سیلاب پھر سرپرمگرکوئی پیش بندی نہیں

سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موسلادھار بارشوں اور سیلاب کے باعث تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان ہرنائی میں سیلابی ریلے میں 34افراد بہہ گئے تھے ان میں سے 9 کو ہی بچایاجا سکا۔ یہ لوگ کوئٹہ سے ہرنائی پکنک منانے آئے تھے۔ مقامی سطح پر بھی سیلابی ریلے سے بڑا نقصان ہواہے۔ سندھ میں تباہ کن بارشوں کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو گیا

بدھ 10 اگست 2016

Seelab Phir Sar Par
محمد یاسین وٹو:
سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موسلادھار بارشوں اور سیلاب کے باعث تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان ہرنائی میں سیلابی ریلے میں 34افراد بہہ گئے تھے ان میں سے 9 کو ہی بچایاجا سکا۔ یہ لوگ کوئٹہ سے ہرنائی پکنک منانے آئے تھے۔ مقامی سطح پر بھی سیلابی ریلے سے بڑا نقصان ہواہے۔ سندھ میں تباہ کن بارشوں کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو گیا۔

کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بارش کے دوران پانی میں ڈوبنے،کرنٹ لگنے،اور گری ہوئی دیواروں اور چھتوں کے نیچے آکر ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 26 ہو گئی۔ اس آسمانی آفت کو قہر اور غضب بھارت نے کشمیر چناب میں پانی چھوڑ کربنا دیا۔ د دریائے چناب طغیانی کی وجہ سے 200 دیہات میں پانی داخل ہو گیا کئی علاقوں میں سیلاب کی وارننگ دیدی گئی ہے۔

(جاری ہے)

یہ ابھی ابتداہے معاملہ آگے جاکر خوفناک ہو سکتا ہے۔

بارشوں اور سیلاب سے تباہی آتی ہے تو اس میں ہم فوری طور پر قدرت کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں۔ سیلاب بارشوں سے آئے یا بھارت کی طرف سے دریاوٴں میں پانی چھوڑنے سے آئے۔ اس سے ایک بھی ہلاکت ہو تو اسکے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے۔ ہم سیلابوں کی تباہی کو روک سکتے ہیں۔ دنیا میں جاپان ان ممالک میں شامل ہے جہاں انتہائی شدت کے زلزلے آتے ہیں،انہوں اب عمارتیں کا اس طرح کا ڈیزائن بنایا ہے کہ شدید ترین زلزلوں میں بھی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابرہوتی ہیں۔

امریکہ میں سمندری طوفان آنا معمول ہے مگر تباہی بہت کم ہوتی ہے،اس لئے کہ حکومت نے ایسے تباہ کن طوفانوں سے نمٹنے کے انتظامات کررکھے ہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں اور حکام جیسی امریکہ اور جاپان میں بھی لاپرواہی برتی جائے تو سالانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جائیں۔ بھارت دریاوٴں میں پانی چھوڑتا ہے توخیبرپی کے ، پنجاب اور سندھ میں تباہی مچاتاہوایہ پانی سمندر میں جاگرتاہے۔

پاکستان اللہ کی دین ہے اور اسکے خدوخال قدرت کی حسین صناعی کے شاہکار ہیں۔ ندی نالوں اور دریا?ں سے چھلک کے ہلاکت خیز بننے والے پانیوں کو ایک کالا باغ ڈیم کے اندر سمو کر اسے ضرورت کے وقت پینے اور آب پاشی کیلئے استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس سے اتنی بجلی بھی پیدا ہوسکتی ہے جو آج ہماری ضرورت ہے۔ ایک تو ہم نے کالاباغ ڈیم کو سیاست کی نذر کیا ہواہے،دوسرے ہماری حکومتیں ہوش میں اس وقت آتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو جاتاہے۔

بیوروکریسی،قیامِ پاکستان کے بعد سے سیلابوں کا تماشا دیکھ رہی ہے مگر اس پر قابو پانے کی تدبیر نہیں کرتی اور پھر ہمارے ہاں یہ سلسلہ بھی ہر سیلاب میں دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں میں شامل لوگ سیلاب کا رخ اپنی فصلیں اور علاقے بچانے کیلئے دوسری طرف موڑ دیتے ہیں۔ بندوں کے پشتے مضبوط کرنے کیلئے حکومتی مشینری خلقِ خدا کے ڈوبنے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ایکشن میں آتی اور لاشیں اٹھاتی ہے۔


پاکستان میں یوں تو سیلابوں سے تباہ کاری کا آغاز 1956ء کے سیلاب سے ہوگیا تھامگر سب سے زیادہ تباہی اور ہلاکتیں 2010ء کے سیلاب سے ہوئیں جب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ یہ وہ دور تھا جب صوبے اور مرکز میں ہم آہنگی کا فقدان تھاجس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑا۔ اسی سیلاب کے دوران ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی اہلیہ ایمن اردگان نے اپنا ہیروں سے مزین قیمتی نیکلس پاکستان کے سیلاب شدگان کے لئے وقف کیا،جسے وزیر اعظم گیلانی اپنے ساتھ گھرلے گئے۔

گزشتہ سال عدلیہ کے سخت نوٹس لینے انہوں نے یہ ہار توشہ خانے میں جمع کرایا۔ 2010 ء میں جنوبی پنجاب اور سندھ میں وڈیرے اپنی زمینیں بچانے کیلئے پانی کا رخ غیر قدرتی راستوں کی طرف نہ موڑتے تو پانی کم تباہی پھیلاتا ہوا سندھ کے صحرا سے گزر کر بھارت کے راجستھان کے صحرا میں داخل ہوجاتا اورپانی کا کچھ حصہ سمندر میں چلا جاتا۔ غیر قانونی طورپر بند توڑنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف تک شکایات پہنچیں تو انہوں نے تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ سے اپیل کی۔

جس پر ہائیکورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیدیا ہے۔ پنجاب میں بند تڑوانے میں دو وفاقی ایک صوبائی وزیراو ر کئی اراکین اسمبلی اور جاگیردار ملوث پائے گئے۔ رحیم یار خان، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں 70 افراد کیخلاف مقدمات درج ہوئے مگر کوئی کاروائی نہ ہوسکی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج جناب منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن دو ممبروں میں ایک جناب شاکر اللہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سول انجینئر کے ڈین اور دوسرے واپڈا کے ایک ممبر پر مشتمل تھا۔

اس کمیشن نے بڑی جاں فشانی سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے حکومت کو پیش کی جس میں سیلاب سے ہونیوالے مالی و جانی نقصان کے ذ مہ داروں کا تعین کیا گیا۔ اس رپورٹ میں تباہی کا ذمہ دار سیکرٹری ایریگیشن رب نواز کو قرار دیا گیا۔ رب نواز کا محاسبہ کرنے کی بجائے اسے انرجی کمیشن کا چیئرمین بنا دیاگیا۔ اس رپورٹ کو آج بھی نکال کر اس کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنا کر سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔

اس رپورٹ میں صرف سیکرٹری ایریگیشن ہی پر الزام نہیں ہیں،وہ صاحب اگر چہیتے تھے توان کو چھوڑ دیں،باقی سفارشات کو دیکھیں اوران پر عمل کریں۔ خدا ہمیں سیلاب سے بچائے مگر حکمرانوں کی طرف سے ابھی تک کوئی پیش بندی سامنے نہیں آئی۔ شاید مرکز اور صوبے لوگوں کے ڈوبنے کا انتظار کررہے ہیں۔ پھر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ امدادی سامان کے ٹرکوں کے آگے ویڈیوز اور تصاویر بنوا کرقوم کو بیوقوف بنارہے ہونگے ،خدار اانسانوں کی موت کو اپنی سیاست اور ڈرامہ بازی کیلئے استعمال کرنا بند کریں۔

انسانیت کی خدمت کو شعار بنائیں۔ اللہ نے نواز شریف کو نئی زندگی دی ہے ، وہ اسے سیاست میں الجھانے اورمخالفین کو سبق سکھانے کے بجائے انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سیلاب کی تباہ کاریوں اورہلاکت خیزیوں سے بچا جاسکتا ہے ۔ مصلحتوں اور سیاسی مفادات سے بالا ہوکر کالا باغ ڈیم تعمیر کردیں تواس کارِعظیم سے آپکا نام امر ہو جائیگااور قوم آپکی ممنونِ احسان رہے گی۔ ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچاناہے،کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سیلابوں کے خاتمے، فصلوں کی سیرابی اور انسانوں و جانوروں کو پینے کے پانی کی دستیابی سے کتنے ذی روح بچ جائیں گے،اس کا اجر آپکو تاقیامت ملتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Seelab Phir Sar Par is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.