’معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بچے‘

ہم ایسے ماں باپ سے نہیں ملنا چاہتے۔۔۔۔ بھیک منگوانے اور گھروں میں کام کروانے پروالدین کو مجبوراً چھوڑا

منگل 12 مئی 2015

Muashre K Thukraye Hue Bache
عنبرین فاطمہ
”بچے“ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم اپنے مستقبل کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔لاکھوں بچے سکول جانے کی بجائے فیکٹریوں،بھٹوں ،کارخانوں ، ورکشاپوں و دیگر جگہوں پر چائلڈ لیبر کرتے ،گھروں میں کام کرتے اور سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جس پر جتنا دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔

ہمارے حکمران ،سرکاری ادارے اور این جی اوز چائلڈ لیبر کے خاتمے کے بلند و بانگ اعلانات اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً لاکھوں کی تعداد میں لیبر کرتے اور بھیک مانگتے بچے ان کے دعووٴں کا پول کھول دیتے ہیں۔افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ چائلڈ لیبر میں جہاں حکومتی ادارے ذمہ دار ہیں وہیں بچوں کے والدین بھی ذمہ دار ہیں والدین بھوک ،مجبوریوں ،غربت و دیگر چیزوں کو جواز بنا کر خود اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے مزدوری کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

خاص طور پر چھوٹے شہروں کے لوگ اپنے معصوم بچوں کو فیکٹریوں کا ایندھن بناتے ہیں دوسری طرف انہیں بڑے شہروں میں مزدوری اور بھیک مانگنے کیلئے بھیج دیتے ہیں۔
بچوں کو ایڈوانس رقم لیکر بھٹہ مالکان و کارخانوں اور امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کیلئے ان کے حوالے کر دینا اور چند سو روپے کی خاطر بچے کو انکا غلام بنا دینے کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

جبری مشقت اور تشدد کے واقعات دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہیں مجبور، لاچار کم سن گھریلو ملازماوٴں کو بہیمانہ تشدد سے زخمی کر دیاجاتا ہے تو کہیں ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔صرف رواں سال اب تک صوبائی دارالحکومت لاہور جیسے بڑے شہر میں چودہ گھریلو ملازم بچے بچیوں کے کیس سامنے آچکے ہیں کہ جن میں بچوں کو لوہے کے راڈ،پانی کا پائپ ،ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھوکااور کمرے میں قید رکھا گیا ،اور سب سے زیادہ تعجب اورتشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر واقعات پر وزیر اعلیٰ سمیت دیگر حکام نے نوٹسز بھی لئے مگر ہمارے کمزور کریمنل جسٹس سسٹم کے باعث ایک دو روز میں ہی ذمہ دار مالکان کی ضمانتیں ہوگئیں۔

ابھی پہلے واقعہ کی بازگشت سنائی دے ہی رہی ہوتی ہے کہ ایسا ہی بچوں و گھریلو ملازمین پر تشدد کا دوسرا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ہماری پولیس بھی ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی اور کریک ڈاوٴن کی بجائے چپ سادھ لیتی ہے،مگر میڈیا میں جب کوئی ایسا واقعہ سامنے آجائے تو پولیس ،اعلیٰ حکام کے نوٹس پر کاروائی ڈالنے کے لئے ملزمان کو گرفتار تو کر لیتی ہے مگر دوسرے ہی دن ملزمان جیل سے باہر جبکہ بچے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں حسرت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ”سبزہ زار“ کے علاقہ میں ”رمیزہ“ نامی ایک گھریلو ملازمہ کا کیس سامنے آیا جو مالکان کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنی۔پولیس کو اطلاع ملتے ہی انہوں نے مالکان کو گرفتار کرلیا لیکن اگلے ہی روز ان کی رہائی ہو گئی۔ہم رمیزہ سے ملنے کیلئے ”چائلڈ پروٹیکشن بیورو“ پہنچے۔رمیزہ نے کہا کہ مجھے بالکل نہیں معلوم کہ میں کہاں کی رہنے والی ہوں مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میری خالہ نے علی نامی آدمی کے ہاتھوں مجھے کیوں فروخت کیا۔

مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں ایک سال سے اس گھر میں رہ رہی ہوں میری مالکن مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتی، سونے بھی نہیں دیتی سارا دن کام کرنے کے بعد جب بستر پر جاکر لیٹتی تو مالکن آکر مجھے مارنا شروع کر دیتی۔باہر جا کر بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کرتی تھی ایک دن میں باہر چلی گئی تو میری مالکن نے مجھے الیکٹرک راڈ لگایا،پانی کے ساتھ پائپ سے مارا۔


اسی طرح سات سالہ ”ابوبکر“ نے ہمیں بتایا کہ اس کے والدین بابا بلھے شاہ کے رہنے والے ہیں اس کی دو بہنیں اور تین بھائی ہیں یہ سب سے چھوٹا ہے۔ابوبکر نے بتایا کہ میرے والد مجھے بیلٹوں کے ساتھ مارتے تھے مانگنے پر مجبور کرتے تھے ایک روز جب انہوں نے مجھے بہت مارا تو میں ٹرین میں بیٹھا اور سٹیشن آگیا وہاں مجھے کسی نے اپنے پاس بٹھا لیا اور 1121پر کال کرکے مجھے ان کے حوالے کر دیا اس کے بعد میں یہاں آگیا یہاں آکر مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا میں اپنے والدین خصوصی طور پر والد سے نہیں ملنا چاہتا دو تین سال بھیک مانگتا رہا اب میں چاہتا ہوں کہ میں ایک اچھا انسان بنوں۔


نو سالہ ”عثمان شہزاد“ نے بتایا کہ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ میں کہاں کا رہنے والا ہوں ہاں اتنا یاد ہے کہ میرا ایک بھائی اور ایک بہن ہے۔میرا والد جوتیاں سیتا تھا اور مجھے ہر وقت کہتا تھا کہ مانگ کر لاوٴ جب میں اسے کہتا تھا کہ میری عمر کے بچے پڑھتے اور سکول جاتے ہیں تو میرا والد مجھے مارنا شروع کر دیتا تھا جب میں نے مانگنے کی بجائے سکول جانے پر اصرار کرنا شروع کیا تو ایک روز میرے والد نے مجھے کہا کہ آوٴ تمہیں تمہاری نانی امی کے گھر لیکر جاتا ہوں ہم دونوں ٹرین میں بیٹھ کر لاہور آگئے اور میرا ابو مجھے داتا صاحب چھوڑ کر نہ جانے خود کہاں چلا گیا۔

میں مانگ کر لاتا اس کے باوجود میرا ابو مجھے بہت مارتا تھا میں اپنی امی سے بھی نہیں ملنا چاہتا کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ میرا ابو مجھے داتا صاحب ہمیشہ کیلئے چھوڑنے آرہا ہے۔
آٹھ سالہ ”نعمان رمضان“ نے بتایا کہ وہ اعوان ٹاوٴن کا رہنے والا ہے اس کے پانچ بھائی ہیں باپ گولے بیچتا اور مجھے میرا چچا کہا کرتا تھا کہ مانگ کر لاوٴ۔

ابو کو نہیں معلوم تھا کہ میں مانگتا ہوں ایک مرتبہ اس نے مجھے ایسا کرتے دیکھا تو بہت مارا اب چونکہ مجھے مانگنے کی عادت ہو چکی تھی اسلئے میں نے ابو کا کہا نہ مانا اور گھر چھوڑ کر یہاں آگیا۔
سات سالہ ”کاشف مجید “ نے ہمیں بتایا کہ اس کے چار بھائی ہیں جڑانوالہ کا رہنے والا ہے اس کا ابو نشہ کرتا تھا۔کام کرنے کے لئے ایک الیکٹرک کی دکان پر جاتا تھا وہاں مالک بات بات پر بری طرح سے مارتا پیٹتا تھا میری والدہ بھی سگی نہیں تھی وہ مجھے گھر میں برداشت نہیں کرتی تھی میں اپنی دادی کے پاس چلا گیا لیکن ابو مجھے وہاں آکر بھی مارتا تھا اس لئے میں گھر چھوڑ کر داتا صاحب آگیا تھا۔


مسلم ٹاوٴن میں کسی کے گھر کام کرنے والی ”انصر“ نے ہمیں بتایا کہ میرے والدین نے مجھے 26 ہزار کے عوض کسی کے گھر کام کرنے کے لئے چھوڑ دیا یہاں میں دن رات کام کرتی تھی لیکن میری مالکن مجھے پھر بھی مارتی تھی۔نہ کھانا دیتی تھی نہ ہی سونے دیتی تھی ایک روز مجھ پر ایک ہزار روپے چوری کا الزام لگاکر بہت مارا کبھی گرم استری لگا دیتی تو کبھی توا گرم کر کے لگا دیتی۔

میرے والدین کو جب پتہ چلا کہ مجھ پر مالکان اتنا تشدد کرتے ہیں تو انہوں نے بجائے ان کو کچھ کہنے کے مجھے ہی سمجھانا شروع کر دیا کہ چپ رہا کرو۔
”ثمرین“ جو کہ شاہ جمال میں کسی کے گھر کام کرتی تھیں اس نے بتایا کہ میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی مجھے نہیں پتہ کہ مجھے کام کرنے کے لئے کسی کے گھر شاہ جمال کون چھوڑ کر گیا۔

میری مالکن مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتی اور زرا سی غلطی پر ڈنڈوں سے مارا کرتی تھی۔
یہ سب وہ بچے ہیں جن پر کسی نہ کسی طرح ظلم ہوا ان کے پڑھنے لکھنے کی عمر میں کہیں انہیں مانگنے پر لگا دیا تو کہیں انہیں چند روپوں کے عوض لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ان بچوں نے اپنی گفتگو میں صاف کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے والدین ان سے آکر ملیں کیونکہ ان کے والدین نے ان کو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے اور ظلم سہنے کیلئے چھوڑ دیا تو کہیں انہیں مانگنے پر مجبور کیا۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران ،سرکاری ادارے ،خصوصاً والدین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنے ہاتھوں سے قوم کے مستقبل کا گلا مت گھونٹیں۔بچوں کیلئے لازمی تعلیم پر ہر حال میں عمل در آمد کرایا جائے ،فیکٹریوں ،کارخانوں اور دیگر جگہوں پر جہاں چائلڈ لیبر ہوتی ہے وہاں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے مالکان کو سختی سے پابند کیا جائے اور چائلڈ لیبر قوانین پر عملاً اقدامات کرتے ہوئے چائلڈ لیبر میں ملوث کارخانہ مالکان و دیگر ذمہ داران کے خلاف سخت اور بلا امتیاز کاروائی کی جائے۔اساتذہ اور میڈیا سے وابستہ افراد و دیگر ادارے اس سلسلہ میں عوام خصوصاً والدین میں شعور پیدا کرنے کیلئے مہم چلائیں تاکہ ملک سے حقیقی معنوں میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muashre K Thukraye Hue Bache is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 May 2015 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.