آزاد کشمیر میں الیکشن کی تیاریاں

آزاد کشمیر میں الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے بعد تحریک انصاف آزاد کشمیر نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی سیاست میں انٹری دکھا دی۔ یہاں تحریک انصاف کی قیادت بیرسٹر سلمان محمود کے ہاتھ ہے

جمعہ 11 مارچ 2016

Azad Kashmir Main Election Ki Tiyariyaan
جی این بھٹ:
آزاد کشمیر میں الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے بعد تحریک انصاف آزاد کشمیر نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی سیاست میں انٹری دکھا دی۔ یہاں تحریک انصاف کی قیادت بیرسٹر سلمان محمود کے ہاتھ ہے جو جھومتے جھومتے کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ کی شاخ پر چہچہاتے ہیں آج کل انہوں نے تحریک انصاف کی شاخ پر بسیرا کررکھا ہے۔

خدا کرے یہ قیام بھی عارضی نہ ہو۔ تحریک انصاف نے آزاد کشمیر میں جس طرح اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا اس سے مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر سے لے کر پاکستان تک کے عہدیداروں اور رہنماؤں میں پریشانی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اس بار تسخیر کشمیر کا خواب دیکھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

آزاد کشمیر میں دوسری بار الیکشن لڑ رہی ہے۔یہ ہمارے سیاستدانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ” تسخیر کشمیر“کا مطلب آزاد کشمیر فتح کرنا لیا اور حقیقت میں مقبوضہ کشمیر کو بھول بسری داستان بناکر رکھ دیا ہے۔

پیپلزپارٹی کو آئندہ الیکشن سے کوئی خاص توقع نہیں ہے کیونکہ اس کے کرتوت اسے اس مقام پر لے آئے ہیں۔
5 سال عوام کی خدمت کا نادر موقع یہ جماعت ضائع کرچکی ہے۔ بھٹو کے ” کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے“ والے نعرے کو متروکہ قرار دے کر یہ جماعت زرداری کے فرمودات پر عمل پیرا رہی۔ جس میں مسئلہ کشمیر جائے بھاڑ میں آزاد کشمیر سے جس قدر فائدہ ملتا ہے اٹھانے کی پالیسی کو اولیت دی گئی۔

اب چودھری عبدالحمید خان جو تن نوش کے علاوہ خورد نوش میں بھی تحریک انصاف کے بیرسٹر سلمان محمود سے ممثلت رکھتے ہیں۔ دیکھنا ہے کس طرح عالم مدہوشی سے نکل کر ہوش و حواس کے ساتھ اپنے کارکنوں کو متحرک کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر ابھی تک میں رہنا وجود رکھتی ہے ۔ مگر اس کے کارکن بھی پاکستان کے کارکنوں کی طرح بددلی کا شکار ہیں۔ وجہ وہی لوٹ مار اور کرپشن ہے۔

اس صورتحال میں وہاں اسکے چند مضبوط اْمیدوار ہی کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ باقی سب اڑان کی تیاری میں ہیں۔
پیپلزپارٹی کی اس پسپائی کا فائدہ مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف میں سے کون اٹھاتا ہے۔ اس کا فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا۔ جب الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آئے گی۔ یہاں مسلم لیگ (ن) کو جو برتری حاصل ہے وہ یہ کہ اس کے آزاد کشمیر میں 11 ارکان اسمبلی کامیاب ہو کر آزاد کشمیر کی سیات میں اپنی آمد کے ساتھ ہی اپنی طاقت کا لوہا منوا چکے ہیں۔

حال ہی میں باغ سے راجہ مشتاق جیسے مضبوط رہنما کی شمولیت سے مسلم لیگ کے ہاتھ مزید مضبوط ہوتے نظر آتے ہیں۔ مگر آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ممبران اسمبلی کے رابطوں اور میل ملاپ کا فقدان بھی سب کے سامنے ہیں۔ انا پرست کہہ لیں یا مفاد پرست جہاں بھی ہوں گے ان کی گردنوں میں سریا صاف نظر آتا ہے۔ جس سے کارکن تنگ ہیں۔ دوسری طرف مسلم کانفرنس جیسی مسلم لیگ (ن) کی سابقہ اتحادی اور موجود حریف بھی مسلم لیگ کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے ۔

کیونکہ آزاد کشمیر میں ووٹ نظریاتی یا پارٹی کی بنیاد یہ نہیں علاقے ذات اور قبیلے کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے رہنما سردار عتیق ” حیران و لب بستہ“ اپنی جماعت کی بچی کھچی ساکھ سنبھالنے کے لئے ڈانوں ڈول ہیں۔ کوشش میں ہیں کہ کچھ اور جماعتوں کے ساتھ اتحاد بناکر کچھ کردکھائیں تمام تر امکانات کے باوجود فی الحال دور دور تک ان کو دوبارہ قبائے اقتدار نصیب ہوتا نظر نہیں آتا۔

اصل میدان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلے سے سجے گا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس والے صرف نعرے لگاتے اپنے اپنے پرچم لہراتے ماضی کا واویلا کرتے نظر آئیں گے۔ رہی جماعت اسلامی تو جو حال اسکا پاکستان میں ہوا اس سے زیادہ بہتر آزاد کشمیر میں ہوتا نظر آتا ہے۔ البتہ الیکشن مہم میں وہ کشمیر کی تحریک آزادی کیش کراتی نظر آئے گی جسکا کوئی فائدہ اسے نہیں ہو گا۔

عمران خان کی جذباتیت کی وجہ سے اور بیرسٹر سلطان کے رویے کی وجہ سے سنجیدہ ووٹر فی الحال تحریک انصاف کی طرف مائل نظر نہیں آتے۔ ویسے بھی عمران خان نے آزاد کشمیر میں اپنے سیاسی جلسے میں مقبوضہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے خاموشی کی پالیسی اپنائی جس سے کشمیری عوام خواہ اس پار کے ہوں یا اس پار کے خوش نہیں ہوئے۔ وہ ان سے پرجوش تعاون سننا چاہتے تھے۔

صرف مظفر آباد اسمبلی کی فتح کا خواب سجائے یہ تمام سیاستدان مسئلہ کشمیر پر دبنگ اور جارحانہ رویہ ترک کرچکے ہیں جو کبھی کشمیری سیاست کا خاصہ تھا۔ اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) کے بھی جذباتی ووٹر رنجیدہ ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے زیادہ بھارت سے تجارت کی پالیسی پر زور دے رہی ہے گویا یہا ں بھی کشمیر سے زیادہ تجارت اہمیت حاصل کر چکی ہے ۔

تو پھر گلہ کس سے کریں۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کشمیر کی مقیم پاکستان کی 12 سیٹیں ہیں 6 جموں و لداخ کی تھیں جن میں دیگر کو شامل کرکے آزاد کشمیر کے مقیم پاکستان باشندوں کے ووٹ بھی شامل کر لئے گئے ہیں۔ یہ سب سوائے کراچی کوئٹہ سے مسلم لیگ (ن) جیت سکتی ہے۔ باقی 6 مہاجرین کشمیر کی سیٹیں ہیں جن میں سے ایک کراچی کوئٹہ کی ہے اس پر ایم کیو ایم کے کشمیری رہنما سلیم بٹ جیتے تھے اب بھی ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف میں اتنا دم خم نہیں کہ جیت سکیں۔

باقی 5 میں سے لاہور کی نشست پر گزشتہ 5 برس سے مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور صوبے میں حکومت کے باوجود الیکشن نہیں کرائے اب یہاں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر غلام عباس میر اور تحریک انصاف کے غلام محی الدین دیوان میں مقابلہ ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں کا تعلق ماضی میں پیپلزپارٹی سے رہا ہے۔ یہاں بوگس اور جعلی ووٹروں کے اندراج کے باعث مقابلہ سخت ہوگا۔ جبکہ باقی 4 سیٹیں مسلم لیگ (ن) جیت سکتی ہے۔ اب اگر پہلے کی طرح آزاد کشمیر سے 11 نشستیں مسلم لیگ (ن) پھر جیت پائی تو وہ 18 تا 20 نشستیں جیت کر سب سے جماعت کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو ” ابھی عشق میں امتحان اور بھی ہیں“ اسے آزاد کشمیر کی پیچیدہ ذات برادری اور قبیلے کی سیاست سمجھنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Azad Kashmir Main Election Ki Tiyariyaan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 March 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.