آصف زرداری کی پاکستان آمد

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ڈیڑھ سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے جمعہ کو پاکستان واپس پہنچ گئے جہاں جیالوں نے ان کا ولولہ انگیز استقبال کیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد اولڈ ٹرمینل شاہراہ پر منعقدہ استقبالیہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پرجوش خطاب میں اپنے سیاسی مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جب بھی ملک سے باہر گیا ہمارے گھوڑے والے دوستوں اورسیاسی اداکاروں کی جانب سے کہا گیا میں ملک سے بھاگ گیا ہوں

جمعرات 29 دسمبر 2016

Asif Zardari Ki Pakistan Amaad
ادیب جاودانی:
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ڈیڑھ سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے جمعہ کو پاکستان واپس پہنچ گئے جہاں جیالوں نے ان کا ولولہ انگیز استقبال کیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد اولڈ ٹرمینل شاہراہ پر منعقدہ استقبالیہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پرجوش خطاب میں اپنے سیاسی مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جب بھی ملک سے باہر گیا ہمارے گھوڑے والے دوستوں اورسیاسی اداکاروں کی جانب سے کہا گیا میں ملک سے بھاگ گیا ہوں لیکن میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ذہنوں سے یہ فتور نکال دیں۔

ہماری تو لاشیں بھی یہیں دفن ہیں۔ ہم نے اسی ملک میں مرنا ہے اور گڑھی خدا بخش میں دفن ہونا ہے، ہم کیسے پاکستان کے عوام کو تنہا چھوڑ سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ جب ایک سرمایہ دار خاندان لوگوں پر ظلم کر رہا ہو۔

(جاری ہے)

ہم عوام کی طاقت سے انہیں روکیں گے، ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرینگے کیونکہ ہمارے نظریہ کیمطابق جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے۔

پاکستان کھپے کے نعرے کو لے کر ہم چلیں گے۔ ماضی میں اس وقت کی کئی طاقتوں نے ہمیں چلنے نہیں دیا۔ اپنے ہاتھوں سے حلقے بنائے لیکن اسکے باوجود بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر حکومت بنائی، میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ میاں صاحب کا مینڈیٹ صحیح تھا یا نہیں لیکن ہم نے جمہوری طریقے سے انہیں اقتدار منتقل کیا تاکہ اس ملک میں جمہوریت چلتی رہے۔

ہمارے پاس جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں اور جمہوریت کا متبادل بہت ہی خوفناک ہے، ہم شام نہیں بننا چاہتے ،پاکستان کبھی ناکام ریاست نہیں بنے گا اور ہم جمہوریت کو بھی ڈیل ریل نہیں ہونے دینگے۔ آصف علی زرداری نے حکومت سے مفاہمت جاری رکھنے کا بھی اشارہ دے دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پانامہ لیکس کا نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں بھاگوں گا نہیں ہم پھر حکومت بنائیں گے۔

دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیں دو دفعہ جھٹکا دیا ، ہم پھر بھی زرداری کی واپسی پر بہت خوش ہیں۔ آصف زرداری اپنی پارٹی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیں، انہوں نے کہا کہ الیکشن جیتنے کے بعد اور وزیراعظم بننے سے پہلے میں زرداری کے پاس گیا تھا زرداری کی ریٹائرمنٹ پر ہم نے انہیں بلایا اور اچھے طریقے سے الوداع کیا تھا میں رواداری کا قائل ہوں اور یہ رواداری چلتی رہنی چ ہیئے او ر جب کسی طرف سے اس میں کمی آتی ہے تو پھر تکلیف ہوتی ہے ،انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور زرداری سے اچھا تعلق تھا اور اسے قائم رکھنا چاہتا ہوں۔

ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور پھر این آر او ہوگیا تو دھچکا لگا‘ 2008ء کے الیکشن میں ہم آگے آگئے اور پی پی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم حمایت کرتے ہیں، ہم نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ،بار بار کہا کہ پی پی ڈلیور کرتی ہے تو اگلے پانچ سال بھی وہ لیں، مجھے انہیں گھر بھیج کر اپنی حکومت بنانے کی خواہش نہیں تھی۔

ان دنوں ایک اینکر نے استعفوں کی بابت سوال کیا تو میں نے کہا کہ لوگوں نے استعفوں کیلئے مینڈیٹ نہیں دیا،پیپلز پارٹی نے این آر او اور حکومت پنجاب کے گرانے کی وجہ سے دو بار جھٹکا دیا۔آصف زرداری کی واپسی اس وقت ہوئی ہے جب میاں نواز شریف کا ستارہ عروج پر ہے۔ ایک آرمی چیف انگلی اٹھائے بغیر چلا گیا۔ دوسرا آرمی چیف میاں صاحب اور سابق آرمی چیف دونوں کی پسند ہے۔

اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی پانامہ لیکس کا کوئی فیصلہ کیے بغیر چلے گئے ہیں۔ نئے نامزد چیف جسٹس کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ بہت کچھ ہو رہا ہے کہیں بھی بہتر حکمرانی نظر نہیں آرہی ہے۔ میڈیا چیخ رہا ہے۔ اپوزیشن شور مچا رہی ہے۔مگر میاں صاحب گھوڑے پر مضبوطی سے سوار ہیں۔ باگ ڈور پوری طرح ان کے ہاتھ میں ہے۔ فی الحال کوشش یہ نظر آرہی ہے کہ پی ٹی آئی سے اپوزیشن کی باگ ڈور پی پی پی کے ہاتھ میں چلی جائے۔

یہ قدرتی ہے یا اسٹیبلشمنٹ ایسا چاہتی ہے یا میاں صاحب یہ دام ہمرنگ زمیں بچھا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی قیادت پی پی پی کے پاس ہے تین سال سے اور اب سڑک پر بھی اگر یہی اپوزیشن ہوگی تو کیا اس طرح کنٹرول میں رہے گی۔ بلاول بھٹو نے پارٹی کو نئی جنریشن کی پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پارٹی قیادت ابھی تک اس پر پر امید نہیں۔

پارٹی سے باہر لوگوں اور خود پارٹی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ کوئی آزادانہ فیصلے نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی جس طرح سے نواز حکومت کیخلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ کیا زرداری صاحب اس رویے کو برقرار رکھیں گے؟ اور یہ بھی کہ بلاول بھٹو نے جو چار نکات پیش کئے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے بعد نواز حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا ‘ زرداری صاحب اس تحریک کی خود قیادت کریں گے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک ہفتے تک ملک میں قیام کریں گے اور پھر واپس چلے جائینگے۔

آصف زرداری نے اگر پاکستان میں صرف ایک ہفتہ تک قیام کرنا ہوگا تو وہ کبھی بھی تحریک کی قیادت نہیں کریں گے اور قارئین کرام کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما دونوں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور دونوں نے ہمیشہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے اور کبھی ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کی۔ بلاول بھٹو جتنی مرضی موجودہ حکومت کے خلاف تحریکیں چلا لیں لیکن وہ میاں نواز شریف کی حکومت کو ہرگز ہرگز نہیں گرائیں گے۔

دریں اثناء آصف علی زرداری اور چودھری شجاعت حسین کا گرینڈ الائنس بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے ان دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے حکومت گرانا ہمارا ایجنڈا نہیں ہے ان دونوں رہنماؤں کے بیان پر یقیناً وزیراعظم میاں نوازشریف بہت خوش ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Asif Zardari Ki Pakistan Amaad is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 December 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.