سیاسی جلسوں کا طوفان

عام شہری کے مسائل پھر پس منظر میں چلے گئے۔۔۔ ایک طرف وزیراعظم نواز شریف نے کے پی کے میں عوامی جلسے شروع کر دئیے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان نے بھی پنجاب میں احتجاجی جلسوں کا شیڈول جاری کر دیاہے

Syed Badar Saeed سید بدر سعید ہفتہ 7 مئی 2016

Siasi Jalsoon Ka Tofaan
قومی سیاست کے ایک بار پھر حقیقی عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ بظاہر ملکی موسم کی طرح سیاسی درجہ حرارت بھی عروج پر نظر آرہا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نواز شریف نے کے پی کے میں عوامی جلسے شروع کر دئیے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان نے بھی پنجاب میں احتجاجی جلسوں کا شیڈول جاری کر دیاہے۔ لاہور کے چیئرنگ کراس پروہ ایک بڑا جلسہ کر چکے ہیں۔

ایک طرف وزیراعظم کے مختلف نئے پرانے منصوبوں کے افتتاح کے ساتھ ساتھ وعدوں کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری طرف میاں شہباز شریف بھی پنجاب میں ہنگامی دورے کرتے نظر آرہے ہیں۔ شریف خاندان کے رہنما بظاہر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اقتدارمیں رہنے کے باوجود وہ عوامی رابطوں میں ہیں۔ عمران خان بھی ان کے مقابلے میں اپوزیشن کو اکٹھا کر کے بھر پور پاورشو کرنا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کے اندرونی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ جہانگیرترین کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیوں کی خبر بھی عمران خان کے لیے مسئلہ بن رہی ہے۔ اگرہم مجموعی قومی منظر نامے کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خصوصاََ حکمران جماعت کسی نادیدہ خطرے کو محسوس کر رہی ہے۔ لگ بھگ تین سال بعد اچانک بھرپور پاورشو اور عوامی جلسوں کا شیڈول ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر وقت سے قبل انتخابات کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو چکی ہیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات میں حکومت کمزور نظر آتی ہے۔ لیکن اس میں بھی دورائے نہیں کہ اپوزیشن اس قدر مضبوط نہیں ہو سکی کہ کوئی فیصلہ کن قدم اٹھا سکے۔ اپوزیشن کی صفوں میں بھی مفادات کی وجہ سے دراڑیں نظر آتی ہیں۔ ”متحدہ اپوزیشن“ تو دو ر کی بات ہے فی الوقت تو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین میں ہی انتہائی سطح کے اختلافات جنم لے چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی تاحال کنفیوژ نظر آتی ہے۔۔ یہ کبھی عمران خان کے ساتھ احتجاج کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر فوراََ ہی اس سے دستبر دار ہونے کا بھی اعلان کر دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت تو ملک سے باہر ے لیکن اعتزاز احسن کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ملکی سیاست کا درجہ حرارت، جس طرح تیزی سے بڑھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی حلقے عدم اعتماد کا شکار ہو چکے ہیں۔

کہاجا رہاہے کہ گرمی اور رمضان کے باوجود سحر و افطار پارٹی کے نام پر سیاسی بیٹھکیں جمتی رہیں گی اور جوڑ توڑ کی سیاست کو مزید فروغ ملے گا۔ اس بارے میں ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ تک یہی صورت حال قائم رہے گی اور سیاسی حلقوں میں بے چینی نظر آتی رہے گی۔ اس ساری صورتحال میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا کر کیچڑ اُچھال رہی ہیں۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عوام کے حقیقی مسائل نظر انداز ہورہے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے ملزمان قابل ذکر سیاسی جماعتوں میں ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک سبھی کو پانامہ پیپرز کے انکشافات کا سامنا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پانامہ پیپرز کی اس گرو میں عام شہری کی دو وقت کی روٹی ، کپڑا ، مکان ،ملازمت اور اچھی تعلیم جیسے مسائل یکسر نظر انداز ہو چکے ہیں۔

ایسی صورتحال مزید کرپشن اور انتظامی لاپرواہی کو جنم دے سکتی ہے۔ اس مجموعی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند ہفتے عوامی مسائل کی بجائے زبانی جمع خرچ کو ہی فروغ ملے گا۔بعض ذرائع البتہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ تک کے عرصہ کو حساس قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس ریٹائرمنٹ سے قبل اپوزیشن اپنا سارا زور ایمپائر کی انگلی اٹھانے پر صرف کرے گی جو مزید ہلچل کا باعث بن سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siasi Jalsoon Ka Tofaan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 May 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.