پانی ہر سال سمند ر میں ضائع ہو جاتا ہے

ان دنوں موسم گرما کی آمد کیساتھ ہی بجلی بحران پر ایک مرتبہ پھر احتجاج شروع ہو چکا ہے لیکن اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت اپناکردار ادا کرتی نظر نہیں آ رہی اور وہ مسلم لیگ ن جو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی اس کی طرف سے بھی خاطر خواہ کار کردگی کا شدید فقدان ہے

جمعہ 1 اپریل 2016

Pani Har Saal Samundar Main Zaya Ho Jata Hai
احمد کمال نظامی :
ان دنوں موسم گرما کی آمد کیساتھ ہی بجلی بحران پر ایک مرتبہ پھر احتجاج شروع ہو چکا ہے لیکن اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت اپناکردار ادا کرتی نظر نہیں آ رہی اور وہ مسلم لیگ ن جو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی اس کی طرف سے بھی خاطر خواہ کار کردگی کا شدید فقدان ہے ۔ موجودہ حکومت نے توانائی، بحران کے خاتمے کے لیے جتنے بھی منصوبوں کا اعلان کیا۔

جن کا سنگ بنیاد رکھا اور جن ک افتتاح کیا اکثریتی منصوبے ابھی بجلی کی پیداوار میں ناکام ہیں۔ موجودہ حکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ماضی میں بار بار نعرہ لگاتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھی ایسی خبریں سامنے آرہی تھیں کہ حکومت کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کر کے بجلی کے بحران کو ختم کرے گی۔

(جاری ہے)

مگر حکومت اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دے رہی اور ملک اور قوم کا نقصان ہوتا چلا جا رہا ہے ۔

گزشتہ روزی زرعی یونیورسٹی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ارسا راوٴ ارشاد علی خاں نے جہاں کالا باغ ڈیم کی افادیت پر روشنی ڈالی وہاں انہوں نے یہ انکشاف کر کے بھی سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے ہر سال 5 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے ۔راوٴ ارشاد علی خاں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم آبی ذخیروں کی تعمیر میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ہر سال 30 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر کی نذر کر کے سالانہ 18 ارب ڈالر کا نقصان کر رہے ہیں بلکہ 2ملین ایکڑ رقبہ بھی سمندر برد کر رہے ہیں۔

ماہرین کو چاہیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے تحقیقی اعدادوشمار کی بنیاد پر فیصلہ سازوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے متحرک کردار ادا کریں۔ 10 ارب ڈالر تعمیراتی خرچہ کے ساتھ کالا باغ ڈیم سے زراعت کو 3.4 ارب ڈالر جبکہ بجلی کی پیداوار سے 1.4 ارب ڈالر سالانہ بچت ہوگئی اس طرح یہ اپنی لاگت صرف دو برسوں میں مکمل کر لے گا۔ لیکن ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ وزارت پانی وبجلی کے ذمے پاورسیکٹر میں گردشی قرضہ ایک مرتبہ پھر بڑھ کر 337.7 ارب روپے ہو گیا ہے حالانکہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ جاری ہے ۔

لائن لاسز اور بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہاہے ۔ جبکہ وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کی بھڑکیں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ اصلاح و احوال اور بہتری کی کوئی راہ نظر نہیں آر ہی ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور بجلی بحران کے خاتمے کے لیے اپنے اعلانات پر من وعن عملدر آمد یقینی بنائے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب پیپلز پارٹی دور میں چین کی مدد سے پنجاب کے بڑے شہروں میں جو پن بجلی کے منصوبے لگانا چاہتے تھے ان پر کام شروع کیا جائے۔ چنیوٹ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کی جائے۔ عمران خان جو اٹھارویں ترمیم کا بار بار گیت الاپ کر صوبوں کو ڈیمز کی تعمیر کا رستہ دکھاتے تھے وہ خیبرپی کے میں اس کی طرہ کیوں نہیں ڈالتے۔
آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد میں سیاسی سرگرمیاں مانند ہیں۔

جماعت اسلامی کی طرف سے کرپشن کے خلاف پاور دکھائی نہیں جا سکی۔ البتہ روایتی انداز میں فوٹو سیشن تک احتجاجی مظاہرے کئے جاتے رہے۔ تحریک انصاف انٹرپارٹی الیکشن کے حوالے سے اپنے اختلافات پر ایک مرتبہ پھر نیم ماندہ سیاسی جماعت بن رہی ہے اور تحریک انصاف کا ہر دوسرا رہنما اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرتا نظر آ رہاہے۔ جبکہ اس دوران حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے تمام ارکان اسمبلی بھی صرف اور صرف انتظامیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریبات تک محدود نظر آرہے ہیں۔

پیپلز پارٹی پرویز مشرف کے ملک سے چلے جانے پر ایک دو روز تک میڈیا میں ان رہنے اور چھوٹے موٹے مظاہرے کرنے کے بعد دوبارہ منظر سے غائب نظر آر ہی ہے البتہ پیپلز پارٹی سے ناراض میان بیوی ناہید خان اور صفدر عباسی ہفتہ رفتہ کے دوران فیصل آباد آئے جہاں انہوں نے اپنی پیپلز پارٹی ورکرز کا ایک ورکرز کنونشن منعقد کیا۔ اس دوران ناہید خان کھل کر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف بولیں اور انہوں نے کہا کہ آصف علی زراری نے ملک کو بیدردی سے لوٹا ہے وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔

صفدر عباسی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نظریے کا نام ہے کسی کو خاندانی پارٹی بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چند روز بعد پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر پیپلز پارٹی کے جیالے روایتی انداز میں جمع ہوں گے۔ جس کے لیے وہ تیاریوں میں مصروف نظر آرہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی اس وقت بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے لیکن پیپلز پارٹی اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہونے کے باوجود سیاسی پارٹی کے طور پر موثر اور حقیقی اپوزیشن کا کرار ادا کرنے سے قاصر ہے ۔

اپوزیشن کی جماعتیں عوام کی ترجماتی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے کب فعال ہوتی ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں گزشتہ کئی برسوں سے بالخصوص پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اپوزیشن کا حقیقی تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pani Har Saal Samundar Main Zaya Ho Jata Hai is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 April 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.