2017اورعالمی امن کو درپیش خطرات

21ویں صدی کا ہر گزرا ہوا سال تلخ واقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ہر نئے سال میں امیدوں کے برعکس خدشات میں اضافہ ہو جاتاہے۔یہ خدشات در اصل دنیا کو درپیش ان عالمی تنازعات کے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کا امن ایک خواب بنتا جارہا ہے۔اب دنیا میں بوٹس وانا ، چیلی ،کوسٹا ریکا،جاپان،اورماریشیس، سمیت 10 ممالک ہی ایسے رہ گئے ہیں

بدھ 11 جنوری 2017

2017 Or Aalmi Amaan Ko Darpesh Khatraat
21ویں صدی کا ہر گزرا ہوا سال تلخ واقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ہر نئے سال میں امیدوں کے برعکس خدشات میں اضافہ ہو جاتاہے۔یہ خدشات در اصل دنیا کو درپیش ان عالمی تنازعات کے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کا امن ایک خواب بنتا جارہا ہے۔اب دنیا میں بوٹس وانا ، چیلی ،کوسٹا ریکا،جاپان،اورماریشیس، سمیت 10 ممالک ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کا عالمی تنازعات میں کوئی حصہ نہ ہو۔

ہر نئے سال کا آغاز دنیا اس امید کے ساتھ کرتی ہے کہ گزرے سال سے سبق سیکھ کر آنے والے وقت کو بہتر بنائیں گے۔لیکن پھر کہیں نہ کہیں یہ تنازعات کم ہونے کے بجائے طول پکڑ لیتے ہیں۔2017میں دنیا کم و بیش 28 عالمی تنازعات میں گھری نظر آتی ہے۔وہ تنازعات جو سنگین نوعیت کے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہے ان میں لیبیا میں خانہ جنگی ،یمن اور شام کی بگڑتی صورت حال، یورپ میں مہاجرین کی آمد ،عراق بدامنی اور دہشت گردی ،افغانستان اور طالبان کشمکش،شمالی کوریا ،اور جنوبی چائنہ سمندری تنازعہ شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت اسرائیل اور فلسطین ،مصر ،روس ، میں جاری شدت پسندی اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے اور ان میں کوئی بہتری مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہی۔11ستمبر 2001 میں امریکا کے ٹوئن ٹاورز پردہشت گردوں کے حملے کے بعد امریکا نے اپنے ملک کو محفوظ کرنے کی جو مہم شروع کی اب مزید پیچیدہ شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔دنیا کے دوسرے بڑے ممالک نے بھی دہشت گردی کے خلاف اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

گزشتہ پندرہ سال میں افغانستان ،عراق ،شام ، یمن ،لیبیا ،میں حکومتوں یا پھر شدت پسند گروپوں کے خلاف فوجی کا رروائی کی گئی۔اس وقت پوری دنیا ایک آتش فشاں کی مانند نظر آرہی ہے جہاں پر محرومیوں کا لاوا ابل رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر دنیا کے نقشے کو تبدیل کرسکتا ہے۔امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد دنیا کے منظرنامے میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں۔

ان میں سے ایک امیریکا اور چین کے مابین تعلقات ہیں جواپنے اندر دنیا کیلئے کافی دلچسپی رکھتی ہے اور آنے والے وقت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے فیصلے دوسرے ملکوں میں معاشی اور سفارتی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ اور روس کے تعلقات جو بظاہر اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ لیکن امریکی الیکشن کے بعد بدلتے منظر نامے اور گزشتہ 15 سالوں کی امریکی پالیسی کی وجہ سے دنیا میں پھیلی ہوئی مایوسی کا روس بھرپور فائدہ اٹھانے اور نئی صف بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

لیکن شدت پسند عناصر کے خلاف روس کی پالیسی بھی امریکہ سے مختلف نہیں ہے۔امریکہ اور فلیپئن کے درمیان بڑھتی دوریوں کو دیکھتے ہوئے روس کے 2 جنگی بحری جہاز فلیپئن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو چکے ہیں۔روس کی موجودگی گو کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہے تاہم اس نے فلیپئن کے ساتھ جنگی مشقوں اور بحری فوجی تعلقات میں اضافے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

اس کے ساتھ روس چاہتا ہے کہ مستقبل میں وہ ، فلیپیئن ، چین اور ممکنہ طور پر ملائشیاہ کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر جنوبی چین کی سمندری حدود میں مشقیں کرے۔بھارت اور روس کے درمیان جلد ہی ایک طویل مدتی معاہدہ ہونے جارہا ہے۔جس کے بعد بھارت روسی ساخت کے جنگی ہوائی جہاز اور ان کے پرزے مقامی طور پر بناسکے گا۔اس معاہدے کے بعد بھارتی فضائیہ کی طاقت میں اضافہ ہوگا اور روس کی خطے میں مداخلت بڑھ سکتی ہے۔

پاکستان جو کہ گزشتہ 3 دہائیوں سے عالمی طاقتوں کے حقوق کے تحفظ میں پہلے ہی بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھا چکا ہے ۔ خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا اصل فائدہ مستقبل میں کشمیر ایشو پر بھارت کو مل سکتا ہے۔کیونکہ روس جو ہمیشہ سے بھارت سے فوجی روابط رکھتا ہے اسے مزید مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کررہا ہے۔دنیا کی تیزی سے بدلتی صورت حال میں اس خطے میں طاقت کا محور چین ،روس اور بھارت کے پاس رہے گا اور ان تینوں ملکوں کے درمیان باہمی رابطوں ،اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینا پڑے گا تاکہ وہ کم ازکم نقصان اٹھائے اور اپنے لوگوں کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کو بھی قائم رکھ سکے۔دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ تارکین کے حوالے سے رہا جن کا تعلق تمام تر ان مسلم ممالک سے ہے جو خانہ جنگی اور افراتفری کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ جب تک مسلئے کی جڑ یعنی شامی خانہ جنگی ختم نہیں ہوجاتی یہ امید لگانا فضول ہوگا کہ تارکین اور مہاجرین کا مسئلہ اختتام کو پہنچے۔

2017 میں بھی تقریباًیہی صورتحال جاری رہنے کی توقع ہے جیسا کہ گزشتہ سال تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام عالمی طاقتیں اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لائی جائے۔اب امید کے ساتھ بہتر حکمت عملی ہی دنیا کو بہتر شکل دے سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

2017 Or Aalmi Amaan Ko Darpesh Khatraat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 January 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.