتی۔ اپنے معرض وجود میں آنے کے ساتھ سے ہی پاکستان ہمیشہ بیرونی خطرات سے دوچار رہا ہے جس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہندوستان جیسا ہمسایہ ہے۔ ہندوستان نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اسکی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے

ہفتہ 24 ستمبر 2016

Berooni Khatraat
رابعہ رحمن:
اپنے محل وقوع،لاتعداد وسائل،افرادی قوت اور مضبوط دفاعی صلاحیت کیوجہ سے پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی ایک اہم ریاست ہے۔ اندرونی کمزوریوں اور مسائل کے باجود دنیا پاکستان کو نظر اندازنہیں کرسکتی۔ اپنے معرض وجود میں آنے کے ساتھ سے ہی پاکستان ہمیشہ بیرونی خطرات سے دوچار رہا ہے جس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہندوستان جیسا ہمسایہ ہے۔

ہندوستان نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اسکی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ہمیں عدم ستحکام کا شکار رکھے۔ 1971 میں پاکستان کا دو لخت ہونا بھی بْنیادی طور پر ہندوستان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا جس کا برملا اظہار پچھلے دنوں ان کے وزیر اعظم نے بھی کیا تھا۔ اسکے بعد بھی آج تک ہندوستان ہر وقت اسی کوشش اور سازش میں مصروف رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔

(جاری ہے)

پاکستان جس خطے میں واقع ہے یہاں بھی امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے بہت سے مفادات ہیں جس کا براہِ راست اثر ہم پر بھی پڑتاہے۔آج بھی وطن عزیز بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے اور ہندوستان کی دشمنی بھی عروج پر ہے۔ بلوچستان میں شورش کو ہوا دینے کا معاملہ ہو یا اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کا یا پھر افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کا ہر جگہ ہندوستان کی حکومت اور اْس کی خفیہ ایجنسی را پوری طرح سے مصروف عمل ہیں۔

افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی اثرو رسوخ اور ہر روز مضبوط ہوتی دوستی کی پینگیں یہ سب صرف پاکستان کو نشانہ بنانے کیلئے ہو رہا ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کا معاملہ ہو یا ایران کے ساتھ دفاعی معاہدہ مقصد صرف ایک ہی ہے کہ پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کیا جائے۔ بد قسمتی تو یہ ہے کہ افغانستان اور ایران جیسے ہمسایہ اسلامی ممالک بھی بوجوہ ہندوستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔

ایرانی سرزمین سے بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار کا پکڑے جانا اور افغان طالبان کے سربراہ کا ایران سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوتے ہی نشانہ بن جانا ایسے واقعات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان سے براہِ راست سرحد نہ ہونے اور ہر طرح کی تجارت کیلئے پاکستان پر مکمل انحصار ہونے کے باوجود افغانستان کے صدر کا حالیہ دورہ بھارت میں پاکستان کو دھمکیاں دینا صرف اتفاق کی بات نہیں ہو سکتی۔

پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس خطے میں اقتصادی تعاون کی نئی راہیں کھول دے گا جس کا براہِ راست فائدہ پاکستان اور چین کو ہوگا۔ جب سے اس منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوا ہے ہندوستان اور پاکستان کے دوسرے دْشمنوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ کبھی چین سے کہا جاتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے خطے سے یہ شاہراہ یا راہدرای نہ گزارے کیونکہ یہ بقول ہندوستان کے ایک متنازعہ خطہ ہے تو ساتھ ہی بلوچستان میں سورش کو پوری طرح سے ہوا دی جارہی ہے۔

پاکستان چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ ہماری خارجہ پالیسی میں ایک انتہائی اہم تبدیلی ہے جسکے تحت امریکہ اور مغرب پر انحصار کم ہو جائیگا جو کہ امریکہ، ہندوستان اور ہمارے دیگر دشمنوں کو کسی طرح قبول نہیں۔ پاکستان کی حکومت اور فوج اس منصوبے کو بر وقت مکمل کرنے میں پوری طرح مصروفِ عمل ہیں جس کی بدولت اب یہ ایک حقیقت کا روپ دھار چْکا ہے۔

آج افغانستان میں عدمِ استحکام اور خانہ جنگی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا ہے باوجود اسکے کہ نہ صرف اس وقت بھی ہم 30لاکھ افغانیوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں بلکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں جاری دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ دنیا میں جاری دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار پاکستان ہوا ہے اور اس جنگ میں ہم سے زیادہ قربانیاں کسی نے نہیں دیں۔

ہمارے تعاون اور قربانیوں کے بغیر اس جنگ میں اس قدر کامیابیاں کبھی حاصل نہیں کی جا سکتیں تھیں۔ ایک طرف ملکی سلامتی کو یہ سنگین خطرات درپیش ہیں تو دوسری طرف اندرونی خلفشار بھی عروج پر ہے جو ہمارے لئے حقیقی خطرہ ہے کیونکہ اندرونی استحکام کے بغیر کسی بیرونی خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی، گروہی، نظریاتی اور فرقہ وارانہ تقسیم دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

بدقسمتی سے بعض سیاسی عناصر اور میڈیا سے منسلک شخصیات اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ایسا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں جس کا نشانہ اس وقت تو بظاہر حکومت ہی نظر آتی ہے مگر حقیقت میں اس کا نقصان ریاست کو ہو رہا ہے کیونکہ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ کوئی احتساب کے نام پر احتجاج کر رہا ہے تو کوئی قصاص کی آڑ میں ایسا کر نے میں مصروف ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نہ احتساب والوں کو کسی احتساب سے دلچسپی ہے اور نہ ہی قصاص والے کو دنیا سے چلے جانے والوں کا دکھ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہر سال چند ماہ تماشا لگانے کے بعد واپس بیرون ملک نہ چلے جاتے۔ نشانہ معصوم اور غریب لوگ ہی بنتے ہیں ایک کو لاشیں مل گئی ہیں تو دوسرے کو انکی تلاش ہے۔ یہ کونسا احتساب،قصاص اور احتجاج ہے کہ ملک کے بعض حصوں میں آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اصحاب ناچ گانا اور جلسے جلوسوں میں مصروف ہیں۔

انسانی جذبات اور احساسات کا اس سے زیادہ استحصال دْنیا میں شاید ہی کہیں اور ہوتا ہو۔ جب جمہوریت ہوتی ہے تو یہ فوج کو دعوتیں دیتے ہیں اور جب فوج آ جاتی ہے تو پھر جمہوریت کے راگ الاپنے شروع کر دیتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ کرپٹ ہے وہ بھی احتساب کی باتیں کرتا ہے۔ ایک طرف ہندوستان ہمارے خلاف بین الاقوامی سطح پر ہرزہ سرائی کرتا ہے تو دوسری طرف اس طرح کے عناصر بھی حکومت کیخلاف اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالت سے رجوع کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دورا ن ہندوستان اپنے بلوچی ایجنٹوں کے ذریعے مظاہرے کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے تو یہ لوگ بھی اپنے ہی وزیر اعظم کیخلاف مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے گھر کی لڑائی دیارِ غیر میں کوئی نہیں لے کر جاتا کیونکہ اس سے آپ خود ہی تماشہ بنتے ہیں۔ یہ سب صرف ذاتی مفاد،عناد اور اقتدار کے لالچ میں کیا جا رہا ہے۔

احتجاج کرنے کا حق سب کو ہے مگر اس کا بھی کوئی وقت،طریقہ اور اصول ہوتا ہے۔ قصاص والے پارلیمنٹ کا حصہ ہی نہیں جبکہ احتساب والے اْس کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نہ تو اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی وہاں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جب یہ باتیں کی جاتی ہیں کہ یہ سب بھی دْشمن کے ایما پر کیا جا رہا ہے تو ایک لمحے کیلئے یہ حقیقت لگتی ہے۔

اگر حکومت اپنی مدت پوری کر لے اور اسکے بعد انتخابات کے نتیجے میں آج کی حزبِ احتلاف اقتدار میں آجائے تو کسی کو نہ تو اعتراض ہو گا اور نہ ہی ملک کسی غیر یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اپنے عروج پر ہے اور وزیراعظم نے اس بارے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا واضع اور بھرپور موقف دْنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس پر ہندوستان کی حکومت کافی پریشانی کا شکار ہے۔

اس موقع پر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا اور وزیرِاعظم کی ذات کو انتہائی غیر مہذب طریقے سے نشانہ بنانا کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریقین ہوش کے ناخن لیں اور کسی قسم کا مزید عدم استحکام اور خلفشار پیدا کرنے کی بجائے اہم امور پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Berooni Khatraat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.