وزیر اعظم حکومت سندھ اور پولیس پر برہم

کراچی میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر سول اور ملٹری قیادت ایک بار پھر ایک صفحہ پر آ گئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنا وزن وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کے پلڑے میں ڈال دیا

جمعہ 20 فروری 2015

Wazir e Azaam Hakomaat Sindh Or Police Per Barhaam
شہزاد چغتائی:
کراچی میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر سول اور ملٹری قیادت ایک بار پھر ایک صفحہ پر آ گئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنا وزن وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کے پلڑے میں ڈال دیا۔ لیکن وزیراعظم دہشت گردوں کے خلاف پیشرفت پر غیر مطمئن اور مایوس دکھائی دیئے۔ انہوں نے حکومت سندھ اور پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے قومی ایکشن پلان کی تشکیل کے بعد سندھ میں تین بار سیکرٹری داخلہ کے تبادلوں کا نوٹس لیا اور وزیر اعلیٰ سندھ سے اس بارے میں استفسار کیا۔ نواز شریف نے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا ایک ماہ میں تین سیکرٹری داخلہ کیوں بدلے گئے۔ انہوں نے حکم دیا کہ آئندہ تبادلے اپیکس کمیٹی کے ذریعہ کئے جائیں۔ وزیراعظم نے اس حکم کے ساتھ تمام تقرر اور تبادلوں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

(جاری ہے)

وزیراعظم پولیس اور پراسیکیوشن کی کارکردگی پر بھی برہم ہوگئے۔ انہوں نے حکم دیا کہ پولیس کارکردگی بہتر بنائی جائے کیونکہ ہمیں بریفنگ نہیں نتائج چاہئیں۔ ایک ہفتہ قبل انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں کراچی آپریشن کا کپتان قرار دیا تھا۔ لیکن حالیہ دنوں میں تبدیل شدہ صورتحال کی وجہ وہ شکایات اور تحفظات کے انبار تھے جس کی جانب وزیراعظم کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔

اس موقع پر آرمی چیف راحیل شریف نے بھی کراچی میں امن و امان کے قیام کیلئے پولیس کو غیر سیاسی بنائے جانے پر زور دیا ہے اس دوران انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ کراچی کے امن کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس طرح وزیراعظم اور آرمی چیف کی سوچ میں ہم آہنگی پائی گئی اور انہوں نے پولیس کا قبلہ درست کرنے اور سندھ میں اپیکس کمیٹی کے ذریعہ معاملات چلانے کی ہدایت کی جس پر سندھ حکومت دباؤ میں آگئی اور اس کی مشکلات بڑھ گئیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ حکومت سندھ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی۔ وزیراعظم نے اشاروں کنایوں میں وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ بات سمجھائی۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو دلخراش واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی ازسرنو تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین کو ہر صورت میں انصاف دیں گے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

وہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا چالان پیش نہ کرنے پر برس پڑے اور کہاکہ پولیس اور پرسیکیوشن کا شعبہ30 ماہ استغاثہ کے سلسلے میں کیا کر رہا تھا۔ گورنر ہاؤس کے اجلاس میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان کراچی آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا۔ اجلاس کے بعد صوبے میں یہ چہ مگوئیاں بھی جاری رہیں کہ امن و امان کے معاملات صوبائی حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہے۔

اجلاس کی اندرونی کہانی بھی منظر عام پر آ گئی جس کے مطابق آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اجلاس میں صرف ایک جملہ ادا کیا۔ جبکہ وزیراعظم کا روئے سخن ان کی جانب تھا۔نواز شریف حکومت سندھ کی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے آصف علی زرداری کی جانب بھی دیکھتے رہے۔ اس طرح اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کئی بار کٹہرے میں کھڑی دکھائی دی۔
وزیراعظم نواز شریف نے سندھ میں مسلم لیگیوں کے ساتھ انتقامی کارروائیوں کا بھی نوٹس لیا۔

مسلم لیگ کے وفد نے وزیراعظم کو بتایا کہ سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم ہیں اور تبادلوں کیلئے بھاری نذرانے طلب کئے جاتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ کے رہنماؤں اور عہدے داران نے شکایات کے دفاتر کھول دیئے اور سندھ میں لوٹ مار‘ انتقامی کارروائیوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ وفاقی وزیر مملکت عبدالحکیم بلوچ نے کہاکہ کراچی میں زمینوں پر قبضہ کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔

دوسرے رہنماؤں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مخالفین کے خلاف مقدمات بنا رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو فنڈز نہیں دیئے جا رہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی پولیس پر آئی جی کا نہیں بلکہ ایس ایس پی راؤ انور کا کنٹرول ہے۔ ٹھٹھہ کے شیرازیوں نے بھی انتقامی کارروائیوں کا ذکر کیا اور وزیراعظم سے وقت مانگا۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے کراچی آپریشن میں تیزی لانے اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ملزمان کو کیفر کردار پہنچانے پر بھی زور دیا۔


اس سے قبل وزیراعظم اور آرمی چیف کی مداخلت پر ذوالفقار مرزا کے الزامات سے نڈھال پیپلز پارٹی مزید دباؤ کا شکار ہو گئی۔ آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔ اس موقع پر اتحادیوں سے مشاورت بھی کی گئی۔ دوسرے دن میڈیا سیل میں جب اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے بات چیت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ پیپلز پارٹی نے وفاق کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور سابقہ تنخواہ پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

شرجیل انعام نے میڈیا کے تیز و تند سوالوں کا جواب بہت خوبصورتی سے دیا اور وفاق کی مداخلت پر ناراض میڈیا کو ٹھنڈا کر دیا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ سول اور عسکری قیادت ایک صفحہ پر ہے۔ جب ایک صحافی نے 5 مارچ کو سینیٹ کے الیکشن کے بعد سندھ میں گورنر راج کی افواہ کی جانب توجہ دلائی تو شرجیل انعام میمن نے اس کی تردید کی اور کہاکہ جمہوری حکومتیں تبدیل نہیں ہو رہی۔

ادھر کراچی میں ان دنوں پیپلز پارٹی کے رہنماء ذوالفقار مرزا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور سوال کیا جا رہا ہے کہ ذوالفقار مرزا کی ناراضگی کا سبب کیا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب کو ہر 6 ماہ کے بعد دورہ پڑتا ہے۔ لیکن سیاسی پنڈت اس پر یقین نہیں رکھتے ان کا خیال ہے کہ ذوالفقار مرزا کی نظر سندھ کی گورنر شپ پر ہے۔ پیپلز پارٹی نے ذوالفقار مرزا سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ذوالفقار مرزا اس بات پر مضر ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے اندر رہ کر جنگ جیتیں گے۔

ذوالفقار مرزا کی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے ایم کیو ایم سے وہ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کر رہے۔ صرف مخالفت کی رسم نبھا رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ذوالفقار مرزا کی نگاہیں سندھ میں اہم عہدے پر ہیں اور وہ جام صادق بننا چاہتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے آج تک ذوالفقار مرزا کے کسی الزام کا جواب نہیں دیا اور لب سی لئے۔ لیکن ذوالفقار مرزا اور رحمان ملک کے درمیان ٹھن گئی۔

ذوالفقار مرزا نے سندھ کو کرپشن کے لئے اوپن ہاؤس قراردیتے ہوئے کہا کہ اصل وزیر اعلیٰ فریال تالپور ہیں‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بینظیر بھٹو کا خون سستا بیچا جا رہا ہے۔ آصف زرداری ہرمنافع بخش چیز کو اپنا بنانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ سیاست دکان بن گئی ہے‘ آصف زرداری بی بی کا خون اور بلاول بھٹو کو بھول گئے ہیں۔ دو تین سال پہلے جب ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم کو بے بھاؤ کی سنا رہے تھے تو پیپلز پارٹی کے رہنما بہت خوش تھے اور ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے بغلیں بجا رہے تھے۔

آصف علی زرداری بھی خاموش تھے اب ذوالفقار مرزا نے آصف علی زرداری کو ہدف بنا لیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہاکہ مجھے بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات سے آصف علی زرداری اور رحمان ملک نے روکا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف ذوالفقار مرزا کی زہر افشانی کے بعد پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے اور جیالے بدین میں سڑکوں پر آگئے‘ سابق وفاقی وزیر قانون مولا بخش سومرو نے کہا کہ بدین کے عوام آصف علی زرداری کے سا تھ ہیں۔

یہ سوال بھی دریافت کیا جارہا ہے کہ ذوالفقار مرزا کو اچانک کیا ہوگیا ان کا رخ ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی کی جانب کیوں مڑ گیا۔ پیپلز پارٹی کے حلقے کہتے ہیں کہ ذوالفقار مرزا کی ناراضگی کا تعلق سینیٹ کے الیکشن سے ہے‘ ان کو توقع تھی کہ جب پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا اعلان ہوگا تو شاید ان کا نام بھی شامل ہوگا۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تھی تو مرزا خاندان کو وفاق اور صوبے میں بھرپور نمائندگی حاصل تھی‘ ان کی اہلیہ قومی اسمبلی کی سپیکر اور وہ خود سینئر صوبائی وزیر تھے۔

اس زمانے میں یہ باتیں ہوتی تھیں کہ سندھ میں ذوالفقار مرزا کے طمطراق کا یہ عالم تھا سب ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔اب قائم علی شاہ پریس کانفرنس کرتے ہیں تو کئی وزراء قائم علی شاہ کے ساتھ بیٹھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ لیکن جب ذوالفقار علی مرزا کی پریس کانفرنس ہوتی تھی تو وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ بیٹھ کر ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔

ذوالفقار مرزا اور سابق صدر ایک زمانہ میں گہرے دوست تھے۔ بے نظیر بھٹو ان پر بہت اعتماد کرتی تھیں‘ پھر دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ شاید ذوالفقار علی مرزا نے خود ہی سب کچھ کھو دیا۔ ایک اینکر نے ان کو اکسایا اس وقت سب کا خیال تھا کہ ان کی پشت پر ایجنسی ہے‘ لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو کہ بعد میں ایجنسی سے بھی لڑ پڑے‘ یعنی معاملہ بہت چھوٹی سطح کا تھا ذوالفقار مرزا دو چار برس پہلے جب سچ یا جھوٹ بول رہے تھے تو تنہا تھے اب بھی اکیلے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے ان کو خوب استعمال کیا‘ ان سے دھواں دھار تقریریں کروائیں‘ اور یہ بیان تک دلوا دیا کہ پاکستان توڑنے کا پلان بنایا جا رہا تھا۔
اس دوران بلاول بھٹو نے بھی چپ کا روزہ توڑ دیا۔ پیر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنا پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی متحد ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیرون ملک چلے جانے اور طویل خاموشی کے باعث سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ بلاول اور ان کے والد آصف زرداری کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور بلاول ناراض ہوکر بیرون ملک چلے گئے ہیں لیکن بلاول نے بالآخر ٹوئٹ پیغام کے ذریعے پیپلز پارٹی کے متحد ہونے کی بات کہہ دی اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا جواب دیدیا۔

لیکن مخالفین بلاول کے ٹوئٹ کو نہیں مان رہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن کی پریس کانفرنس میں الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے نے سوال کیا کہ بلاول بھٹو کا ویڈیو کلپس کہاں ہے آپ ان کا ریکارڈ شدہ بیان منگوائیں اور سنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazir e Azaam Hakomaat Sindh Or Police Per Barhaam is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 February 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.