پونے تین سال

5 مارچ کو شریف حکومت کے پونے تین سال پورے ہو گئے اس عرصے میں پاکستانی عوام اور پاکستان کو کیا فائدے حاصل ہوئے، جن لوگوں نے شریف حکمرانی کیلئے ووٹ دئیے تھے ان کی توقعات کس حد تک پوری ہوئیں، ان لوگوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی

بدھ 9 مارچ 2016

Pone 2 Saal
خالد محمود ہاشمی:
5 مارچ کو شریف حکومت کے پونے تین سال پورے ہو گئے اس عرصے میں پاکستانی عوام اور پاکستان کو کیا فائدے حاصل ہوئے، جن لوگوں نے شریف حکمرانی کیلئے ووٹ دئیے تھے ان کی توقعات کس حد تک پوری ہوئیں، ان لوگوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی۔ کیا غریبوں سے غربت نے منہ پھیر لیا یا مزید ان کے کاندھوں پر سوار ہوگئی؟ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار یا رینکنگ جیسے پہلے تھی ویسی ہی رہی یا مزید زوال پذیر ہوگئی۔

شریف حکومت کے بہی خواہوں اور دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا یا مخالفین کی تعداد بڑھ گئی؟ عوام کیلئے پونے تین سال میں روٹی اور آٹا تو سستا نہ ہو سکا البتہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساڑھے 8 روپے لٹر تک کمی ضرور ہو گئی‘ سی این جی بھی 7 روپے تک سستی کر دی گئی۔

(جاری ہے)

پاکستان میں پٹرول اور پانی کی قیمت کم و بیش ایک ہو گئی ہے کوالٹی کے منرل واٹر کی کی لیٹر کی بوتل 60 روپے میں ملتی ہے جبکہ ہوٹلوں میں اسی بوتل کی قیمت 75 روپے سے کم نہیں جبکہ پٹرول فی لیٹر 62 روپے 77 پیسے میں مل رہا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جتنی کمی ڈیڑھ سال کے دوران دیکھنے میں آئی ہے گزشتہ بارہ سال میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پونے تین سال میں حکومت کی کامیابی قطر سے سالانہ ایک کھرب روپے کی ایل این جی خریداری کا 15 سالہ معاہدہ ہے۔ ایل این جی سے کارخانے چلیں گے 2000 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی بجلی سستی ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دینی ہے۔

وزیراعظم اسے گیم چینجر قرار دیتے ہیں جبکہ چینی قیادت نے منصوبے پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنیوالی چینی قیادت اس منصوبے کی بروقت تکمیل کی خواہاں ہے۔ پونے تین سال میں تھرپارکر کے عوام کی بے بسی پر کسی کو رحم نہیں آیا۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 45 فیصد تعداد کو مناسب غذا نہیں ملتی جس سے انکی افزئش میں خلل پڑ رہا ہے۔

تھرپارکر میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کی اموات کسی کا دل نہیں ہلاتی۔ تھر کا صحرا صرف سندھ کی مشرقی سرحد تک محدود نہیں ہے، تمثیلی معنوں میں یہ صحرا پھیلتا اور بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں کہنے والوں کو صحرا کے بچے کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں صرف ایتھوپیا‘ یوگنڈا اور نائیجیریا ایسے پسماندہ ترین ممالک ہی پاکستان سے پیچھے ہیں۔

بھارت ہی نہیں سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال ایسے ممالک بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ قیام پاکستان کے 68 سال بعد بھی غیرت کے نام پر قتل جیسی قبیح روایات سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکا۔ مقام اطمینان ہے کہ شریف حکومت غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو روکنے کیلئے موجودہ قوانین کو موثر بنا رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے حقوق نسواں کا بل منظور کرکے عورتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کی جو کوشش کی ہے بعض مذہبی رہنماوٴں نے کالا باغ اور پاک چین اقتصادی راہداری کی طرح اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین و اسلام کے منافی قرار دے دیا ہے۔


پونے تین سال میں تھانہ کلچر ڈھٹائی سے اپنی جگہ موجود ہے۔اس بارے میں اعلیٰ عدالتوں کے ریمارکس پر مشتمل ضخیم کتاب قلمبند ہو سکتی ہے۔ کوئی عام آدمی نہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کہہ چکے ہیں کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں، ایس ایچ او کروڑوں دے کر لگتے ہیں اور انہوں نے پیسے بھی پورا کرنا ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس بھی اگر اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر پرچہ کے اندراج کیلئے جائیں تو ایس ایچ او ان سے بھی پیسے لے لے گا۔


مردم شماری جو ہر صورت ہونی چاہئے تھی’ ہوتے ہوتے رہ گئی‘ آئینی تقاضوں کے تحت پاکستان میں مردم شماری ہر دس سال بعد ہونی چاہئے۔ پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی تھی اور آخری 1998ء جو دراصل 1991ء میں ہونی چاہئے تھی۔ 2016ء میں مردم شماری ہوئی تو 18 سال بعد ہوگی۔ غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق پاکستان کی آبادی اس وقت 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔

دو کروڑ پاکستانیوں کے پاس اپنا گھر نہیں۔حکومت وقت کی ترجیح نجکاری ہے۔ نواز شریف واضح کر چکے ہیں، پی آئی اے کی بحالی اور نجکاری کا عمل جاری رہے گا اس معاملے میں وہ کسی دباوٴ میں نہیں آئے اور ہڑتال دم توڑ گئی۔ نواز شریف نے 22 جنوری 1991ء میں فری مارکیٹ اکانومی کے تحت بھٹو دور میں قومیائے گئے اداروں کی نج کاری کا عمل شروع کیا تھا۔ 2007ء تک تقریباً 90 فیصد سرکاری اداروں کو نجی ہاتھوں میں دے دیا گیا تھا۔


الطاف حسین کے منظر سے غائب کئے جانے کے بعد سے ایم کیو ایم اپنا وزن کھوتی جا رہی ہے لیکن بے وزن نہیں ہوئی۔ ذوالفقار مرزا نے بھی آصف زرداری کیخلاف کتنا زہر اگلا تھا لیکن زرداری کی صحت پر کیا فرق پڑا‘ لوگ اتنی جلدی نہیں پیچھے ہٹتے۔ کسی چور کو ایک بار چور کہہ لیں یا سو بار اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی مجرم کو سو بار سزائے موت سنا دی جائے پھانسی تو ایک بار ہی دی جائیگی۔

اسی طرح مصطفی کمال کے انکشافات سے پہلے بھی انکشافات ہوتے رہے ہیں۔ ”را“ سے دوستی کی بات بھی نئی نہیں، مائنس الطاف فارمولا بھی کارگر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ 30 سال کراچی میں الطاف بھائی الطاف بھائی ہوتی رہی اب محض مصطفی کمال کے کہنے سے سارا کراچی الطاف حسین کو قابل ملامت نہیں جانے گا۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت محدود کرنے اور ایٹمی ذخائر کو کم کرنے کے مطالبے کے ساتھ محدود ہدف کے ایٹم بم بنانے بند کرنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔

پاکستان عدم پھیلاوٴ کی پالیسی پر گامزن ہے تو پھر امریکہ کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھا ہے۔ خود امریکہ کے پاس 85.9 میٹرک ٹن ایٹمی مواد موجود ہے بھارت کے پاس 4.920 میٹرک ٹن جبکہ پاکستان کے پاس صرف 0.14 میٹرک ٹن۔ دنیا والے پاکستان کے خلاف ایک بھی ایسا واقعہ سامنے نہ لا سکے کہ اس کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے یا وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں چڑھ سکتا ہے بھارت سے اچھے ہمسایوں والے تعلقات دور دور تک نظر نہیں آتے اس لئے کہ الزام تراشی بھارت کا پرانا شیوہ ہے جو وہ نہیں چھوڑ سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pone 2 Saal is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.