بلدیاتی انتخابات، ن لیگ دھڑوں میں تقسیم

اگر پنجاب اسمبلی لوکل گورنمنٹ ایکٹ ترمیمی بل پر اپنی مہرثبت کر دیتی ہے تو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن کا یہ پہلا تجربہ ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اس مجوزہ قانون کو قبول کرتی ہیں یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرتی

جمعہ 17 جولائی 2015

Baldiyati Intekhabat N League Dharoon main Taqseem
احمد کمال نظامی:
ملک میں قومی صوبائی اور بلدیاتی انتخابات روایت کے مطابق ایک ہی تاریخ کو ہوتے چلے آ رہے ہیں اور مرحلہ وار انتخابات کی کوئی روایت موجود نہیں ہے اگر پنجاب اسمبلی لوکل گورنمنٹ ایکٹ ترمیمی بل پر اپنی مہرثبت کر دیتی ہے تو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن کا یہ پہلا تجربہ ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اس مجوزہ قانون کو قبول کرتی ہیں یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرتی اس کا فیصلہ تو نیا قانون سامنے آنے پر ہی ہو گا۔

پنجاب کے 36اضلاع کو تین ڈویڑنوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ فیصل آباد، لاہور اور ساہیوال کو ایک ڈویڑن قرار دیا گیا۔ انتخابات تینوں ڈویڑنوں میں مختلف تاریخوں پر انعقاد پذیر ہوں گے ایک ڈویڑن کے بلدیاتی انتخابات انعقاد پذیر ہونے کے بعد دوسرے ڈویڑن کے انتخابات میں کتنا وقفہ ہو گا اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے جبکہ پنجاب حکومت 30جولائی تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے گی ورنہ سپریم کورٹ اپنے فیصلہ کی روشنی میں انتخابی شیڈول کا اعلان کر دے گا۔

(جاری ہے)

جو تین ڈویڑن بنائے گئے ہیں پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) نے ڈویڑن بناتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھا ہے اور جن علاقوں میں (ن) لیگ کو بھرپور کامیابی کی امید ہے ان کو ایک ڈویڑن قرار دیا ہے مثال کے طور پر فیصل آباد، لاہور اور ساہیوال ایک انتخابی ڈویڑن ہے۔ راولپنڈی، سرگودھا اور گوجرانوالہ ایک ڈویڑن ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کو ایک ڈویڑن قرار دیا گیا۔

گویا حکمران مسلم لیگ (ن) نے جن بڑے شہروں کے بلدیاتی اداروں کو اپنے پرچم تلے رکھنا ہے ان کو ایک ڈویڑن میں شامل کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو اولیت دی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت صوبائی وزراء کو اپنے اپنے علاقوں میں بلدیاتی امیدواروں کی فہرستیں تیار کرنے کی ہدایت بھی جاری کر دی گئی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے قریبی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابی سرگرمیوں کو کامیابی اور کامیابی کا سلوگن دیتے ہوئے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں کو کمان سونپ دی گئی ہے۔

جبکہ پنجاب دوسرے بڑے شہر فیصل آبادکے بارے میں بات کریں تو رانا ثناء اللہ خاں کے مقابلہ میں چوہدری شیرعلی جو کہ میاں برادران کے قریبی رشتہ دار ہیں ان کے بیٹے عابد شیرعلی مرکز میں پانی و بجلی کی وزارت کے منصب پر فائز ہیں۔ جبکہ رانا ثناء اللہ خاں صوبے میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی انگوٹھی کا نگینہ ہیں۔رانا ثناء اللہ خاں نے چوہدری شیرعلی اور سابق رکن پنجاب اسمبلی خواجہ اسلام کے مابین بارہ سال بعد ہونے والی صلح کو مفادات کی صلح قرار دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ خواجہ اسلام نے اپنی سیاسی موت کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیئے ہیں۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں متفقہ امیدوار میدان میں لائیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں انہوں نے چوہدری شیرعلی گروپ سے وابستہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کو انتباہ کیا کہ وہ امیدواروں کے انتخابات میں مداخلت نہ کریں ، میں خود بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کروں گا۔ گویا فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن) دو واضح متحارب گروپوں کی شکل میں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتر چکے ہیں اور اس امر کا بھی واضح امکان ہے کہ دونوں گروپ ٹکٹوں کی تقسیم پر آمنے سامنے ہوں گے اور اگر ایک گروپ کا امیدوار ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دوسرا گروپ اس کے مقابلہ میں اپنا آزاد امیدوار کھڑا کرے گا۔

تمام ارکان اسمبلی اپنے اپنے امیدواروں کی فہرست جیب میں ڈالے ہوتے ہیں ان میں بعض امیدوار ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی رکن اسمبلی کے فنانسر کا درجہ رکھتے ہیں اور بعض امیدوار ایسے بھی ہیں جو ارکان سے سودے بازی پر یقین رکھتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات ہونے کے باوجود نظیر اکبر آبادی کے شعر کے مصداق ”یہ سودا نقد بہ نقدی ہے
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے“کے اصول پر کاربند ہوتے ہوئے بولی ہی میرٹ قرار پائے گا۔

آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد میں بلدیاتی سیاست کے پرانے کھلاڑی بھی دونوں گروپوں کی باہمی جنگ سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور مچان پر بیٹھے اس انتظار میں ہے کہ کون سا گروپ شکار کی تلاش میں ان کے مچان کی طرف آتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو رہا کہ چوہدری شیرعلی گروپ اور رانا ثناء اللہ گروپ میں اعلانیہ کون کون سے ارکان اسمبلی ہیں کیونکہ افطار پارٹیوں کے نام پر ہونے والے اجتماعات میں جمعہ جنج نال کے مصداق دونوں میں دکھائی دیتے۔

فیصل آباد چونکہ بنیادی طور پر (ن) لیگیوں کا شہر کہلاتا ہے اور عوام کا رجحان بھی (ن) لیگ کی طرف ہے اور جس شدت کے ساتھ رانا ثناء اللہ خاں اور چوہدری شیرعلی کے درمیان فیصل آباد کو فتح کرنے کی جنگ شروع ہو چکی ہے اس سے مسلم لیگ(ن) کی مخالف طاقت جو تحریک انصاف کہلاتی ہے وہ بھرپور انداز میں فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) تو دو متحارب گروپوں میں تقسیم ہے کسی بھی گروپ سے وابستہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں وہ (ن) کی فتح ہی کہی جائے گی جبکہ تحریک انصاف تو ایک نہیں بلکہ دس گروپوں میں تقسیم ہے اور ہر گروپ کالیڈر خود کو نپولین قرار دیتا ہے اور تحریک انصاف کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے انتخابات لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) مہا فن کاروں پر مشتمل ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ووٹر کو باہر کیسے نکالنا ہے۔

رانا زاہد توصیف اور ان کے بھائی انتخابی داوٴ پیچ جانتے ہیں لیکن انہیں بھی تحریک انصاف کے گروپوں کو ختم کرنے کے لئے ابھی طویل جدوجہد کرنی پڑے گی۔ پیپلزپارٹی ویسے ہی شکست خوردہ پارٹی ہے اور رہی سہی کسر پیپلزپارٹی کے موجودہ رہنماوٴں نے پوری کر دی ہے۔
ایک جانب نیب اور دیگر ادارے غیرقانونی اثاثے بنانے والوں، کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد کی فہرست تیار کر رہے ہیں دوسری جانب جن پارٹی رہنماوٴں پر کرپشن اور غیرقانونی طور پر اثاثے بنانے کے الزامات ہیں وہ بلدیاتی انتخابات میں امیدواروں کو ٹکٹ بھی جاری کر یں گے۔

لہٰذاجن کے دامن پر کرپشن کے الزامات ہوں مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی بورڈ کے ایسے ارکان ٹکٹوں کی تقسیم کیسے میرٹ کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف سانحہ ناولٹی پل جس میں تحریک انصاف کا کارکن حق نواز قتل ہوا تھا وہ اپنا ٹاپ ایشو بنائے گی اس سلسلے میں عمران خان نے تحریک انصاف کی مقامی سیاست کو حق نواز قتل کیس کی تفصیلات سمیت اسلام آباد میں طلب کر رکھا ہے۔

اس سلسلے میں توقع کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف حق نواز قتل کی تفتیش اور اس کے محرکات کے سلسلے میں صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں کے خلاف اپنی بلدیاتی مہم میں جلسوں اور کارنر میٹنگ میں اس ایشو کو اچھالے گی۔ اس طرح موجودہ بلدیاتی انتخابات میں فیصل آباد میں خصوصی طور پر رانا ثنا ء اللہ خاں کو چوہدری شیرعلی گروپ اور تحریک انصاف کے علاوہ پیپلزپارٹی کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہی فیصل آباد میں بلدیاتی انتخابات کے دوران اپوزیشن جماعتوں کا ٹاپ ایشو ہو گا جس کا مخالفین بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Baldiyati Intekhabat N League Dharoon main Taqseem is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 July 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.