”سیاسی دہشت گردی“

موجودہ حالات میں جب پاکستان چاروں طرف سے دشمن کی سازشوں میں گھرا ہوا ہے اسکی آرمی چیف نے بھی نشاندہی کی ہے۔جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک خارجی خطرات میں گھرا ہوا ہے اس وقت خارجی سطح پہ بھارت کی( را )نے شرانگیزی پھیلا رکھی ہے

ہفتہ 16 اپریل 2016

Siasi Dehshat Gardi
مسرت قیوم:
موجودہ حالات میں جب پاکستان چاروں طرف سے دشمن کی سازشوں میں گھرا ہوا ہے اسکی آرمی چیف نے بھی نشاندہی کی ہے۔جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک خارجی خطرات میں گھرا ہوا ہے اس وقت خارجی سطح پہ بھارت کی( را )نے شرانگیزی پھیلا رکھی ہے معاشی راہداری پاکستان اور چین کے درمیان شاندار تعلقات کا مظہر ہے۔ یہ دراصل نہ صرف پاکستان اور چین کے عوام بلکہ باقی دنیا کیلئے امن اور خوشحالی کی ”راہداری “ہے۔

پاک فوج احسن طریقے سے ضرب عضب آپریشن کر رہی ہے فاٹا میں پاک فوج کا آپریشن اب آخری مراحل میں ہے۔ اس طویل جدوجہد میں عوام، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بہادر مسلح افواج نے شاندار قربانیاں دی ہیں۔ اب عالمی برادری بھی ہماری کامیابیوں کو تسلیم کرے۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جسے ہی ملک کے حالات ذرا بہتر ہونا شروع ہوتے ہیں تو سازشی عناصر گڑ بڑ شروع کر دیتے ہیں۔

اب قدرے استحکام کے بعد ترقیاتی کام شروع کرنے کیلئے ماحول سازگار ہوا تھا کہ سازشی عناصر نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے جبکہ راہداری منصوبہ کی کامیابی کیلئے اچھی گورننس اور شفافیت لازمی ہے۔ متعدد عالمی طاقتوں نے معاشی راہداری منصوبہ کی تعریف کی ہے تو کئی ملکوں نے تیوریاں بھی چڑھائی ہیں کچھ توعلاقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں اس لیے ہماری عسکری قیادت کے بعد اب سول قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی چوکس ہو جائے کیونکہ ہم سب نے مل کر دہشتگردی، انتہا پسندی اور کرپشن کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے اب پاکستان میں داخلی محاذ پربھی مسائل بڑھ رہے ہیں اگر ہم سیاسی دہشت گردی کا نام دیں تویہ ہماری بہت بری کامیابی ہو گی۔

آرمی چیف کا ان حالات میں جبکہ دنیا کے بڑے حصے کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کر رہا ہے اپنے ملک کو محفوظ بنانا اچھی بات ہے اس وقت گوادر پورٹ پاکستان کی مضبوط معیشت کی ضمانت سمجھا جا تا ہے اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہیں کہ گوادر پورٹ پاکستان کی مضبوط معیشت کی ضمانت ہے اسی گوادر سے جڑے ہوئے منصوبے اقتصادی رہداری کی بدولت آنیوالے چند ہی سالوں میں پاکستان صیحح معنوں میں ایشاء کا ٹائیگر بننے جا رہا ہے پاک چائینہ اقتصادی رہداری کی بدولت پاکستان میں ترقی و کامرانی کا ایک نیا دور شروع ہوگا چائینہ نے پاکستان میں تاریخ کی بڑی سرمایہ کاری اس لئے کی ہے کہ پاکستان اپنے پاووٴں پر کھڑا ہو سکے اس کیلئے بنایا جانیوالا روٹ پاکستان کے تمام علاقوں کیلئے ترقی کے یکساں مواقع پیدا کرنے کی امید ہے ان لمحات میں بعض ممالک چاہے وہ دشمن قوتیں ہماری ہمسایہ ہوں یا دیگر مغربی اقوام سے لیکن سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہے کیونکہ بعض غیر ملکی طاقتیں خطے میں بھارت تسلط کی پس پردہ حمایت کرتی ہیں اور اس کو آگے لانے کیلئے ہر وہ اقدام کرتی ہیں جس سے پاکستان کی تجارت یا پاکستان کی معیشت کو خطرہ ہوخود بھارت بھی اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ شاید وہ علاقے کا ٹھیکیدار ہے۔

جب ان قوتو ں کا بس نہ چلا تو انھوں نے پانامہ لیکس کے نام سے ایک نیا تماشا لگا دیا ہے جس میں بڑے بڑے ممالک کے سربراہان کے بارے انکشافات ہو رہے ہیں موجودہ حالات میں اس طرح کی چیزوں کا افشا کرنا طے شدہ ہے۔ ان انکشافات کے بعد متاثرہ ملکوں میں عوام سڑکوں پر ہیں تو بڑے ممالک کی قیادت جھک چکی ہے۔ حکمران جماعت کے وزارء ایک ایک بڑھ کر بیانات دے رہیے ہیں انھیں اپنے آپ کو ذرا کنٹرول کرنا چاہیے ، پاکستانیوں کیلئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہ الزامات کو تسلیم کر چکے ہیں۔

کسی نے استعفیٰ دیا ہے اورکسی نے دینے کا اشارہ دے رکھا ہے۔
ماں، باپ ،اساتذہ اور دیگر ایام کے بعداب یوم دستور بھی منایا جانا شروع ہو چکا ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عمارتوں پر چراغاں کیا گیا۔آئین مضبوط ہونا چاہئے آئین کے ساتھ جڑے ہووٴں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس سال پاکستانی قوم اپنا 43 واں یوم دستور منا یا ہے۔

موجودہ آئین 10 اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی سے پاس ہوا اور 12 اپریل 1973ء کو صدر مملکت کے دستخط کے بعد ملک میں نافذ العمل ہوا۔ اسکی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے بلا شبہ 1973ء کا متفقہ آئین ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ ہے اس آئین میں جمہوریت، مساوات، رواداری، شخصی آزادی، اسلامی معاشرے کے قیام، اقلیتوں سے مساوی سلوک، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے اور خود دستور کے تحفظ کی شق بھی شامل کی گئی ہے لیکن کیا خود حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں نے اس دستور پر عمل کیا؟ قطعی نہیں اس آئین کو بار بار مسخ کیا گیا۔

اس میں سیاسی و ذاتی مفادات کے تحت ترامیم اور قانون سازی کی گئی ۔ اسکی توہین و تضحیک کی گئی، طاقت کے زور پر منہ چڑایا گیا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں۔ اس آئین کی منظوری کے وقت اسکے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ”کیا یہ آئین اپنے طور پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اسکے قابل حیات ہونے کا دار و مدار عوام کے ہاتھ میں ہے، عوام کے شعور سے ممکن ہے اور اپنے مسائل کو سمجھنے پر ہے۔

“آج سیاسی کشمکش، توڑ جوڑ، مفادات کی سیاست اور پروپیگنڈا وار میں بے خبر عوام جمہوریت اور آئین دونوں سے بیزار نظر آتے ہیں اور آمریت کو اچھا سمجھتے ہیں۔حکمرانوں اور سیاست دانوں نے کردار نے عوام کو جمہوریت سے بدظن کر دیا ہے انصاف، صحت اور تعلیم وہ بنیادی سہولیات ہیں جن کی ذمے داری آئینی طور پر ریاست کے کاندھوں پر آتی ہے جب ریاست اپنے فرائض پورا کرنے میں ناکام ہے سب سے اچنبے والی بات یہ ہے کہ اچکزائی صاحب نے آرٹیکل 6میں تبدیلی کی بات کی ہے۔حکمران پہلے آئیں پہ عمل کرتے نہیں لیکن جو موجود ہے اس کا چہرا بھی مسخ کرنے کی کوشش کر رہیے ہیں علاج معالجے اور تعلیم کی ذمہ داری تو ریاست کی ہے لیکن ریاست اس میں سرے سے ناکام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siasi Dehshat Gardi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 April 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.