آئین اور قانون کی بالادستی مقدم رہے گی

جودہ صورتحال کے تناظر میں جبکہ ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ سویلین اور جمہوری حکومت کو بعض خطرات درپیش ہیں، تو اس طرح کے ماحول میں آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات ایک واضح پیغام دیتی ہے

جمعہ 18 اپریل 2014

Aain Or Qanoon Ki Baladasti Muqadam Rahe Gi
سجاد ترین:
اس وقت جب ملک میں قانون سازی اور پاکستان پرٹیکشن آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مابین یکساں سوچ کا فقدان پایا جاتا ہے حکومت اور حزب اختلاف کی سطح پر سابق صدر آصف علی زرداری کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات جمہوری قوتوں کے درمیان اس اہم معاملے پر افہام وتفہیم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد سے ملک کی چھوٹی بڑی جماعتیں بالعموم اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی سب سے مقدم رہے گی اور اس کیلئے کسی غیر جمہوری اقدام کی حما یت نہیں کی جائے گئی۔

گزشتہ روز ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی سربراہی ملاقات میں اسی جذبے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے وہ متحد ہیں۔

(جاری ہے)

اگرچہ اس ملاقات کا کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں تھا تاہم اس سے جو پیغام دیا گیا ہے اس سے سیاسی جماعتوں مین اعتماد کی فضاء ضرور بحال ہوئی ہے۔ دوسے طرف موجودہ صورتحال کے تناظر میں جبکہ ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ سویلین اور جمہوری حکومت کو بعض خطرات درپیش ہیں، تو اس طرح کے ماحول میں آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے اتحادی غیرجمہوری قوتوں کے خلاف یکساں سوچ رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے پر فوج میں بے چینی اور آرمی چیف کے بیانات کو سابق صدر مشرف کے بعض حامیوں کی جانب سے جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں موجود اہم وزرا کے بیانات نے بھی یہ تاثر دیا ہے کہ فوج اور حکومت کی اندرونی حلقوں میں ناراضگی جمہوری حکومت کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

ان حالات میں طالبان سے مذاکرات اور اب تحفظ پاکستان آرڈیننس کے ایوان زیریں سے منظور ہو جانے کے بعد حکومت سے نالاں اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی ایک بار پھر نواز شریف کی حکومت کی حمایت میں آواز بلند کر رہی ہے۔لہٰذا آصف علی زرداری کی وزیراعظم سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلا شبہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کو پاس کروانے کے لیے حکومت کی عجلت پر نہ صرف پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔

بلکہ اب تو اس مسئلے پر حکومتی اتحاد میں شامل فضل الرحمن بھی میاں نواز شریف کی حکومت سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں واضح کر چکی ہیں کہ وہ سینیٹ کے جاری اجلاس میں ممکنہ طور پر پیش ہونے والے پی پی او کو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مسترد کر دیں گی۔ یہ وہ اہم ترین مسائل ہیں جن پر دونوں جماعتوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

طالبان سے مذاکرات اور پی پی او کی منظوری کے معاملات اس ملاقات کے ایجنڈے میں زیر بحث آنے پر، ملک کی موجودہ صورتحال اور تمام معاملات پر تفصیل سے بات چیت ہو ئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا پی پی او پر واضح موقف سامنے آیا ہے کہ وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس موجودہ صورت میں پاس نہیں ہونے دے گی۔ پیپلز پارٹی نے اس آرڈیننس کے لیے مناسب ترامیم تیار کی ہیں جنھیں پی پی او کے سینٹ میں پیش ہونے کے بعد سامنے لایا جائیگا یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں باوجود لاتعداد باہمی اختلافات کے جب بھی سول اور فوجی قیادت کے درمیان تنا وٴکی کیفیت پیدا ہوئی، میاں نواز شریف نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر ہمیشہ جمہوری حکومت کا ساتھ دیا ،حتی کہ اس کی وجہ سے انھیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی برداشت کرنا پڑا۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی سب بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان اس ملاقات میں ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل اور استحکام پر اتفاق کیا گیا ہے۔دونوں رہنماں کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کے بارے میں حکومت اور فوج کے درمیان تناوٴ اور بلا وجہ قیاس آرائیوں کو ہوا دی جا رہی ہے۔

ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ وفاق پاکستان کی بقا، جمہوری عمل اور آئین کی بالادستی میں ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو مل جل کر اس کو مستحکم بنانا ہو گا۔ اگر کبھی بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ ہواتو دونوں رہنما تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ملاقات کے دوران وفود کی سطح پر اور بعد میں الگ الگ ملاقات میں ملک کی سیاسی و سلامتی کی صورت کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات، انسداد دہشت گردی کے متنازع قانون تحفظ پاکستان آرڈیننس کے علاوہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سیاسی طور پر ایک دوسرے کی روایتی حریف جماعتیں رہی ہیں لیکن 2013 میں ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے بعد آصف علی زرداری، نواز شریف کو ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے لیے اپنی حمایت کا بھرپور یقین دلاتے رہے ہیں۔ ملک کی تمام جماعتوں کیلئے تاریخ کا یہی سبق ہے کہ اب کوئی آمر سیا سی جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کر سکے گا۔

اج ملک میں آئین اور پا رلیمنٹ کی بالا دستی قائم ہے ہمارے ملک میں سیاسی ر ہنماوں نے کوڑے جلا وطنی اورپھا نسیاں اور اور اپنے قائدین کی ہلاکتیں بردا شت کی ہیں۔ اس تناظر میں اس ملاقات نے آمر یت کے حا میوں مایوس کیا ہو گا۔ پیپلزپارٹی کے 5 سالہ اقتدار کے دوران ہر مشکل موقع پر میاں نواز شر یف نے اختلا فات کے باوجود پی پی حکو مت کا ساتھ دیا یہی و جہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی مسلم لیگ ن کی حکو مت کے بارے میں تحفظات ہو نے کے باو جود آ ئین اور جمہوریت کو بچا نے کے لئے حکو مت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔اس لئے کہ ملک سے غر بت ،بے رو ز گاری اور لوڈ شیڈ نگ سمیت تما م مسائل کا خا تمہ صرف جمہوریت کی مو جود گی میں ہی ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aain Or Qanoon Ki Baladasti Muqadam Rahe Gi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 April 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.