جمہوریت

جمہوریت کی عام فہم تعریف عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے۔ اس تعریف کی تشریح سے واضح ہو تا ہے کہ ایک خطہ زمین پر بسنے والے لوگ اپنے منتخب کردہ اشخاص کو حق حکمرانی دیتے ہیں جو ایک متفقہ آئین و قانون کے مطابق ایک متعین عرصے تک عوامی خواہشات اور حالات کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔ جمہوریت کے نفاذ اور جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ عوام ا س بات کا شعور رکھتے ہوں کہ وہ جس شخص کا یا اشخاص کا انتخاب کریں

منگل 25 اکتوبر 2016

Jamhoriat
جمہوریت کی عام فہم تعریف عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے۔ اس تعریف کی تشریح سے واضح ہو تا ہے کہ ایک خطہ زمین پر بسنے والے لوگ اپنے منتخب کردہ اشخاص کو حق حکمرانی دیتے ہیں جو ایک متفقہ آئین و قانون کے مطابق ایک متعین عرصے تک عوامی خواہشات اور حالات کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔ جمہوریت کے نفاذ اور جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ عوام ا س بات کا شعور رکھتے ہوں کہ وہ جس شخص کا یا اشخاص کا انتخاب کریں وہ باصلاحیت ، باکردار ، پرْعزم ، نرم خو اور بلند خیالات کا حامل ہو تا کہ وہ عوام کو عدل ، تحفظ اور سہولیات مہیا کر سکیں۔

کنفوشیس اور لاؤزے نے ہزاروں سال پہلے حکمران اور حکومت کی تعریف کی اور بعد میں آنے والے سیاسی مفکرین نے اسی کی تشریح کی اور عوامی خواہشات کو ہی اولیت دی۔

(جاری ہے)

کنفوشیس کہتا ہے کہ حکومت کا کام عوام کو خوراک، لباس، رہائش ، تحفظ اور عدل مہیا کرنا ہے۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے کہ علماء کا کام عوامی شعور کو بیدار کر نا ، علم و آگاہی سے مزین کر نا اور قانونی کی پاسداری کی تعلیم دینا ہے آٹو پیائی کی تاریخ سے پتہ چلا ہے کہ تصوراتی مثالی ریاست کے خدوخال بھی یہی تھے۔

جس میں حکمران مطلق العنان بادشاہ نہیں بلکہ ایک باشعور اور اعلی صلا حیتوں کا حامل ایسا شخص ہو جو انسانی ضروریات کا احساس رکھتا ہو۔ اور ریاست کے تحفظ کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔ وہ وزراء ، عمال، اور قاضیوں کے چناؤ میں احتیاط کرنے کا ہنر جانتا ہوتاکہ کوئی ایسا شخص حکومت کا حصہ نہ بن جائے جو عوام کا استحصال کرے اور اْن کی خواہشات کا قاتل بن جائے۔

ڈاکٹر صفدر محمود اپنی تصنیف آئین پاکستان (وضاحت موازنہ اور تجزیہ) کے تعارفی بیان میں 1973 ء کے آئین پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہو گا، جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے پکارا جائے گا۔ اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہو گا اور قرار داد مقاصد میں دئیے گئے اصولوں اور شقوں کو دستور کا حصہ تسلیم کیا جائے گا۔

دیکھا جائے تو آئین پاکستان ایک مکمل دستور حیات ہے اور پاکستان کی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے جس میں استحصال کا خاتمہ ، بنیادی حقوق کا تحفظ، پارلیمنٹ یعنی مجلس شوریٰ کے ممبران کے چناؤ کا طریقہ اور ریاستی اداروں کے قیام اور کام کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی آئین میں آرٹیکل 6 کی وضاحت موجو د ہے جس میں آئین توڑنے والے شخص یا اشخاص کے لیے قرار واقعی سزا دینے کا ذکر ہے۔

1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ملک میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے بعد مارشل لا کا نفاذ تو کیا مگر آئین کو منسوخ نہ کیا۔ اسی طرح میاں نواز شریف اور ان کے رفقا نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جن کی وجہ سے خدشہ تھا کہ ملک میں بغاوت یا سول وار جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ملکی اداروں کو اپنے من پسند افراد کے حوالے کیا۔

ا ور انھیں آئین و قانون سے مبر ا اپنے خواہشات اور ترجیحات کے تابع فرمان کر لیا۔ میاں برادران اور ان کے رفقا نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی کے بعد یہ تصور کر لیا کہ وہ فوج کو بھی اپنی مرضی و منشاء کے تابع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کیوں نہ اس آخری مورچے کو بھی فتح کر نے کے بعد ملک پر ایسا نظا م مسلط کریں جو اسلامی جمہوری بادشاہت ہو اور ان کا خاندان سعودی عرب ، اردن اور خلیجی ریاستوں کے حکمران خاندانوں کی طرح اس ملک پر ہمیشہ کے لیے قابض ہو جائیں۔


مطلوب احمد وڑائچ اپنی تصنیف "سہروردی سے وردی تک "میں لکھتے ہیں کہ بارہ اکتوبر 1999ء کی سہ پہر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پاکستان فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ان کی ملک سے عدم موجودگی میں برطرف کرنے کے بعد آئی۔ایس۔ آئی کے سربراہ جن کا تعلق آرمی انجینئرنگ کور سے تھا کو فوج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ تاریخ کے اوراق پلٹے تو میاں نواز شریف کا یہ منصوبہ سکندر مرز ا کے اْس منصوبے کی طرح ہے جب سکندر مرز ا نے ڈی۔

آئی۔ جی کراچی کو حکم دیا تھا کہ سٹیشن کمانڈر کراچی اور ملیر گیریڑن کے برگیڈ کمانڈر سمیت بہت سے فوجی افسروں کو گرفتار کر لے۔ سکندر مرز ا میاں نواز شریف کی طرح پولیس ایکشن کے منتظر ہی تھے کہ خود ان کے خلاف ایکشن ہو گیا۔ مطلوب وڑائچ لکھتے ہیں کہ 1998ء میں جہانگیر کرامت کو برطرف کرنے کے بعد نواز شریف نے غلط فہمی میں ایسے آدمی کا انتخاب کر لیا جسے بچپن سے احمقانہ اتھارٹی سے نفرت تھی جب کہ جنرل مشرف کے طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔

جنرل پرویز مشرف اس بات سے بے خبر تھے کہ زمین پہ کیا ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف فضا سے زمین پر اترے تو وہ چودہ کروڑ عوام کے سربراہ بن گئے۔ یہ سب کچھ فضا میں ہوا جس کا انھیں علم نہ تھا۔ وہ نہ تو اس کے لیے تیار تھے اور نہ ہی انھیں اس کا علم تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری کا پانچ سالہ دور کسی بھی لحاظ سے آئینی جمہوری یا پھر اسلامی دور کہلوانے کے قابل نہیں۔

اس دور میں کرپشن ، لوٹ مار، مہنگائی اور بد انتظامی کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آئیں جو کسی بھی طرح قابل تعریف نہیں۔ صدر زرداری کے دور میں آئین میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جن کی وجہ سے سیاسی جماعتیں سیاسی لیڈروں کی ٹریڈ کمپنیوں میں تبدیل ہوگئیں اور لیڈر ڈیلر بن گئے۔ زرداری حکومت نے اپنا دور مکمل کیا تو میاں برادران پھر اقتدار میں آگئے قومی اداروں پر دھاک بٹھانے کے بعد میاں صاحب نے حسب عادت فوج کے خلاف محاذ کھول دیا۔

میاں صاحب کے جگری یار اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نے مسئلہ کشمیر کو فاٹا سے منسلک کر دیا ہے ، جبکہ اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی پختونستان اور گریٹر بلوچستان کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جس ملک میں جمہوریت آمریت سے بدتر ہو اور سیاستدان اپنی ہی فو ج کی مخالفت میں ملک دشمنوں کے آلہ کار بن جائیں وہاں ضروری ہے کہ ایسا نظام حکومت قائم کیا جائے جو استحصال سے پاک ہو اور عوامی خواہشات ، خوشحالی اور تحفظ کا ضامن ہو۔

پرویز مشرف کے اس بیان پر مفاد پرست ٹولہ شعلہ جوالہ بن گیا چونکہ ایک بیلنس اور کرپشن سے پاک نظام حکومت ان کے ذاتی مفاد پر ایک کاری ضرب لگائے گاجو انھیں ہرگز منظور نہیں۔ پرویز مشرف کے بیان کو ملکی حالا ت اور میاں صاحبان اور آصف علی زرداری کے طرز حکمرانی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بیان ایک درست سمت کی طرف اشارہ ہے جس کے بغیر یہ ملک نہ کبھی ترقی کرے گا اور نہ ہی اقوام عالم میں ایک باعزت اور باوقار مقام حاصل کر پائے گا۔ آمرانہ جمہوریت اور کرپٹ سیاسی نظام کسی بھی لحاظ سے ملکی اور قومی مفاد میں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhoriat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.