NA246 کا ضمنی انتخابی معرکہ، میدان سج گیا، کون جیتے گا؟

ضمنی الیکشن سارے سال کہیں نہ کہیں ہوتے رہتے ہیں لیکن کراچی کا یہ معرکہ کئی اعتبار سے اہم، منفرد اور مختلف ہے اول یہ کہ شیری سندھ کی موثر انتخابی قوت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ 90 بھی اسی حلقے میں آتی ہے

جمعرات 23 اپریل 2015

NA 246 Zimni Intekhabi Maarka
الطاف مجاہد
کراچی سمیت سندھ بھر میں موسم گرم ہے اور یہ حدّت سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے کہ کراچی کی پوش آبادی فیڈرل بی ایریا، فیڈرل کیپٹل ایریا، لیاقت آباد، کریم آباد، بھنگوریہ گوٹھ، بندھانی کالونی اور موسیٰ کالونی سمیت متعدد بستیوں پر مشتمل انتخابی حلقے NA246 میں 23 اپریل کو ضمنی الیکشن ہونا ہے۔
ضمنی الیکشن سارے سال کہیں نہ کہیں ہوتے رہتے ہیں لیکن کراچی کا یہ معرکہ کئی اعتبار سے اہم، منفرد اور مختلف ہے اول یہ کہ شیری سندھ کی موثر انتخابی قوت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ 90 بھی اسی حلقے میں آتی ہے اور نشست کو ایم کیو ایم ایسی ہی محفوظ تصور کرتی ہے جیسے بھٹو فیملی لاڑکانہ کو 1988ء سے،یہ نشست متحدہ نے جب بھی الیکشن لڑا با آسانی جیت لی ماسوا 93ء کے انتخاب کے جس کا کہ اس نے بائیکاٹ کیا تھا۔

(جاری ہے)

الطاف حسین نے اس حلقے سے جیکب آباد کے عزیز اللہ بروہی اور لیاری کے نبیل گبول کو کھڑا کیا تو وہ بھی جیتے اور ناقابل شکست رہے لیکن حال ہی میں آخر الذکر کی متحدہ سے علیحدگی اور استعفےٰ کے بعد انتخابی معرکہ آرائی گرم ہے تو مقابلہ جماعت اسلامی کے ر اشد نسیم اور تحریک انصاف کے عمران اسمعیل کے درمیان برپا ہے۔ ویسے تو اس حلقے سے کم و بیش 10امیدوار ہیں جن میں سے متحدہ کے کنور نوید، جمیل پتنگ، تحریک انصاف کے عمران اسمعیل بلے اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم کے ترازو کے نشان پر ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن پاسبان کے عثمان معظم کو الیکشن کمیشن نے غبارہ، اسلم شاہ کو پریشر ککر، پرویز علی کو بوتل، اظہر الحسن قادری کو الیکٹرک ہیٹر، عثمان علی کو تربوز، سیمازریں کو ڈریسنگ ٹیبل، عبدالستار انصاری کو کیمرہ، محمد ایوب کو ڈول اور معظم ظفر کو بالٹی کا انتخابی نشان الاٹ کیا ہے۔

شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ سے ماضی میں تعلق رکھنے والے طالبعلم رہنما محفوظ یار خان (انتخابی نشان سوٹ کیس) کنور نوید کے حق میں جبکہ تحریک انصاف ہی کے اشرف قریشی (ٹوتھ برش) عمران اسمعیل کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی کی رونقیں واپس لانے، عمران اسمعیل کراچی سے خوف کی فضا ختم کرنے کے مدعی ہیں تو ایسے میں پاسبان کے عثمان معظم نے کراچی کو انتظامی طور پر صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے متحدہ کے کنور نوید کا کہنا ہے کہ دھاندلی کا شور مچانے والوں نے پہلے ہی مرحلے میں شکست تسلیم کر لی ہے۔

این اے 246 میں انتخاب کون جیتے گا ظاہر ہے کہ ایک نشست پر تین مد مقابل ہوں اور ان میں سے دو کا ہدف ایک ہو تو نقصان کا سودا وہ کر رہے ہیں جن کے ووٹ تقسیم ہوں گے جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ وہ اس حلقے سے 88ء سے متحدہ قومی موومنٹ کو چیلنج کر رہی ہے۔ بدترین حالات میں بھی اس نے میدان نہیں چھوڑا۔ اس کے امیدوار راشد نعیم 2002 سے امیدوار ہیں جب انہوں نے 32 ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے مد مقابل متحدہ کے عزیز عزیز اللہ بروہی تھے 2008ء میں جماعت اسلامی بائیکاٹ پر تھی 2013ء میں متحدہ کے نبیل گبول نے ایک لاکھ 36 ہزار سے زائد یا جماعت اسلامی کے راشد نعیم نے 10 ہزار سے زائد اور تحریک انصاف نے عامر شرجیل نے کم و بیش 31 ہزار ووٹ لئے تھے جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ اس نے چونکہ 11 مئی کو الیکشن کا دوپہر میں بائیکاٹ کر دیا تھا اس لئے اس کے سپورٹر نے متحدہ دشمنی میں PTI کو ووٹ دیئے تحریک انصاف کا مووٴقف ہے کہ اسے نہ صرف عزیز آباد بلکہ لیاری، بلدیہ اور ڈیفنس سے بھی نہ صرف بھرپور عوامی حمایت ملی بلکہ اسے 3 ایم پی اے اور ایک رکن قومی اسمبلی عارف علوی بھی کراچی منتخب ہوئے اس لئے کراچی کے عوام کی دوسری چوائس پی ٹی آئی ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھاندلی نہ ہوئی تو نتائج عمران خان کے امیدواروں کی کامیابی کی نوید لے کر آئیں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ جو لوگ رینجرز کی زیر نگرانی الیکشن میں انتخابی عملہ اور دیگر باہر سے منوانے کا مطالبہ کریں تا کہ الیکشن جیت جیت سکیں کیونکہ این اے 246 تو الطاف بھائی کا قلعہ ہے یہاں سے الیکشن جیتنا عمران اسمعیل کے بس کی بات نہیں۔
این اے 246 میں بوہری، اسمعیل، میمن بڑی تعداد میں آباد ہیں ویسے یہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے جبکہ پنجابی، پشتو، سرائیکی، سندھی اور بلوچ بستیاں اور ووٹ بنک بھی موثر تعداد میں موجود ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان کے صاحبزادہ زبیر گروپ کراچی کے صدر قاضی احمد نورانی نے جماعت اسلامی کے راشد نعیم کی ادارہ نور حق جا کر حمایت کا اعلان کیا تو مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے فرزند ارجمند شاہ اویس نورانی نے اپنی رہائش گاہ بیت الرضوان کلفٹن مدعو کر کے عمران اسمعیل کی کامیابی کیلئے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی اسی طرح مجلس وحدت المسلمین نے پاکستان تحریک انصاف اور اہل تشیع کی جعفریہ الائنس سمیت گیارہ تنظیموں کے رہنماوٴں نے کنور نوید کو حمایت کا یقین دلایا۔

جماعت اسلامی تحریک انصاف سیال حمایت کیلئے بھی کوشاں ہیں مسلم لیگ ن سندھ کے صدر اسمعیل راہونے جماعت اسلامی کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے تو جماعت اسلامی کے حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑے اس کی حمایت کر رہے ہیں جماعت اسلامی کے ترجمان نے واضح اور قطعی انداز میں کہا کہ راشد نعیم کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے جماعت کے کارکنان اور عوام ایک ہو کر ترازو کو کامیاب بنائیں صوبہ خیبر پختون خوا کے دونوں اتحادی کراچی میں برسرِپیکار ہیں اور ان کی پنجہ آزمائی متحدہ کی تقویت کا سبب رہی ہے کہ متحدہ مخالف ووٹ بنک منقسم ہو رہا ہے۔

پی پی نے جو صوبے میں برسراقتدار ہے گو کہ کسی کی حمایت نہیں کی لیکن اسی کی لاتعلقی کو متحدہ کی حمایت کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ سراج الحق کی کراچی میں مسلسل موجودگی، خواتین کا بڑا جلسہ، عمران خان اور ریحام خان کی جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی سمیت کراچی اور الطاف حسین کے مسلسل ٹیلی فونک خطابات نے لیاقت آباد سے یوسف پلازہ تک شاہراہ پاکستان کو جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور انتخابی کیمپوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

یہاں کی رونقوں سے کاروباری طبقہ عاجز آچکا ہے۔ اسی کا کہنا ہے کہ ہمارا دھندہ متاثر ہو رہا ہے حکومت سیاسی اجتماعات کے لئے کوئی اجتماع گاہ کا مستقل بندوبست کرے ان اجتماعات میں تقاریر بھی دلچسپ ہیں سراج الحق نے کہا کہ اب جی تھری (بندوق) کا دور نہیں 3 جی (ٹیکنالوجی) کا دورہ ہے، ایک اور موقع پر ان کا کہنا تھا شہر قائد کی قسمت کا فیصلہ لندن نہیں کراچی میں ہوگا۔

بھتہ مافیا سے تنگ تاجر کراچی چھوڑ رہے ہیں۔ ماوٴں، بہنوں کو خوف سے نجات دلائیں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مہاجر کے نام پر بندوق کی سیاست سے کراچی کو نقصان ہوا۔ 1985ء سے قبل کراچی دانشوروں، کھلاڑیوں، خطیبوں، بیوروکریٹس کا شہر تھا، اب مجرم نکل رہے ہیں۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ کراچی کو مادر ملت کی حمایت کی سزا ملی۔ بھٹو نے مہاجروں اور سندھیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کوٹہ سسٹم دیا۔

اسٹیبلشمنٹ ہمیں برابر کا پاکستانی سمجھے۔ ہماری غلطیاں آپ معاف کر دیں آپ کی ہم معاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے پٹائی اور جماعت اسلامی سے جی بنتا ہے ہم پٹائی جی نہیں مٹھائی جی ہیں ایسے بھی جملے امیدواروں کے ہیں اور بہت سے لطیفے واقعات بھی فیس بک، سوشل میڈیا اور سینہ بہ سینہ منتقل اور ڈس کس ہو رہے ہیں۔
این اے 246 پر تمام حفاظتی انتظامات مکمل ہو چکے ہیں ضلع و سطی میں جس کے ایک حلقے میں انتخاب ہو رہا ہے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر 24 اپریل تک پابندی لگائی جا چکی ہے۔

10 ہزار سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی دیں گے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر CCTV کیمرے نصب کرنے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر و باہر رینجرز کی تعیناتی کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ دفعہ 144 کے نفاذ پانچ سے زائد افراد کے پولنگ سٹیشن میں داخلے پر پابندی اور مانیٹرنگ روم کے قیام کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ضمنی انتخاب کے حوالے سے ضابطہ اخلاق بل جاری کر دیا گیا ہے۔ 3 لاکھ 58 ہزار 500 بیلٹ پیپرز رینجرز کی نگرانی میں ریٹرننگ افسران تک پہنچا دیئے گئے ہیں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کے موبائل فون اور کیمرہ پہنچانے پر پابندی ہوگی گو کہ اس علاقے میں انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں کشیدگی رہی اور چند ایک دن خوش گوار واقعات بھی پیش آئے لیکن اب تقریباََ تمام جماعتوں اور امیدواروں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہنگامہ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں اس لئے اب الفاظ کی جنگ جاری ہیں ویسے بھی مقابلہ امیدواروں نہیں جماعتوں میں ہے اور سچ پوچھیں تو کراچی پر اپنی برتری ثابت کرنے کی ایسی سیاسی جنگ ہے جو ایک انتخابی حلقے کی سطح پر لڑی جا رہی ہے۔


الیکشن کون جیتے گا؟ یہ سوال بڑا ہم ہے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی میدان میں موجودگی متحدہ مخالف ووٹ بنک کو منقسم کرے گی اس لئے فتح و شکست سامنے ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنے ووٹ لے گا الیکشن 2013ء میں ٹرن آوٴٹ 58.8%تھا اس لئے رجسٹرڈ ووٹوں 3 لاکھ 57 ہزار 781 میں سے ایک لاکھ 86 ہزار 346 کاسٹ ہوئے تھے جبکہ الیکشن 2008 میں یہاں ٹرن آوٴٹ 63.07%فیصد تھا متحدہ کے سفیان یوسف نے ایک لاکھ 86 ہزار ووٹ لے کر پی پی کے سہیل انصاری کو شکست دی تھی جنہیں 6 ہزار 7 سو 41 ووٹ ملے تھے اس وقت اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 10 ہزار 45 تھی اور ایک لاکھ 95 ہزار 559 رائے دہند گان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

این اے 246 میں رجسٹرڈ رائے دہند گان اس وقت 3 لاکھ 57 ہزار 781 ہیں جن میں سے مرد ووٹر ایک لاکھ 96 ہزار 87 نیز خواتین ووٹرز ایک لاکھ 61 ہزار 594 ہیں اور حلقے کی مجموعی آبادی 98ء کی مردم شماری کے مطابق 4 لاکھ 94 ہزار 344 ہے۔ جماعت اسلامی خواتین کا جلسہ کر چکی ہے متحدہ کے ہر جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد ہوتی ہے اور تحریک انصاف بھی اپنی یوتھ ووٹرز پر فخر کرتی ہے۔


حرف آخر یہ کہ جیتنے کیلئے پولنگ اسٹیشن تک اپنے ووٹرزکو لے جانا بہت ضروری ہے جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ اس میں مہارت رکھتی ہیں الیکشن 2013ء میں تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز خود پولنگ اسٹیشنوں تک اپنے ذرائع سے پہنچے تھے اس بار انہیں محنت کرنی پڑے گی کہ بحیرہ عرب کے ساحلوں سے بہت سا پانی ٹکرا کر واپس لوٹ چکا ہے ویسے بھی پاکستان میں ووٹنگ کی شرح بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت سے کم ہے صرف 1977ء کے انتخابات تھے جب 55 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا دنیا کے 140 ممالک میں اٹلی پہلے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کا نمبر 128 واں ہے۔

غربت بہر حال اور مہنگائی کا شکار 9 کروڑ پاکستانی محرومیوں سے دو چار ہیں اور مزید دو کروڑ کے اس صف میں شامل ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لئے یہ تصور کرنا کہ الیکشن حلقہ 246 پاکستان یا کراچی کی کایا پلٹ دے گا بے سود ہوگا عمومی تاثر یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف آخری مرحلے پر اتحاد بھی کر لیں تب بھی کامیابی آسان نہیں کہ اس حلقے میں متحدہ کا موثر نیٹ ورک ہے اور نائن زیرو پر چھاپے، صولت مرزا کی پھانسی موخر ہونے، متحدہ کے میڈیا ٹرائل اور اس کے سیاسی مخالفین نے میڈیا ٹرائل کر کے اس کے تن مضمحل میں توانائی بھر دی ہے ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین اپنی شکست اور متحدہ کی فتح کا سائنسی تجزیہ نہیں کرتے، پی پی دیہی سندھ میں کیوں نا قابل شکست ہے اور متحدہ شہری سندھ میں کیوں ناقابل تسخیر، یہ پتہ 23 اپریل سے پہلے بھی لگایا جا سکتا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

NA 246 Zimni Intekhabi Maarka is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 April 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.