موت کی آغوش میں سلگتی زندگی

نشوں کے رسیاء اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ناشکرے ہیں ۔۔۔۔۔ منشیات فروش ملک وملت کی بنیادیں کھوکھلی اور نوجوان نسل کو تباہ کر رہے ہیں

جمعرات 23 جولائی 2015

Moott Ki Agosh Main Sulagti Zindagi
سدرہ امبرین یونس :
دورحاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ منشیات جس نے زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے نشوں کے رسیاء اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ناشکرے لوگ ہوتے ہیں جو اس کی عطاکردہ زندگی کی قدر کرنے کی بجائے اسے برباد کرنے پر تلے رہتے ہیں اور منشیات فروش ملک وملت کے وہ دشمن ہیں جونوجوان نسل کو تباہ کر کے ملک ولمت کی بنیادیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں ۔

انہوں نے صرف چند سال کی خاطر ایسے شگوفوں کو شاخوں سے توڑکرگندگی کے ڈھیر پر رکھ دیا ہے سکول جنہیں قاصدحیات میں قاصد بہار بنناتھا ۔ اس منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے 26جون کو دنیا بھر میں انسد ادمنشیات کے مضراثرات کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی پھیلانا ہے ۔ کتنی اذیت ناک بات ہے کہ سگریٹ ، افیون ، شراب ، ہیروئن اور نشہ اور ادویات کی مخالفت تو سب کرتے ہیں مگر ان لعنتوں کا سدباب کرنے میں کوئی بھی مخلص نہیں ۔

(جاری ہے)

حدیہ ہے کہ سگریٹ قانوناناجائز ہے اور جابجادھڑلے سے فروخت کی جارہی ہے لیکن اخلاق وقانون کا اس طرح مذاق اڑایا جارہا ہے کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر اسکے مضراثرات کا اعلان بھی ساتھ ہی چھاپا جاتا ہے ۔ نشہ آورچیزوں کے رسیاء نوجوان ہوتے ہیں جنہیں ابھی زندگی کے تجربات نہیں ہوتے جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے درمیان کتنا کم فاصلہ ہے یہ لوگ اپنے آپ کو موت سے پہلے ہی زندہ در گور کر لیتے ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں میں سیاسی معاشی عدم استحکال ہوتو وہاں لوگ زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کی تلاش میں اپنے اعصاب کو منشیات کی مدد سے بہلا کر ہی خوش لیتے ہیں مگر افسوس یہ بہلا وہ ان کیلئے موت سے قبل ہی موت کی لوری بن جاتا ہے ۔
آج دنیا بھر میں منشیات کی مقبولیت کا اہم سبب معاشرتی معاشی اور سیاسی عدم استحکام ہے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی اس زہر کو معاشرے میں پھیلانے میں مدد گار ثابت ہورہے ہیں ۔

ڈپریشن سے نجات پانے کیلئے سادہ منشیات کا استعمال کرنے والے وقتی طور پر اعصاب کو سلاکر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طریقے سے ڈپریشن کو ختم کرنا ناممکن ہے نشہ اترنے کے بعد مسائل زیادہ گھمبیر ہو کر سامنے آتے ہیں اور انسان ان سے نبردآزماہونے کے بجائے کئی کترانے میں عافیت سمجھتا ہے کیونکہ نشہ انسان کے اعصاب پر اثرانداز ہوکر آہستہ آہستہ فکروعمل کی طاقت چھین لیتا ہے ۔


اس وقت دنیا بھرمیں 31کروڑ 50لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں ان میں 15سال سے لیکر 65سال تک کے افراد شامل ہیں ۔ 18کروڑ حشیش کے عادی ہیں ایک کروڑ افرادہیروئن کے جبکہ ایک کروڑ 60لاکھ افراد فیون کانشہ کرتے ہیں جبکہ باقی دیگر افراد مختلف قسم کی نوعیت کانشہ کرتے ہیں تمام معاشروں میں منشیات کی لعنت کو پروان چڑھانے میں ان نشہ آور جڑی بوٹیوں کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے جنہیں لگانا اور منشیات استعمال کرنے والوں تک پہنچانا کوئی مشکل بات نہیں اس وقت پوری دنیا میں منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکہ میں کیا جاتا ہے ۔

ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیاء سرفہرست ہے ۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ پاکستان میں منشیات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں افیون پید انہیں کی جاتی مگر اس کے پڑوسی ملک افغانستان سے پاکستان اور کراچی کے ذریعے دنیا بھر میں بڑی مقدار میں منشیات فروشی کا ناجائز کاروبار ہوتا ہے دنیا بھر میں منشیات کی تقریباََ 80فیصد پیدا وار افغانستان سے حاصل کی جاتی ہے ۔


گزشتہ سال صوبہ سندھ میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 96ہزار افراد سرنج کے ذریعے نشہ کرتے ہیں صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ ہے جو بھنگ کا نشہ کرتے ہیں بھنگ کا نشہ کر کرنے والے افراد کی یہ تعداد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ خیبرپی کے آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بھنگ ،افیون اور دیگر اشیاء کا استعمال کرتے ہیں اعدادشمار کے موازنے کے اعتبار سے خیبرپی کے میں افیون کا نشہ کرنے والے افراد کی تعداد ملک بھر میں ایک بڑی تعداد کیمیکل کا نشہ کرتی ہے ۔


صوبہ پنجاب جو کہ پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اس میں نشے کے عادی افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے صوبے کے تقریباََ 8لاکھ 45ہزار افراد ہیروئن اور86ہزار افراد فیون کا نشہ کرتے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی ہر سال 5ارب کے منشیات کا استعمال کرتے ہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں لاتعداد برائیاں جنم لے رہی ہیں ۔
اس وقت پاکستان میں اس چیز کی آگاہی بہت ضروری ہے کہ منشیات کی وجہ سے انسان کی حصت اور مال دولت دونوں ہی برباد ہو جاتے ہیں ۔

پاکستان میں ہیروئن کا کلچر افغان مہاجرین کی وجہ سے متعارف ہوا افغانستان سے آنے والے 30لاکھ مہاجرین میں سے بیشتر ہیروئن کے عادی تھے اور ان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے افراد نشے کے عادی ہوئے تھے اور ان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے افراد نشے کے عادی ہوئے تھے ۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے ایک بڑی جدوجہد کی جائے ۔

حکومت کو چاہئے کہ انسدادڈرگ نارکوٹکس پالیسی کے تحت تمام نوجوان پاکستانیوں کو اس کے مضراثرات کی تعلیم دے اور سکولوں کالجوں میں سوشل ٹریننگ علاج کے پروگرام متعارف کرانے چاہئیں ۔ منشیات کے استعمال کے خلاف مہم میں انٹرنیٹ موبائل فونز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا موثر استعمال کیا جائے وزرارت نارکو ٹکس کنٹرول کو وزارت مذہبی امور کے تعاون سے ایسے پروگرام تیار کروانے چاہئیں جو منشیات کی لعنت اور اس کے مضر اثرات سے طلباء اساتذہ خاص کر مداس کو معلومات فراہم کر سکیں ۔


افسوس ناک بات ہے کہ عالمی سطح پر منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کیلئے کو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ اس کی مجموعی پیدا وار کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے اس صورتحال میں انسد اد منشیات کے حوالے سے اقدامات کا ازسرنوجائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے ۔ بیان کی گئی یہ صورتحال اصل سنگینی کو واضح نہیں کر سکتی حقیقی تصویر اس سے بھی بھیانک ہے بیواؤں اور یتیم بچوں کی کسمپرسی دل دہلادینے والی ہے ۔

نوجوان نشئیوں کے جھکتی کمر والے والدین کی حسرت بھری نگاہیں آہوں بھری سانسیں جسم پہ کپکی طاری کر دیتی ہیں لیکن صرف ان کے لئے جو سنیے میں انسانیت کے لئے درددل رکھتے ہیں مگر ان منشیات فروشوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ارباب اختیار کی آنکھ میں درد کا احساس تورہا ایک طرف پشیمانی کے آنسو بھی نہیں آتے کیونکہ وہ اپنا عیش وطرب انہی نوجوانوں کی رگوں میں نشے کا زہر اتار کر کشید کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Moott Ki Agosh Main Sulagti Zindagi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 July 2015 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.