تھر کو مسیحا کی تلاش

ایک وقت تا کہ تھر پارکر اپنے دلکش اور قابل دید قدرتی نظاروں کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ کبھی اس صحرائی نحلستان میں مور رقص کرتے تھے اور زندگی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔ ان دنوں تھر پارکر کی مخصوص ثقافت اور بودوباش دیکھنے لائق تھی ۔ ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے تھے

بدھ 22 جون 2016

Thar Ko Maseeha Ki Talash
ایک وقت تا کہ تھر پارکر اپنے دلکش اور قابل دید قدرتی نظاروں کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ کبھی اس صحرائی نحلستان میں مور رقص کرتے تھے اور زندگی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔ ان دنوں تھر پارکر کی مخصوص ثقافت اور بودوباش دیکھنے لائق تھی ۔ ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل تھر کوئلے کے بے پناہ وسائل کے باعث خبروں کی زینت بنتا رہا۔

اسے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے اہم اور بے مثال منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ چند برسوں سے تھرپارکر تباہی و بربادی کی المناک تصویر بنا ہوا ہے۔ جہاں موررقص کرتے تھے وہاں موت رقص کرنے لگی ہے۔ تھر کے عوام غربت، بھوک، غذائی قلت، قحط اور خشک سالی کے باعث و ہ تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کے مستقبل کا سہارا بننے والے بچے انہی کے ہاتھوں میں دم توڑ رہے ہیں۔

وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے اپنی بد قسمتی پر ماتم کر رہے ہیں جبکہ سندھ کی بے حس ”سائیں سرکار“ عوام کی تباہی و بربادی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہیں۔ قائم علی شاہ سے ٹھیک طرح سے چلا نہیں جاتا وہ حکومت چلا رہے ہیں انہوں نے تھر کے مسئلے پر تنقید کرنے والے مخالفین کا کہا تھا کہ ”تھر کے عوام اور بچے بھوک سے نہیں بلکہ غربت کے باعث مر رہے ہیں“ غربت سندھ کا نہیں بلکہ سارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جتنے بچے سرگودھا کے ہسپتال میں پنجاب حکومت کی غفلت کے باعث مرے اتنے بچے تھر میں نہیں مرے۔ اس لیے سندھ حکومت پر تنقید کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سائیں سرکار تھر کے بھوکے پیاسے عوام سے کس قدر ہمدردی رکھتے ہیں؟
یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھر کی اس بری حالت کی اصل ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوئی کہ اس مسئلے کی اصل ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔

حکمرانوں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ہی تھر کے بھوکے پیاسے عوام موت کی آغوش میں جانے پر مجبور ہیں ۔اس حوالے سے جانے والی تحقیقات کی رپورٹس بھی منظر عام پرآچکی ہیں۔ جن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت اور متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر قائم علی شاہ نے 4رکنی تحقیقاتی کمیشن بنایا تھا۔

جس کا مقصد تھر میں قحط سالی کے اسباب معلوم کیے جا سکیں۔ تحقیقات کے بعد کمیشن نے رپورٹ جاری کی کہ قحط سالی کے دوران حکومت نے تھر کے شہریوں کی ٹھیک طرح سے مدد نہیں کی۔ ٹاون میونسپل ایڈمنسٹریشن اور دیگر امدادی اداروں میں باہمی تعاون کا فقدان پایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفیئر، زراعت، ماحولیات پاپولیشن ویلفیئر، ٹرانسپورٹ اور سیاحت وغیرہ کی کارکردگی بھی غیر تسلی بخش تھی۔

اس کمیشن نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ مختلف محکموں کے نمائندوں پر مشتمل صوبائی مانیٹرنگ تشکیل دے جو ہر چار ماہ بعد تھر پر ہونے والی پیشرفت پر وزیر اعلیٰ کو رپورٹ پیش کیا کرے۔ کمیشن نے یہ بھی تجویر کیا کہ غذائی قلت اور خشک سالی سے نمٹنے کے لیے منظم اور جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سے غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے خصوصی اور ہنگامی اقدامات بھی کیے جائیں۔

کمیشن کو یہ بھی معلوم ہواکہ تھر کے رہائشیوں کو یہاں شروع کی جانے والی ترقیاتی اسکیموں سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے انہیں ان منصوبوں میں شامل کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ انہوں نے حکومت کوتجویز دی کہ یہاں شہریوں کوتھرکول منصوبے میں نوکریاں دی جائیں۔
حکومتی غفلت کی نشاندہی کرتے ہوئے کمیشن کا کہنا تھا ک تھر میں میڈیکل آفیسر اور سپیشلٹ ڈاکٹرز کی 309 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔

ڈاکٹرز کی کمیابی کے باعث شہریوں کو علاج و معالجے کی بہترین سہولیات مہیا نہیں کی جار ہیں۔ شہریوں اور بچوں کی اموات کی بڑی وجہ ڈاکٹرز کی عدم دستیابی ہے ۔ ضلع بھر میں صرف 14 ایمبولینسز موجود ہیں ۔ وہ ڈاکٹرز جو تھر کا ڈومسائل رکھتے ہیں وہ بھی یہاں خدمات انجام دینے پر تیار نہیں اس لیے لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ کیا جائے۔ نیشنل کمیشن فارہیومن رائٹس کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے بھی تھر میں ہونے والی تباہی و بربادی پر تیار کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کچھ ایسے ہی تاثرات قلمبند کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت، تعلیم کا فقدان اور انتظامی محکمہ جات کی نااہلی تھرکی بربادی کے اصل ذمہ دار ہیں ۔ نیشنل اسمبلی سٹینڈنگ کمیٹی آن ہیومن رائٹس کے ممبران کاکہنا تھا کہ گزشتہ تین برسوں میں تھر میں828 بچوں کی اموات ہوئیں۔ فضیلہ علیانی جن کا تعلق بلوچستان سے ہے اور اس کمیٹی کی ممبر ہیں ان کاکہنا تھا کہ حکمرانوں کی کرپشن غفلت اور لا پرواہی عوام اور بچوں کی اموات کا باعث بنیں۔

علیانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 700 واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔ مجموعی طور پر 432 پلانٹس لگائے گے جن میں سے زیادہ تر خراب پڑے پڑے بیکار ہو رہے ہیں۔
سندھ حکومت کے نمائندہ نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ حکومت گزشتہ تین برسوں میں عوام کی فلاح و بہود کے کاموں پر 10ارب روپے خرچ کیے۔ یہ سن کر کمیٹی ارکان حیران رہ گئے کہ اگر حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے اتنی رقم خرچ کی تو پھرتھر میں موت کا رقص کیوں جاری ہے؟ ان رپورٹس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی اور انتظامی بد انتظامی کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ تھر کی بربادی کی اصل وجہ بنی۔

جب تک حکمران عوام کی جانب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تب تک تھر میں ترقی و خوشحالی کی صبح روشن نہیں ہو گی۔ تھر کے باسیوں کی زندگی کے لیے لالچی حکمرانوں کو اپنی نفسیاتی خواہشات کا گلا گھونٹنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Thar Ko Maseeha Ki Talash is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.