چائلڈ لیبراور نونہالوں کی تعلیم سے محرومی

تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد، عورت پر لازم قرار دیاگیا اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرو ”چاہیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ یہ ہزاروں سال پرانی بات ہے جب چین جانا انتہائی دشوار گزار تھا، تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہزاروں سال پہلے ہی لگایا جا چکا ہے۔

جمعرات 28 اپریل 2016

Child Labour Or Nonehaloon Ki Taleem Se Mehromi
مظہر حسین شیخ:
تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد، عورت پر لازم قرار دیاگیا اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرو ”چاہیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ یہ ہزاروں سال پرانی بات ہے جب چین جانا انتہائی دشوار گزار تھا، تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہزاروں سال پہلے ہی لگایا جا چکا ہے۔ تعلیم کی اہمیت و فوقیت ہر دور میں رہی اور اور تاقیات رہے گی۔

اس لیے تعلیم کو انسان کو اخلاقی ڈھال کہا گیا ہے۔کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جس دور میں تعلیم یا علم کی اہمیت نہ ہو یا اس کی ضرورت کو محسوس نہ کیا گیا ہو۔ ترقی یافتہ قوموں کی نشانی یا راز بھی تعلیم میں ہی پنہاں ہے۔تعجب و حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے ان سے مشقت لی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

؟ جس ملک کے بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں وہ قوم یا ملک کیسے ترقی کر سکتے ہیں یا ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں؟ یوں تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف بچوں کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ وہ پڑھا لکھا پنجاب چاہتے ہیں لیکن یہ فرد واحد کا کام نہیں اس لیے سب کو یکجا ہونا پڑے گا۔

وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہمارا مشن ہے۔ وہ صوبے سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کر کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کو خصوصی پیکج دیا۔ ہر بچے کو ماہانہ ایک ہزار روپیہ اور مفت کتابیں، یونیفارم اور سٹیشنری بھی حکومت پنجاب فراہم کرے گی۔

اتنی سہولتیں مہیا کرنے کے بعد بی اگر کام کرنے والے بچے نہ پڑھیں یا انہیں نہ پڑھنے دیاجائے تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بچے تو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے وہی کرنا ہے جو ان کے والدین چاہیں گے اور زیادہ تر والدین ایسے ہیں جو کہ بچوں کی پڑھائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں یا یہ کہ لیجئے کہ انہیں پڑھنے نہیں دیاجاتا، چونکہ وہ والدین خود پڑھے لکھے نہیں اس لیے بچوں کو بھی پڑھنے نہیں دیتے ۔

انہیں مشقت کرنے پر مجبور کرتے ہیں ان روکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اخراجات خود بڑھالئے ہوں گے یا پھر زیادہ رقم کے لالچ میں بچوں کی پڑھائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جہاں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے قوانین بنائے گے ہیں۔ وہاں ان والدین کے لیے بھی سخت کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔
چند روز بعد یکم مئی ہے اور اس روز ملک بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

جہاں مزدور اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبورہیں وہاں ”چھوٹے“ مزدوروں سے بھی مشقت لی جاتی ہے ان میں سے اکثر بچے ایسے ہیں جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ پڑھ نہیں سکتے کہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ انہیں پڑھنے نہیں دیا جا تا۔ یہاں چھوٹے بچوں سے زبردستی اور ان کی طاقت سے کہیں زیادہ کام لیا جاتا ہے جبکہ اینٹوں کے بھٹوں پر والدین اپنے بچوں کو زبردستی ساتھ لے جاتے ہیں وہ انہیں ساتھ لے جانے کے لئے اس لئے مجبور ہیں کہ انہوں نے بھٹہ مالکان سے ایڈوانس رقم اتنی زیادہ وصول کی ہوتی ہے اور رقم کی ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے مشقت کروانے پر مجبور ہیں۔

حالانکہ بچوں کی ابتدائی عمر میں ان کے ہاتھوں میں کتابیں اور کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ یہی ہاتھ محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہاں کے بچے صلاحیتوں سے مالا مالا ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران یہی دیکھنے میں آیا ہے بیشتر مزدور کے بچوں نے نمایاں پوزیشنیں حاصل کیں۔ رکشہ چلانے والے اور نان فروش کی نمایاں پوزیشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔


چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے بہتر سی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں لیکن عملی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا ۔ مزدور بچے آج در در کی ٹھوکریں کھانے پ مجبور ہیں چائلڈ لیبر کے خاتمہ کی ذمہ داری بے شک حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن ان مالکان اور والدین کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتاجو ننھے منے ہاتھوں کو مشقت پر مجبور کرتے ہیں جبکہ ذرا سی غلطی ، لاپروائی یا کام میں تاخیر اور چھٹی کی صورت میں انہیں ڈاٹنے کے ساتھ مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں زیادہ تر بچے محنت مزدوری اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں لیکن رواں دور میں اب یہ پریشانی بھی دور ہوگی۔ موجودہ پنجاب حکومت یہ اخراجات خود برداشت کر ہی ہے نہ صرف تعلیمی اخراجات بلکہ ایک ہزار روپیہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ کیا اب بھی بچے پڑھائی کی طرف راغب نہیں ہوں گے؟ تو یہ ان کی بدقسمتی ہو گئی۔

تعلیم کے فقدان کیوجہ سے ہم سے بعد آزاد ہونے والے ممالک جو ہم سے پیچھے تھے آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کیونکہ بچے قوم کے معمار ہیں والدین کا فرض ہے کہ ان معماروں کے روشن مستقبل کے لیے انہیں تن آور درخت بنائیں تاکہ وہ بڑے ہو کر نہ صرف ملک و قوم کی خدمت کریں بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس تن آور درخت سے فیض یاب ہو سکیں ۔

بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا اور انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنانا والدین کا اولین فرض بنتا ہے۔ جب تک والدین نہیں چاہیں گے بچہ تعلیم حاصل نہیں کرپائے گا۔ اس وقت جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے مالی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے ایسے والدین جو گداگری کرتے ہیں یا خانہ بدوش ہیں بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے۔

جہاں کھلے میدانوں میں آپ کو جھگیاں ہی جھگیاں نظر آئیں گی۔ وہا ں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وہ تعلیم سے ناآشنا ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے عادتاََ بھیک مانگتے ہیں اور کچھ گدھا گاڑی چلاتے ہیں یہاں بد قسمتی یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر بچوں کے والدین کام نہیں کرتے وہ فارغ رہتے ہیں۔ بچوں کو روزی روٹی کمانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان میں سے ایسے بچے بھی ہوں گے جو زیرتعلیم بچوں کو رنگ برنگا یونیفارم پہنے کندھے پربیگ لٹکائے سکول جاتے دیکھتے ہیں تو ان کا بھی جی چاہتا ہوگاکہ وہ بھی سکول جائیں اور تعلیم حاصل کریں۔ لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والا کون ہے ۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Child Labour Or Nonehaloon Ki Taleem Se Mehromi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 April 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.