افغانستان و بنگلہ دیش کی پاکستان مخالف بیان بازی

افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان کیخلاف کی گئی تقریر کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بنگلہ دیش نے بھی بھارت کی خوشی کیلئے پاکستان مخالف بیان دینا ضروری سمجھا اور بھارت ہی کی ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال نے اقوام عالم سے مطالبہ کر دیا کہ دہشتگردی کی حمایت کرنے پر پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ بنگلہ دیشی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نہ صرف دہشتگردوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتا ہے انکی حمایت کرتا ہے

جمعہ 30 دسمبر 2016

Afghanistan o Bangladesh Ki Pakistan Mukhalif BayanBazi
خالد بیگ:
افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان کیخلاف کی گئی تقریر کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بنگلہ دیش نے بھی بھارت کی خوشی کیلئے پاکستان مخالف بیان دینا ضروری سمجھا اور بھارت ہی کی ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال نے اقوام عالم سے مطالبہ کر دیا کہ دہشتگردی کی حمایت کرنے پر پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔

بنگلہ دیشی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نہ صرف دہشتگردوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتا ہے انکی حمایت کرتا ہے بلکہ ان دہشتگردوں کو اپنے ہمسایہ ملکوں میں دہشتگردی کیلئے استعمال بھی کرتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر داخلہ نے پاکستان کیخلاف بھارتی اقدامات اور موٴقف کی حمایت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بنگلہ دیش اور بھارت میں ہونے والی دہشتگردی کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔

(جاری ہے)

کچھ اسی طرح کے الزامات افغان صدر اشرف غنی نے 5 دسمبر 2016 ء کو بھارت میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران اپنی تقریر میں پاکستان پر عائد کئے تھے۔ حالانکہ یہ کانفرنس افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل تھی جس میں دنیا کے تمام قابل ذکر ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے قابل عمل تجاویز دنیا کے سامنے رکھنے کی بجائے افغان صدر نے بھارت کے پاکستان مخالف ایجنڈے کو اپنا مقصد بنانے کی کوشش کی۔

اشرف غنی کی تقریر کے انتہائی تکلیف دہ الفاظ وہ تھے جب اس نے پاکستان کی طرف سے دی گئی پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کا ڈراما رچایا کہ ”افغانستان کو پاکستان کی طرف سے مالی امداد کی ضرورت نہیں، پاکستان نے مدد کرنی ہے تو دہشتگردوں کا خاتمہ کرے“بھارتی اخبارات و جرائد نے اشرف غنی کے ان الفاظ کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔

حالانکہ افغان حکومت تعمیر و ترقی کیلئے پاکستان کی طرف سے پانچ سو ملین ڈالر کی فراہم کردہ امداد کو نہ صرف وصول کر چکی تھی بلکہ اسے وہ اپنی مرضی و ضرورت کیمطابق استعمال بھی کر چکی تھی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں ہونیوالے بم دھماکوں میں جتنے افراد گزشتہ پانچ برسوں میں جاں بحق ہوئے اتنے گزشتہ چند ماہ میں صرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں لقمہ اجل بن گئے۔

اسی طرح گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں دہشتگردی کی بھینٹ چڑھنے والے شہریوں کی تعداد ساٹھ ہزار بنتی ہے۔ ان میں پانچ ہزار سے زائد پاک فوج کے جوان و افسران شامل نہیں جو دہشتگردوں سے ملک و قوم کے تحفظ پر قربان ہو گئے لیکن آج تک کسی عالمی کانفرنس، سیمینار یا فورم پر اس حوالے سے نہ کوئی بات ہوئی نہ کسی نے سوال اٹھایا کہ پاکستان پر دہشتگردی مسلط کرنیوالے کون ہیں۔

2005 ء کے بعد سے خودکش دھماکوں میں جس قدر بارود پاکستان میں استعمال ہوا اسکی مقدار سینکڑوں ٹن بنتی ہے۔ یہ بارود کہاں اور کس فیکٹری میں تیار ہوا؟ دھما کوں کیلئے استعمال ہونیوالی گاڑیاں چوری کی ہو سکتی ہیں۔ انہیں اہداف سے ٹکرانے والے کہاں تربیت حاصل کرتے رہے؟ انکی تربیت پر سرمایہ کاری اور پیشہ ورانہ مہارت کس ملک کی فراہم کردہ تھی؟ دہشتگردوں کو جدید خودکار اسلحہ دینے والے کون تھے؟ وہ بھی اتنی بڑی اور بھاری مقدار میں کہ اس سے کسی ملک کی چار ڈویڑن فوج کو مسلح کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان پر الزام تراشی کرنے والے افغانستان یا بنگلہ دیش کے حکمران یہ بھی بتانے کیلئے تیار نہیں کہ خود کش بمبار بم کی شکل میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی میں کیوں پھٹتے ہیں۔ بھارت میں یا بنگلہ دیش میں خودکش دھماکے کیوں نہیں ہوتے؟ پاکستان پر الزام تراشی کا نہ ختم والا سلسلہ صرف اسلئے ہے کہ ہم پاکستانیوں نے بھی مندرجہ بالا سوالات کو عالمی سطح پر اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جب اپنے مذموم مقاصد کیلئے دہشتگردوں کو پروان چڑھانے ‘ انہیں پناہ دینے یا انہیں بطور جنگی حکمت عملی ہمسایوں کیخلاف استعمال کرنے کے حوالے سے پاک فوج کیخلاف بیانیہ تیار کیا تو بعض پاکستانی دانشور بھی بجائے اسے سختی سے مسترد کرنے کے الٹا اسی پاکستان دشمنی پر مبنی بیانیے کو محض پاک فوج سے اپنے سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی بنا پر آگے بڑھانے کا سبب بن گئے۔

لیکن فراموش کر دیا کہ فوج ہی ملک کے جغرافیائی تحفظ کی واحد اور آخری امید ہے۔ پاک فوج کیخلاف 1971ء کے زمانے کا پھیلایاہوا پروپیگنڈہ آج بھی جب کبھی مشرقی پاکستان کا ذکر ہو تو موضوع بحث بن جاتا ہے۔ حالانکہ جون 2015 ء میں بھارتی وزیراعظم مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر جب وہاں Friends of liberation war honour کے نام سے منعقد کی گئی۔ تقریب میں 1971 ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے کے حوالے سے وہ اپنا ایوارڈ لینے کیلئے سٹیج پر آئے تو موصوف نے فخر سے اقرار کیا کہ ”ہاں بھارت نے پاکستان کو توڑنے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا تھا“ بھارتی وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں پہلی بار بھارت کی پاکستان کے خلاف 1971 ء میں جارحیت کے حوالے سے پاکستانی موٴقف کی تائید کر دی جسے وہ آج تک پاکستان کا الزام قرار دیتا آیا تھا۔

پاکستان کی سلامتی کے خلاف پاک فوج کو بدنام کرنے کے حوالے سے تیار کی گئی پالیسی بھارت کی اس وقت کی حکمت عملی تھی جو اب باقی ماندہ پاکستان میں بے عمل ہو چکی ہے۔ حالانکہ بلوچستان میں مسلح مداخلت کے ساتھ ہی وہ پاک فوج کے خلاف وہی مشرقی پاکستان والے الزامات دہراتا چلا آرہا ہے لیکن دنیا ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔اس کے ساتھ ہی اس کا پاک فوج پر دہشت گردوں کی حمایت یا انہیں پروان چڑ ھانے کا الزام 2001 ء میں امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی پیداوار ہے۔

جس میں اسے امریکہ برطانیہ و دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل رہی تاہم اس میں سچائی نہ ہونے کا ادراک رکھتے ہوئے مغربی ممالک تو پیچھے ہٹ گئے لیکن افغانستان میں اپنی موجودگی کو جواز دینے کیلئے امریکہ فی الحال اس طرح کی الزام تراشیوں پر کاربند ہے جبکہ بھارت اسے پاکستان دشمنی میں بطور حکمت عملی استعمال کر رہا ہے جس میں بنگلہ دیش، افغانستان کی طرف سے آئے روز کی الزام تراشی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جسے پاکستان کو ہر سطح پر سختی سے مسترد کرتے ہوئے بھارت سے پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردیوں کا جواب طلب کرنا ضروری ہے لیکن یہ کام اکیلے حکومت نہیں کر سکتی ہمارے میڈیا کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan o Bangladesh Ki Pakistan Mukhalif BayanBazi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.