بلدیاتی انتخابات

عام آدمی کے مسائل اِس سے حل ہو سکتے ہیں تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی بلدیاتی نظام رائج ہے ۔ بلدیاتی نظام کے تحت منتخب ہونے والی ملکی سطح پر قانون سازی نہیں کر سکتے بلکہ اُن کا کام عوامی نگرانی کرنا ہوتا ہے

Syed Badar Saeed سید بدر سعید جمعرات 6 نومبر 2014

Baldiyati Intekhabat
ترقی یافتہ ممالک میں نچلی سطح تک اختیارات اور فنڈ کی منتقلی ہی عوامی ترقیاتی کاموں کی بنیاد بنتی ہے اور پارلیمنٹ قانون سازی تک محدود رہتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ کرپٹ مافیا اور لوٹ مار کے خواہش مند آنے کے بعد شفاف بلدیاتی انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں تاکہ فنڈز اُن کی جیب میں آئیں اور وہ اپنی کرپشن جاری رکھ سکیں۔

یہ ہماری سیاسی ڈھانچہ دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے ۔ قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے۔ عوامی نمائندے ایک مخصوص طریقہ کار کے ذریعے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر منتخب افراد ایوان تک پہنچتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کا کام قانون سازی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں بل پیش کیے جاتے ہیں۔

پھر اکثریت رائے کے تحت اُنہیں منظور یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہ بل سینٹ سے منظوری کے بعد آخری مرحلے میں صدر کے پاس جاتے ہیں اور پھر اُنہیں قانون کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی کاکام قانون سازی کی حد تک محدود ہے۔ عوامی فنڈز کا استعمال بلدیاتی اداروں کے تحت ہوتا ہے ۔ بلدیاتی نظام میں اختیارات نچلی سطح تک آجاتے ہیں اور شہر کے ناظم سے ہوتے ہوئے گلی محلے کے کونسلر تک پہنچتے ہیں۔


تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی بلدیاتی نظام رائج ہے ۔ بلدیاتی نظام کے تحت منتخب ہونے والی ملکی سطح پر قانون سازی نہیں کر سکتے بلکہ اُن کا کام عوامی نگرانی کرنا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں ایم پی اے اور ایم این اے یہ اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایوانوں میں بھی قانون سازی کی بجائے فنڈز کے حصول کیلئے ہی کوشاں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے ترقیاتی کام تو ہوتے ہیں مگر عام شہری کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوپاتے۔

ایم پی اے اور ایم این اے کا انتخاب ووٹروں کی ایک بہت بری تعداد سے ہوتا ہے اور عموماََ یہ اپنے حلقے کی ہر گلی اور محلے سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔ اسی طرح نچلی سطح تک عوامی مسائل سے بھی آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بلدیاتی انتخابات گلی محلے کی سطح پر ہوتے ہیں اور عموماََ محلے سے کم از کم ایک شخص ضرور اس نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ شخص نہ صرف اپنے محلے کے مسائل سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُسے اسی علاقے میں انہی لوگوں کے درمیان رہنا ہے ۔

اُس کونسل کا اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے اپنے علاقے سے دورنہیں جانا پڑتا۔ لوگ اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کیلئے اپنے نمائندے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ایسے نمائندے کے پاس فنڈز آتے ہیں تو ہو اپنی گلی محلے کے اہم مسائل حل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر اس کی گلی ٹوٹی ہو گی تو وہاں سے اُسے اور اس کے بچوں کو بھی گزرنا ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ بلدیاتی اور پارلیمانی نظام ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

دونوں اداروں کے منتخب اراکین اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کا م کریں تو ملک دنوں میں ترقی کر سکتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہوں ایسا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ فنڈز اور اختیارات کا سرچشمہ خود کو سمجھتے ہیں۔اسی طرح جو جماعت جس صوبے میں حکومت بنا لے وہ بھی بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ نظر آتی ہے ۔

عموماََ حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں شکست ملنا اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے جو بعد میں اقتدار اور مفادات کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اپنی کرپشن اور عوام میں گرتی ہوئی ساکھ کو عیاں ہونے سے بچانے کیلئے بھی بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور اس سب کا نقصان عام شہری کو ہوتا ہے۔
پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے اعلان کر دئیے گئے تھے۔

امیدواروں نے نہ صرف یہ کہ مکمل تیاریاں کر لی تھیں بلکہ انتخابی مہم بھی شروع ہو گئی تھی۔ بڑی تعداد میں فلیکس ،بینرز اور پمفلٹ بھی چھپ گئے تھے۔ سیاسی ڈیرے آباد ہوگئے تو بلدیاتی انتخابات روک دئیے گئے۔ اس سلسلے میں مختلف تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ،سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو بلدیاتی انتخابات میں شکست ہوگئی تو یہ اس بات کا بھی اعلان ہوگا کہ حکومتیں ناکام رہی ہیں اور اپنے حکومتی صوبوں میں عوامی اعتماد کھوچکی ہیں۔

دوسری جانب چونکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت قائی ہوئی ہے اور کسی بڑی قومی سطح کی جماعت کو براہ راست کامیابی نہیں ملی ، اسلئے یہ واحد صوبہ ہے جہاں بلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر کرادئیے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں تو پھر باقی تین صوبوں میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ہمیں چند اصلاحات بھی متعارف کرانی ہوں گی۔

اگر پرانا نظام ہی چلتا رہا تو پھر بلدیاتی انتخابات بھی عوام کیلئے مفید ثابت نہیں ہوں گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی ہوں او ر امیدواروں کے کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا ٹکٹ حاصل کرنے پر پابندی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اپنے لوگوں کی پشت پر کھڑی ہوں گی تو پھر اختیارات عام آدمی تک آنے کی بجائے سیاسی خاندانوں تک محدود ہو جائیں گے۔

ایسا ہوا تو پھر ایم این اے کا بھائی ناظم اور ایم پی اے کا بھائی نائب ناظم بنا نظر آئے گا۔ الیکشن کمیشن کو اب بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں تیزی دکھانی ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان انتخابات میں کسی بھی صوبے میں حکومتی سطح پر چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے ۔ صاف شفاف انداز میں اختیارات اور فنڈز عام آدمی تک پہنچانا اور اس کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرانا بہت ضروری ہے۔ عام آدمی کیلئے میٹروبس اور شاہراہوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ گلی محلے کی سٹرکیں اور نالیاں پکی ہونا بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے ان مسائل کی نشاندہی اور حل ممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Baldiyati Intekhabat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 November 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.