فرزند جمہوریت جہانگیر بدر

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کے انتقال سے پاکستان کی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا محال نظر آتا ہے۔ جہانگیر بدر شعبہ سیاست میں ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے تھے اور تمام سیاسی کارکنوں کو ان کی سیاسی زندگی کو مشعل راہ بنانا چاہئے۔ ”لوٹاازم“ اور ”سیاسی مسافرت“ کے موجودہ دور میں انہوں نے سیاسی وفاداری اور استقلال کی

جمعرات 1 دسمبر 2016

Farzand e Jamhoriat Jahangir Badar
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کے انتقال سے پاکستان کی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا محال نظر آتا ہے۔ جہانگیر بدر شعبہ سیاست میں ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے تھے اور تمام سیاسی کارکنوں کو ان کی سیاسی زندگی کو مشعل راہ بنانا چاہئے۔ ”لوٹاازم“ اور ”سیاسی مسافرت“ کے موجودہ دور میں انہوں نے سیاسی وفاداری اور استقلال کی جو تاریخ رقم کی اسے سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے بعد انہوں نے ایک معروف طالب علم رہنما کی حیثیت سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور تادم مرگ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے جیالے اور جمہوریت پسند رہنما کی حیثیت سے پارٹی کا پرچم تھامے رکھا۔ انہوں نے جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی آمرانہ حکومتوں کا مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات کے باوجود ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔

(جاری ہے)

جہانگیر بدر ہیلے کالج لاہور کے صدر منتخب ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار کے مقابلے میں ترقی پسند طالب علم رہنما کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور جمعیت کے گڑھ میں تھوڑے سے ووٹوں سے ہار گئے۔ وہ طالب علم رہنما کی حیثیت سے پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دست و بازو بنے اور اس طرح بھٹو شہید کے ابتدائی ساتھیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل کیا۔

انہوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا جبکہ جنرل یحییٰ خان کے دور اقتدار میں انہیں جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں ایک سال قید کی سزا دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہیں1977ء میں ایک سال قید اور کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا ناطقہ بند کئے رکھا اور 1979ء،1981ء،1983ء، 1984ء اور1987ء میں انہیں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔


جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد1988ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے تو عوام نے1970ء اور 1977ء کے بعد ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا اور جہانگیر بدر اندرون شہر لاہور سے بھاری اکثریت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اندرون شہر میں سوئی گیس فراہم کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور آج بھی اندرون شہر کے لوگ ان کے کارنامے کو یاد کرتے ہیں ۔

جہانگیر بدر دوبار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ میں قائدایوان رہے۔ وہ وفاقی وز یر قدرتی وسائل اور پٹرولیم رہے اور پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ہمیشہ عوام اور کارکنوں سے رابطہ رکھا اور پارٹی کارکنوں میں ہمیشہ مقبول رہے۔

وہ لاہوری ثقافت کی پہچان تھے اور اندرون شہر کے لوگوں کی طرح ”ر“ کو ”ڑ“ بولتے تھے جس طرح انہوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنر ل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کیا اسی طرح انہوں نے پارٹی قائدین ذوالفقار علی بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ سیاست کا اعزاز حاصل کیا۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا وہ جہانگیر بدر کے ساتھ مزید کام کرنا چاہتے تھے مگر افسوس موت نے انہیں مہلت نہیں دی۔ جہانگیر بدر عرصہ پچاس سال تک پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل رہے اور جمہوریت کی بقاء اور استحکام میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک روشن خیال اور وسیع القلب سیاسی کارکن اور رہنما تھے۔

تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماوٴں سے ان کے خوشگوار تعلقات رہے۔ ان کی وفات پر پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماوٴں میاں محمد نوازشریف ،میاں شہبازشریف، چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویزالٰہی، مخدوم جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، سراج الحق، طارق بشیر چیمہ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اور دیگر رہنما ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے ان کے گھر پہنچے اور ان کی وفات کو پاکستانی سیاست کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔

بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری ان کے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہوئے۔جہانگیر بدر پاکستانی سیاست کا قیمتی اثاثہ تھے۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے لئے ان کی شاندار خدمات کی بناء پر انہیں بجا طور پر فرزند جمہوریت کا خطاب دیا گیا۔ مرزا غالب نے ایسے ہی وفا پرستوں کے لئے کہا تھا۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں کعبے میں جاگاڑو برہمن کو

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Farzand e Jamhoriat Jahangir Badar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 December 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.