ضربِ عضب پر نقب لگانے کی کوشش اور سائبر بل

کوئٹہ میں سو کے قریب وکلا، صحافیوں، ڈاکٹر اور عام شہریوں کو دہشتگردوں کی طرف سے بربریت کا نشانہ بنانے کے بعد حکومت کو ایک بار پھریاد آیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کئی شقوں پر عمل ہی نہیں ہوا جن چند ایک پر عمل ہوا وہ بھی جزوی ہوا۔ دہشتگردی کی ہر واردات کے بعد حکمرانوں کے اندر جوش و جذبات کا اْبال جوش مارتا ہے

بدھ 17 اگست 2016

Zarb e Azb Per Naqb Lagane Ki Koshish or Cyber Bill
مطلوب وڑائچ:
کوئٹہ میں سو کے قریب وکلا، صحافیوں، ڈاکٹر اور عام شہریوں کو دہشتگردوں کی طرف سے بربریت کا نشانہ بنانے کے بعد حکومت کو ایک بار پھریاد آیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کئی شقوں پر عمل ہی نہیں ہوا جن چند ایک پر عمل ہوا وہ بھی جزوی ہوا۔ دہشتگردی کی ہر واردات کے بعد حکمرانوں کے اندر جوش و جذبات کا اْبال جوش مارتا ہے مگر وقتی جذبات کے تلاطم میں بہت جلد ٹھہرآ آجاتا ہے۔

چند دن بعد پھر پرانی ڈگر پر آ کر گویا دہشتگردوں کے اگلے حملے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے حبس زدہ موسم میں ایوانِ وزیراعظم کے یخ بستہ ماحول میں وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں اعتراف کیا گیا کہ ایکشن پلان کی 8شقوں پر عمل نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

(یاد رہے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع اللہ،جماعت اسلامی اور دیگر کئی پریشر گروپ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں مدرسہ ریفارم بل لایا جائے اور اس طرح 60ہزار کے قریب مدرسوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ وہ ریاست کو یرغمال بنا کر طالبان کے آلہ کار بن کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے رہیں)اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی موجود تھے۔

ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے پر وزیراعظم سخت ناراض اور برہم ہوئے۔ انکی برہمی کس پر تھی۔ دہشتگردوں کیخلاف جنگ کو خود کمانڈاورلیڈ کرنے کااعلان کر چکے ہیں۔ سویلین سطح پر دہشتگروں کیخلاف جنگ میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کامیابی کا کریڈٹ یا ناکامی کا ڈس کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کریڈٹ کہیں نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں مجرمانہ غفلت دوسرے لفظوں میں اسکے اطلاق اور نفاذ میں بدنیتی شامل ہے۔

اجلاس میں برہم ہونیوالے وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ اب تک دہشتگردوں کے کتنے سہولت کار پکڑے ہیں۔ دہشتگردوں کی کتنی نرسریاں بند کی ہیں جو مدارس کی صورت میں موجود ہیں۔ انکی فنڈنگ بدستورکیوں جاری ہے۔مسلم لیگ ن کی مرکزی اور پنجاب حکومت ہی ایکشن پلان پر عمل کرنے کیلئے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ نہیں کر رہی سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہیں۔

پنجاب حکومت پر دہشتگردوں کی سپورٹ اور ان سے رابطوں کا الزام تھا جسے اس حکومت میں شامل بااثر لوگ اپنے بیانات سے تسلیم بھی کر رہے ہیں جو دراصل ضربِ عضب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ اور ان کی بدنیتی کا اظہار بھی ہے۔ فوج کے افسر اور جوان دہشتگردوں کے ناپاک وجود سے ارض وطن کو پاک کرنے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ فوج اس جنگ کو جیتنے کیلئے اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔

وہ کچھ اسکی راہ میں رکاوٹ بننے والوں سے واقف اور انکے خبثِ باطن سے آگاہ ہے اسی لیے جنرل راحیل شریف نے اپنے فوجی رفقاء کے ساتھ اجلاس میں واضح الفاظ میں باور کرایاکہ نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت نہ ہونے سے ضرب عضب آپریشن متاثر ہو رہا ہے۔اس پر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے وہ آرمی چیف کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ پنجاب کی حد تک یہ بات درست نہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کوئی گاڑی نہیں ہے جسے سرپٹ چھوڑا جائے۔ پنجاب کے طاقتوراور خادم اعلیٰ کے چہیتے وزیر کے ارادوں کا اندازہ انکے اس بیان سے ہو جانا چاہیے۔یہ صاحب سانحہ ماڈل ٹاوٴن میں بھی ملوث ہیں۔ انہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے دہشتگردوں سے تعلقات اور رابطے ہیں۔ ایک طرف پاک فوج دشمن کیساتھ برسرپیکار اور اپنی جانیں نچھاور کر رہی ہے تاکہ ضربِ عضب آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔

دوسری طرف سیاسی اور جمہوری حکومتیں ضربِ عضب ہی کو ہڑپ اور ہضم کرنے کے درپے ہیں مگراب ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ فوج کسی کے مفاداور کسی کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنی جانیں نچھاورنہیں کر رہی۔ ہر سیاسی حکومت اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔ انکو معلوم ہے کہ یہ ان کا آخری ٹینیور ہے۔ ان سے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جا سکا نہ معیشت بہتر ہو ئی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک قرضوں میں جکڑتا چلاجارہا ہے۔ اب یہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور کے آخری دنوں کی طرح بھاگتے چور کی لنگوٹی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔پی پی سندھ میں یہی کچھ کررہی ہے۔ لوٹ مار کیساتھ پروٹوکول بھی تو مل رہا ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادتیں دوڈھائی سال حکومت کرنے کی ہی بڑی مشکل سے اہل ہیں۔ یہ انہوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے۔

پانچ سال تک حکمرانی انکے بس کی بات نہیں۔
اب ن لیگ سائبربل لے آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر بے جا پابندیاں لگا کر آزادی اظہار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔اس پر اپوزیشن تو واویلا کرہی رہی ہے کچھ حکومتی عہدیدار اور شخصیات بھی اس میں بل میں سقم موجود ہونے کا اعتراف کررہی ہیں۔ اس قانون کے تحت سزائیں بہت سخت ہیں۔ سائبر لاء سے نہ صرف بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے سنسر شپ کا دروازہ بھی کھل جائیگا۔

حکومتی عہدیدار یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قانون سے ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنیوں کا کاروبار متاثر ہوگا لیکن اس سے قوم کو بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑیگا۔ بل کی زبان ایسی ہے جس کا حکومتی ادارے غلط استعمال کر سکتے ہیں۔بل لانے والے کل اسی کی زد میں آ کر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر روتے نظر آئینگے۔ قوانین ایسے بنائیں کہ حکومت میں ہوتے ہوئے اس کافائدہ نہ ہو اور اپوزیشن میں آئیں تو رونا نہ پڑے ۔ آنیوالے دنوں کی ایک اہم خبر یہ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک نے 20اگست کوملک کے ڈیڑھ سو شہروں کومکمل جام کرنے کا پروگرام ترتیب دے دیا ہے اور کسی بھی انتقامی کاروائی کی صورت میں شدید مزاحمت کا کھلا اعلان بھی کیا ہے۔ا ب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zarb e Azb Per Naqb Lagane Ki Koshish or Cyber Bill is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.