پاسکو

44 آسامیوں پر بوگس بھرتیاں۔۔۔۔ ان میں گریڈ 16 سے گریڈ 19 تک بھرتی ہونے والے ”افسروں“ کو غیر معمولی تنخواہ اور مراعات دی گئیں ۔ان بھرتیوں کے لیے پاسکو کے ریگولر ملازمین کے کوٹے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح کنٹریکٹ بھرتی کے قواعد و ضوابط اور معیار کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں

Syed Badar Saeed سید بدر سعید جمعرات 26 مئی 2016

Passco
عام طور پر پاکستانی شہری نظام کی خرابی‘ بیورو کریسی کی لا پروائی اور غفلت کی شکایت کرتے رہتے ہیں ۔ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیاجاتا ہے کہ پاکستان میں انتہائی ذہانت کے حامل اور مشکل سمجھے جانے والے مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے لوگ جب عہدوں پر آتے ہیں تو ان کی ذہانت کہاں جاتی ہے؟ ان کے اکثر منصوبے ناکام کیوں ہو جاتے ہیں اور محض کرپشن ہی کیوں عروج پر نظر آنے لگتی ہے۔

یہ سوال بھی گردش کرتا رہتا ہے کہ بیوروکریسی کی ناکامی کی وجہ کیا ہے ؟ ان سوالات کے جواب مختلف رپورٹس سے مل جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں قابل افراد کی جگہ سفارشی افراد لے لیتے ہیں۔ متعدد محکموں میں درجنوں ایسے افراد بھرتی کئے گے جو اس پوسٹ کے اہل ہی نہیں تھے۔

(جاری ہے)

اب حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق ”پاسکو“ لاہور ہیڈ کوارٹر میں بھی گریڈ 5 گریڈ 19 کی 44اسامیوں پر بوگس بھرتیاں کی گئیں جن کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2013 میں پاسکو میں کنٹریکٹ پر 44 بھرتیاں کی گئیں۔ ان میں گریڈ 16 سے گریڈ 19 تک بھرتی ہونے والے ”افسروں“ کو غیر معمولی تنخواہ اور مراعات دی گئیں ۔ان بھرتیوں کے لیے پاسکو کے ریگولر ملازمین کے کوٹے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح کنٹریکٹ بھرتی کے قواعد و ضوابط اور معیار کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ اس سلسلے میں دو برس قبل ہی پاسکو ملازمین نے وزیراعظم کے نام مراسلہ بھی لکھا تھا۔

اس کے بعد 2015 میں تحقیقات کے بعد رپورٹ تیار ہوئی اس میں بتایا گیا کہ ی بھرتیاں خلاف قواعد اور بوگس ہیں۔
المیہ یہ ہوا کہ یہ رپورٹ پاسکو مافیا کے دباو پر وزیراعظم ہاوس بھیجی ہی نہیں گئی ۔ اس کے بعد کی کہانی یہ ہے کہ پاسکو کے ہی متاثرہ ملازمین نے اس رپورٹ کی دستخط شدہ کاپی اپنے ذرائع سے حاصل کر کے اس کی نقل وزیراعظم کو بھجوا دی۔ اس کے بعد ” انتظامیہ“ حرکت میں آئی۔

وزیراعظم ہاوس کے حکم پر دوبارہ انکوائری کا عمل شروع ہو گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس انکوائری میں بھی بوگس بھرتیوں کی تصدیق اور ذمہ داروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایسی کہانیاں لگ بھگ ہر سرکاری ادارے میں بکھری ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی نیب نے سابق چیئرمین بلوچستان پبلک سروس کمشن کو نوکریوں کی بندر بانٹ اور کروڑوں روپے بٹورنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

ہمارے یہاں اکثر بیورکریٹس کے بچوں کے مقابلے کے امتحان میں نمایاں کامیابی پر بھی سوال اٹھتے رہتے ہیں اور پوچھا جاتا ہے کہ کیا ذہانت بھی افسروں کے بچوں کے حصہ میں ہی آتی ہے ۔ اسی طرح کئی دیگر اعلیٰ افسران اور محکموں پر بھی سرکاری سفارشوں کی بندر بانٹ کے الزامات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سرکار اسی طرح من پسند افراد کو سرکاری ملازمتوں خصوصا افسر شاہی کی کرسی پر بٹھاتی رہے گی تو یہ نظام کیسے درست ہو سکتا ہے۔

؟ کیا اب پاسکو کا معاملہ بھی ٹھپ ہو جائے گا یا ذمہ داروں کے خلاف کارروئی ہو گی؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والوں کو ہی سزا ملے گی یا ان کے ”سہولت کاروں“ سے بھی حساب لیا جائے گا؟ کیا پبلک سروس کمشن کے گرفتار چیئرمین سے نشاندہی کروا کر ”جعلی بیوروکریسی“ کو بھی نکالا جائے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Passco is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.