پاک بھارت ایٹمی جنگ

دوکروڑ فوری ہلاکتیں ہونگی آگ کا طوفان ہر شے کو خاکستر کر دے گا

ہفتہ 1 اکتوبر 2016

Pak Bharat Atomi Jang
صابر شاہ :
مقبوضہ کشمیر میں اوڑی کیمپ پر حملہ کے بعد بھارتی میڈیا ، دن رات روائتی اور نیوکلیئر جنگ کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف ہے۔ ایسے چینلز میں جریدہ ” انڈیا ٹوڈے “ بھی شامل ہے۔ انڈیا ٹوڈے “ میں حال ہی میں چھینے والے ایک آرٹیکل میں یہ کہاگیا ہے کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو دونوں ملکوں میں ایک کروڑ 20لاکھ لوگ ہلاک ہوجائیں گے ۔

انڈین ٹوڈے “ لکھتا ہے ۔ سرحد کے دونوں اطراف کشیدگی کی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ پاک بھارت جنگ میں ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کے ہلاک ہونے کے جو اعددوشمار پیش کئے گئے ہیں وہ 14سال قبل ” نیو یارک ٹائمز“ میں شائع ہوئے تھے اسی سلسلے میں جنگ گروپ اور ” جیو “ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی ریسرچ کے مطابق نیویارک ٹائمز نے 27مئی 2002ء کے ایڈیشن میں لکھا ہے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ کے بعد امریکی انٹیلی جنس نے اس ہفتے رپورٹ مرتب کی جس میں وارننگ دی گئی ہے کی اگردونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ چھڑگئی تو ایک کروڑ 20لاکھ افراد فوری طور پر ہلاک ہوجائیں گے اور 70لاکھ افراد زخمی ہونے کا خدشہ ہے ۔

(جاری ہے)

پینٹا گون کے افسران کا کہنا ہے کہ اگر ایٹمی جنگ ہتھیاروں کے اعتبار سے محدود پیمانے پربھی ہوئی توبھی اس کے انتہائی ہولناک نتائج برآمد ہوں گے اور اس کے اثرات پورے ایشیا پر مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر تابکاری اثرات خوفناک ہوں گے۔ قحط پڑے گا اور بیماریوں میں خوفناک اضافہ ہوگا۔ ایسے میں ترقی یافتہ ملکوں ، خاص طور پر امریکہ سے مدد کی ضرورت ناگزیر ہوجائے گی ۔


یہی اخبارآگے چل کر لکھتا ہے ۔ اس بات کا حتمی طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دنوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کتنی ہے اور یہ کتنی دور تک مارسکتے ہیں لیکن پینٹا گون کی انتظامیہ اور افسران کا وسیع ترتناظر میں کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس دور درجن ایٹمی ہتھیار ہیں اور بھارت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کئی درج ہتھیار ہیں۔

پاکستان کے پاس جو ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان مقابلہ ہیروشیماپرگرائے جانے والے بم سے کیاجاسکتا ہے ۔ جس کی طاقت 20کلوٹن یا 20ہزار ٹی این ٹی کے برابر ہے۔ یہ ہتھیار جیٹ طیارے کے ذریعے گرائے جاسکتے ہیں۔ اگر چہ بھارت کے پاس ایئرڈیفنس سسٹم ہے۔ جسے پاکستان سے زیادہ موثر قراردیاجاتا ہے۔ اس کے علاقہ یہ ہتھیار میزائل سے بھی گرائے جاسکتے ہیں۔ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے افسران کاکہنا ہے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیار دھماکہ کی قوت کے لحاظ سے کئی درجوں میں منقسم ہیں تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیار طیارے کے ذریعے گرائے جاتے ہیں یا میزائل کے ذریعے ۔


نیویارک ٹائمز نے مئی 2002ء میں لکھا پاکستان نے اس ہفتے میں دوسری بارمیزائل کا تجربہ کیا ہے۔ یہ میزائل 175میل دور تک مارکرآسکتا ہے۔ افسران کے بقول ” یہ میزائل سرحدوں پربھارتی افواج کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہفتے کو پاکستان نے ایک ایسے میزائل کا تجربہ کیاجس کی رینج 900میل تک ہے پینٹا گون انتظامی افسران نے صورتحال کاجائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگرچہ آزادی کے بعد سے تین جنگیں ہوچکی ہیں لیکن یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ دونوں ملک محض دھمکیوں اورجوابی دھمکیوں سے کام لے رہے ہیں ۔


اخبار کے مطابق اگر دونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ چھڑگئی اور اگر تمام نہیں تو کچھ ایٹمی ہتھیار استعمال کئے گئے تو 90لاکھ سے ایک کروڑ 20لاکھ موات ہوں گی اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 20لاکھ سے 70 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر کاکہنا ہے کہ لیکن یہ وہ اموات ہیں جوفوری طور پر وقوع پذیر ہوں گی۔ ان میں وہ اموات شامل نہیں جو تابکاری شعاؤں سے املاک کو لگنے والی آگے ہوسکتی ہیں اور تابکاری اثرات سے جھلنے کے بعد جو لوگ بعد میں موت سے ہمکنارہوں گے ان کی تعداد اس کے علاوہ ہوگی۔

ایٹمی جنگ کے بعد قحط اور بیماریوں کابھی خطرہ ہوتا ہے ان کااندازہ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ایٹم بم فضاء میں نہیں بلکہ زمین پر پھٹے گا جس سے زمین پرایک بہت بڑا گڑھانمودار ہوجائے گا اور اس سے نکلنے والے ٹنوں مٹی تابکاری اثرات سے آلود ہوگی جو گردونواح میں زہریلی گیسوں کی صورت میں پھیل جائے گی۔ 2002 میں ہی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے (جو کہ ایک آرمز کنٹرول ریسرچ آرگنائزیشن ہے ) اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ بھارت کے پاس 25سے 40 ایٹم بم ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیارون کی تعداد 15سے 20 تک ہے ۔

سوڈیش انسٹیٹیوٹ نے یہ رپورٹ پیش کی بھارت اپنے ایٹمی ہتھیاردو طرح کے لڑاکا طیاروں کے ذریعے گراسکتا ہے۔ ایک مگ 27 اور دوسرا جیگوار۔ پاکستان اس سلسلے میں ایف 16 طیاروں سے کام لے سکتا ہے ۔ سویڈیش انسٹیٹیوٹ نے لکھا ہے کہ بھارت پاس بلاسٹک میزائل بھی ہیں جوایٹمی ہتھیار لے جا سکتے ہیں۔ شارٹ رینج پرتھوی ون ایٹم بم 155 میل تک لے جاسکتا ہے۔ دوسرا دومرحلوں کی اگنی میزائل ہے۔

جس کی رینج 1500میل ہے۔ پاکستان کے پاس شارٹ رینج میزائل ہے ۔ اس کانام حطف IIIہے۔ اس کے علاوہ غزنوی میزائل بھی ہے جس کی پہنچ ” لانگ رینج “ ہے ۔
2016ء کی ایک ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان 2015 میں اسلحہ درآمد کرنے والا دنیا کا 10واں بڑا ملک تھا۔ جبکہ پچھلے سال اس کا 9واں نمبر تھا۔

جبکہ 2014 میں دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھارت تھا۔ سویڈش انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان نے 2015میں اسلحہ کی درآمد پر 735 ملین ڈالر صرف کئے اس کے مقابلے میں بھارت نے 3078ملین ڈالر خرچ کئے ۔ 2015 میں پاکستان نی سب سے زیادہ اسلحہ چین سے درآمد کیا۔ ہتھیاروں کی مالیت 565 ملین ڈالرتھی ،ا س کے بعد امریکہ کا نمبر ہے جس سے درآمد کردہ اسلحہ کی مالیت 66ملین ڈالر ہے ۔


چین پاکستان کو سب سے زیادہ فروخت کرتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف 16 فروخت کرنے کے ایک ماہ بعد منظر عام پر آئی بھارت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان کے اس موقف سے متفق نہیں کہ ایسے ہتھیاردہشت گردی سے نپٹنے کے لئے استعمال کئے جائیں گے ۔ امریکہ نے بھارت کے ایسے تحفظات کو رد کردیاتھا اور کہا تھا کہ یہ ہتھیار اس خطے کی علاقائی سالمیت اور انسداد دہشت گردی کے لئے دیئے گئے ہیں۔


بھارت سب سے زیادہ اسلحہ روس سے درآمد کرتا ہے۔ اس نے 1964 ملین ڈالر کاسلحہ خریدا جبکہ دوسرے نمبر پر اسرائیل اور امریکہ ہیں، جن سے بالترتیب 316 ملین اور 302 ملین ڈالر کا اسلحہ درآمد کیاگیا۔
اکتوبر 2015 میں بزنس ان سائیڈر آسٹریلیا “ نے لکھا کہ پاکستانی فوج دنیا کی 11ویں بڑی طاقتور فوج ہے۔ جریدے کے مطابق رپورٹ نے پاکستان کی فائنل ملٹری قوت کا سکور 0.41قرار دیا اور اسے بھارتی فوج کے بعد (Seven Spots) سے تعبیر کیا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیاگیا کہ کہ پاکستان کے حاضر مسلح افواج کی تعداد سات لاکھ 10 ہزار ہے جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے یہ جرمنی ،آسٹریلیا اور کینیڈا سے زیادہ ہیں۔ رپورٹ میں ہتھیاروں کے حوالے سے 20 ممالک کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اس اسلحہ میں ٹینک ایئرکرافٹ ، ہیلی کوپٹر اور آبدوزیں شامل ہیں۔ ہتھیاروں کے سلسلے میں امریکہ سرفہرست ہے جبکہ اس کے بعد روس چین جاپان اور بھارت کانمبر ہے ۔


یہ ملک ٹاپ 5 کی صف میں آتے ہیں۔ رپورٹ میں امریکہ کی فوجی قوت کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔ جس کے مطابق امریکہ کے پاس 13900طیارے 920 لڑاکا ہیلی کوپر ، 20ایئرکرافٹ کیریئر اور 72 بدوزیں شامل ہیں۔ امریکہ نے 2014 میں اپنے دفاع سے 610 بلین ڈالر صرف کئے تھے جو لوگ اس کے مقابل دوسرے 9بڑے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اسی اعتبار سے امریکہ کو دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ برتری حاصل ہے، یہاں اس بات کاذکر ضروری ہے۔

2015میں سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ایربک نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے موجودہ ایٹمی دور میں روائتی افواج فوجی طاقت کا مظہر تصور نہیں ہوتیں بلکہ ایٹمی ہتھیار زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پوری فوج ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے روس اور امریکہ 90فیصد سے زائد ایٹمی اسلحہ کے مالک ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Bharat Atomi Jang is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 October 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.