جمہوریت کے نام پر

چند خاندان سیاست پر براجمان ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہے ۔ اسی لئے یہاں ہر بار مارشل لاء کے خلاف تحریکیں چلیں اور آمریت کو ناپسند کیا گیا۔جمہوریت کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک دلیل دی جاتی ہے

Syed Badar Saeed سید بدر سعید ہفتہ 30 اگست 2014

Jamhoriat K Name Par
جمہوریت کے ثمرات سے انکار ممکن نہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت کی کھال میں آمریت پل رہی ہے۔ چند سیاسی خاندانوں نے ملکی سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اراکین اسمبلی کی اکثریت بھی عوامی مسائل پر قانون سازی سے زیادہ ذاتی مراعات میں اضافے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں اس جمہوریت سے نجات بنانا ہے تو ہمیں اس جمہوری آمریت سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔


پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہے ۔ اسی لئے یہاں ہر بار مارشل لاء کے خلاف تحریکیں چلیں اور آمریت کو ناپسند کیا گیا۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے حق میں گفتگو کرتے وقت سیاستدانوں کی سانس پھول جاتی ہے اور رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک دلیل دی جاتی ہے ا ور آمریت کی مخالفت کی سو وجوہات ایک ہی نشست میں بیان کر دی جاتی ہیں ۔

(جاری ہے)

اس میں شک نہیں کہ عوامی فلاحی ریاست میں آمریت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے وقت قائدین نے کسی بھی موقع پر آمریت کی بات نہیں کی بلکہ ا س کے برعکس قیام پاکستان کے مقاصد میں واضح تھا کہ یہاں حکومت عوام کی اور قوانین اللہ کے ہوں گے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھایا جاتا ہے۔

جمہوری نظام اور اس کے ثمرات سے انکار نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ ثمرات محض کتابوں میں یا سیاست دانوں کی گفتگو میں ہی ملتے ہیں۔ پاکستان میں جو جمہوری نظام چلا رہا ہے وہ جمہوریت کے لبادے میں بدترین آمریت ہی ہے ۔ اس وقت پارلیمنٹ بھی اپنے اصل فرائض انجام دینے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ عوامی نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کی سہولیات اور ملکی نظام بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کریں۔

ہم اپنے ہاں کی صورتحال دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے ذاتی مفادات، پروٹوکول اور عیاشیوں کیلئے جس طرح بل پیش کئے گئے اور متفقہ طور پر فوراََ ہی منظور کر لئے گئے، اُس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس میں تاحیات مراعات بھی شامل تھیں۔ اراکین اسمبلی کی توجہ عوام کی سکیورٹی سے زیادہ اپنے لئے سکیورٹی حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔

اسی طرح اراکین اسمبلی کی زیادہ توجہ ذاتی استحقاق مجروح ہونے اور اپنے اختیارات میں اضافہ کروانے کی جانب رہتی ہے۔ اراکین کا فرض قانون سازی ہے جبکہ ترقیاتی فنڈ کی منصفانہ تقسیم اور ترقیاتی کام کرانے کی ذمہ داری انتظامی اداروں کی ہے۔ لیکن اراکین اسمبلی کی کوشش ہوتی ہے کہ ووٹ بنک قائم رکھنے کیلئے ترقیاتی فنڈ اُنہیں ملیں۔ ایسی صورتحال میں طاقتور اراکین زیادہ فنڈ حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر کئی علاقوں میں ترقیاتی کام ہو ہی نہیں پاتا۔


ہمارے ہاں جمہوری نظام اس قدر پیچیدہ اور مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ ایک عام غریب شہری اسمبلی تک پہنچنے کا خواب تو دیکھ سکتا ہے لیکن اُسے عملی جامہ نہیں پہنا سکتا ۔ مزدوروں اور کسانوں کی نشستوں پرکئی کئی مربعے کے مالک بڑے جاگیردار اور فیکٹریوں کے مالک سرمایہ دار ہی نظر آتے ہیں۔ عام غریب شہری پارلیمینٹ میں نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسمبلی کی اعلیٰ سطحی کلب کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے جہاں کلب ممبران اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے اراکین اپنے لئے بلیو پاسپورٹ کا مطالبہ کرتے ہیں تو خیبر پختو نخواہ اسمبلی کے اراکین اپنی تنخواہیں بڑھانے کیلئے مصروف نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے یا اُنہیں بلیوپاسپورٹ جاری کرنے سے عام شہری کو کیا فائدہ ہوگا؟ دوہری شہریت اور جعلی ڈگری کے مسائل بھی پوری قوم کے سامنے ہیں۔

عوامی نمائندہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی پارٹی سے ہو، عا م لوگوں کیلئے مثال ہونا چاہئے ۔ کیا دوہری شہریت اور جعلی ڈگری کے مقدمات کا شکار دھوکہ باز اراکین کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے؟
جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ پہلے عام شہری اپنے اپنے علاقوں سے اپنا نمائندہ منتخب کر کے اسمبلی میں پہنچاتے ہیں اور پھر یہ منتخب نمائندے کسی بہتر شخص کو وزیراعظم کیلئے چنتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں ایسا ہے کہ اسمبلی میں پہنچنے والا ہر رکن اسمبلی بے خوف ہو کر اپنا فیصلہ سنا سکے؟ یہاں تو چند سیاسی خاندانوں کو اجارہ داری نظر آتی ہے ۔ اسمبلی میں حکمران جماعت کے سربراہ نے جو بل پاس کرانا ہو ، اُسکے بارے میں اختلافات رائے کا اظہار نہیں کرپاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمینٹ کو چند سیاسی خاندانوں نے اپنے قبضے میں رکھا ہے۔

یہ بااثر خاندان ہی ہمارے سیاسی منظر نامے پر نظر آتے رہتے ہیں اور پارلیمینٹ کے کئی اراکین ایسے بھی ہیں جن کو اُن کے سیاسی حلقے کے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے ہاں سیاسی گدی بھی والدین کے بعد اولاد کو مل جاتی ہے جبکہ کئی مخلص کارکن ساری عمر ”کارکن“ ہی رہتے ہیں۔ اُن کے حصے میں پولیس کی لاٹھیوں کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ یہ عمل آمریت کی ترجمانی تو کرتا ہے لیکن جمہوریت کی عکاسی ہرگز نہیں کرتا۔


اگر ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ جمہوریت کو اُس کی اصل روح سمیت نافذ کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت نسل درنسل منتقل کرنے کی بجائے قابلیت، محنت اور تجربہ کاری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منتقل کی جائے۔ اسی طرح اراکین اسمبلی کو بھی ذاتی مفادات کی بجائے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کرنا ہوگا۔

یہ سب تبھی ممکن ہے جب عوام ایسے لوگوں کو مسترد کردیں جو جمہوریت کو گھر کی لونڈی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ مخلص اور قابل قیادت کا انتخاب عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ عوامی فیصلے میں غلطی ہو تو ہی یہ غلطی آگے چل کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں لپٹی آمریت نہ تو عوام کے لئے مفید ہے اور نہ ہی ملک کے لئے فائدہ مندہ رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhoriat K Name Par is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.