آمنہ کو جیتے جی انصاف نہ مل سکا

خود سوزی وقوعہ کے روز ملزمان نے راہ جاتی آمنہ کا راستہ روک کر تضحیک کی اور طنزیہ جملے کسنے شروع کر دئے۔ بتایا جاتاہے کہ ملزم نے اس موقع پر مٹھائی بھی تقسیم کی جس پر متاثرہ طالبہ آمنہ طیش میں آ گئی

بدھ 19 مارچ 2014

Amina Ko Jeete Jee Insaaf Na Mill Saka
سلیم ناز:
ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے نواحی علاقے میر ہزار خان کی بستی بھنڈی والی کی رہائشی فرسٹ ایئر کی طالبہ آمنہ کے خود سوزی کے واقعہ نے اہل علاقہ کے ساتھ پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی ”ہلا“ کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب متاثرہ خاندان سے اظہار تعزیت کے لئے تحصیل جتوئی پہنچے۔ انہوں نے وقوعہ کے اصل حقائق جاننے کے بعد آر پی او ڈی جی خان امین وینس کو او ایس ڈی‘ ڈی ایس پی مظفرگڑھ‘ ایس ایچ او اور تفتیشی کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے۔

انہوں نے 5 لاکھ کا امدادی چیک دینے کے ساتھ ساتھ متوفیہ کے بھائی کے لئے نوکری کا بھی اعلان کیا۔
بدقسمت آمنہ کی خود سوزی کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل علاقے کے بدقماش بااثر شیطان صفت انسان نادر بھنڈ نے آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

متاثرہ لڑکی اپنے والدین کے ساتھ متعلقہ تھانے پہنچی اور ملزمان کے خلاف پرچہ درج کرایا مگر تفتیشی افسر نے رشوت لے کر ملزمان کو بے گناہ اور زیادتی کے واقعہ کو بے بنیاد قرار دیا۔

تفتیشی کی رپورٹ پر ہونے والے فیصلے نے متاثرہ خاندان کو مایوس کر دیا۔
خود سوزی وقوعہ کے روز ملزمان نے راہ جاتی آمنہ کا راستہ روک کر تضحیک کی اور طنزیہ جملے کسنے شروع کر دئے۔ بتایا جاتاہے کہ ملزم نے اس موقع پر مٹھائی بھی تقسیم کی جس پر متاثرہ طالبہ آمنہ طیش میں آ گئی اور انصاف نہ ملنے پر متعلقہ تھانے کے سامنے پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لی۔

موقع پر موجود بعض لوگوں کے مطابق آمنہ کو خود سوزی پر میڈیا کے بعض افراد نے اکسایا تاکہ خبر کو ہائی لائٹ کر کے اعلیٰ سطح پر انصاف کا مطالبہ کیا جا سکے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے پٹرول کی آگ تو چند لمحوں میں ہی جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ بی بی شعلوں کی نذر ہونے لگی تو متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے مٹی پھینک کر آگ تو بجھا لی مگر وہ آمنہ کو نہ بچا سکے۔

80 فیصد جلنے والی آمنہ کئی گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد نشتر ہسپتال ملتان میں زندگی کی بازی ہار گئی۔ آمنہ کی موت کی خبر جب علاقے میں پہنچی تو کہرام برپا ہو گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ مانگی اور اگلے روز خود متاثرہ خاندان سے اظہار افسوس کے لئے پہنچے۔ وزیراعلیٰ نے تمام حقائق معلوم کرنے کے بعد ڈی ایس پی مظفرگڑھ چودھری اصغر‘ ایس ایچ او تھانہ بیٹ میر ہزار خان اور تفتیشی افسر رانا ذوالفقار کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے۔

انہوں نے ڈی پی او مظفرگڑھ عثمان اکرم گوندل کو معطل اور آر پی او ڈیرہ غازی خان عبدالقادر قیوم کو فوری او ایس ڈی بنانے کا حکم جاری کیا۔ وزیراعلیٰ نے آر پی او ڈیرہ غازی خان اور ڈی پی او مظفرگڑھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے بعد بروقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور فرانزک سائنس لیبارٹری سے ضروری ٹیسٹ کیوں نہیں کرائے گئے؟ تفتیشی افسر کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی؟ یہ افسوسناک واقعہ انصاف کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔

پولیس نے انصاف کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ ابھی تک تفتیشی افسر‘ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیراعلیٰ نے کہا کہ علاقے میں اتنے بڑے ظلم اور ناانصافی پر پولیس اور قانون بے بس پایا گیا جو کہ افسوس ناک بات ہے۔ پولیس تفتیش میں کوتاہی کے باعث یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ نے فاتحہ خوانی کے بعد متوفیہ کے رشتے داروں سے بھی ملاقات کی اور انہیں دلاسہ دیا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور غفلت کے مرتکب اہلکار سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔

ملزموں کو کیفر کزدار تک پہنچائیں گے اور آمنہ بی بی کے خاندان کو ہر قیمت پر انصاف دلاوٴں گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے تقریباً ایک گھنٹہ متاثرہ والدین کے ساتھ گزارا۔ وہ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے دری پر آمنہ کے والد اور والدہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اعلیٰ افسران کو بھی وہاں بیٹھنا پڑا۔ملزم کی والدہ نادر نے اپنے موٴقف میں کہا آمنہ بی بی کی بہن نے میرے بیٹے جعفر سے پسند کی شادی کی۔

اس کے والد نے صلح کے بدلے ایک بیگھہ زمین لے کر صلح کی اور اب ہمارے مویشی حصہ پر آمنہ بی بی کے والد کے پاس تھے جو کہ اس نے غائب کر دئیے تھے اور میرے بیٹے نادر نے مویشیوں کی واپسی کے لئے جتوئی جسٹس آف پیس کی عدالت میں رٹ دائر کر رکھی ہے۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے۔ اگر میرا بیٹا ملوث ہو تو سخت سزا دی جائے بصورت دیگر اسے رہا کیا جائے۔

جبکہ متوفیہ کے والد غلام فرید‘ والدہ نظام مائی‘ بھارت رحمت اللہ اور دیگر نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا کہ میر ہزار خان پولیس اگر انصاف کے تقاضے پورے کرتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آمنہ مائی کے ملزمان کے سرپرست سابق ایم پی اے کے بھائی ہیں جس نے اپنے سیاسی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان کو بے گناہ کرایا۔

اس حوالے سے ایم پی اے حلقہ 259 خان محمد جتوئی نے کہا یہ ہمارے پاس نہیں آئے۔ ہمارے پاس آ جاتے تو ہم انہیں انصاف لاتے۔ جس کو دکھ ہوتا ہے جس کو تکلیف ہوتی ہے وہ ہمارے پاس چل کر آتے ہیں۔ ہمیں کیا پتہ کس کو کیا تکلیف ہے۔ ہم مذمت کرتے ہیں جنہوں نے یہ کیا ہے انہیں کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے۔
ممتاز عالم دین قاری حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے کہا آمنہ بی بی کا افسوسناک اور المیہ سانحہ ہوا ہے۔

اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ہمارے ملک کے عدالتی نظام پر ایک طمانچہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ الارم ہے اور حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعہ کو مثال اور بنیاد بنا کر ملک کے نظام کی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔ آج اگر یہاں پر انصاف نہیں ملے گا تو اس طرح کے واقعات لگاتار ہوں گے۔ پتن ترقیاتی تنظیم کی خالدہ نے کہا یہ واقعہ اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے ہمارے ملک میں انصاف کا نظام کیسا ہے۔

بہت سی لڑکیوں کے خاندان والے اپنی عزت کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ آمنہ کو نظر آرہا تھا کہ اسے انصاف نہیں ملے گا۔ اس لئے اس نے اپنی زندگی ختم کر لی۔ حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔
آمنہ جب زندہ تھی تو پکار پکار کر انصاف کی طلبگار رہی۔ اس نے کہاں کہاں دستک نہیں دی۔ آج وہ منوں مٹی تلے جا سوئی ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہیں۔ اب کیا فائدہ‘ کیا آمنہ اب واپس آ سکے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amina Ko Jeete Jee Insaaf Na Mill Saka is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 March 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.