پاکستانی معاشرے میں کرپشن کا بڑھتا ہوا نا سور

اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم قرار دے کر اس دنیا کی آزمائش گاہ میں بھیجا ہے۔ خیر و شر کا یہ مرکب صلاحیتوں کے اعتبار سے فرشتوں جیسی نورانی مخلوق سے افضل ہے۔اگر شعوری طور پر انسان اللہ کے احکامات کی روشنی میں زندگی بسر کرے تو یہ مسجود ملائک، اللہ کا پسندیدہ قرار پائے۔ لیکن صراط مستقیم سے بھٹک جائے اور سفلی خواہشات کا اسیر ہوجائے تو پھر اسفل سافلین ٹھہرے

ہفتہ 24 دسمبر 2016

Pakistani Muashre Main Curruption Ka Bharta Hua NasooR
اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم قرار دے کر اس دنیا کی آزمائش گاہ میں بھیجا ہے۔ خیر و شر کا یہ مرکب صلاحیتوں کے اعتبار سے فرشتوں جیسی نورانی مخلوق سے افضل ہے۔اگر شعوری طور پر انسان اللہ کے احکامات کی روشنی میں زندگی بسر کرے تو یہ مسجود ملائک، اللہ کا پسندیدہ قرار پائے۔ لیکن صراط مستقیم سے بھٹک جائے اور سفلی خواہشات کا اسیر ہوجائے تو پھر اسفل سافلین ٹھہرے۔

اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل بھیجے اور اس سلسلے کے آخری نبی، ہادی انسانیت حضرت محمدﷺ تھے جنہوں نے تعلیمات اسلامی کو اپنے عمل کے ذ ریعے اہل جہاں کے سامنے پیش کیا۔مشقتوں بھر ی زندگی گزاری ، فاقے برداشت کیئے، ظلم و زیادتیوں کا صبر کے ساتھ مقابلہ کیا ،اور اپنی زندگی میں ہی صحابہ کرام کی ایسی جماعت تیار کی جو اللہ کی رضا کے طلب گار تھے۔

(جاری ہے)

دیانت داری ،امانت ،حقوق انسانی کی پاسداری ان کی شناخت تھی۔ وہ ہمیشہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے پاس دار تھے۔اگر صحابہ کرام? میں سے کسی کو خلافت کی ذمہ داریاں دی گئیں تو وہ اسے اللہ کی امانت سمجھ کر انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیئے استعمال کرتے تھے۔کبھی نہ توخود استحصال کیا اور نہ کسی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے دیا۔کوئی جھوٹ ،کوئی فریب ،کوئی دغا اور کوئی دھوکا ان کے معاملات ،کردار اور گفتار میں نہیں تھا۔


دور فاروقی کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ یمن سے مال غنیمت میں مسلمانوں کو چادریں ملیں ۔ حضرت عمر دراز قامت تھے۔ انہوں نے کرتہ بنوایا جب وہ کرتہ پہن کر مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ایک بدو نے اٹھ کر امیر المومنین سے مخاطب ہو کہ کہا کہ جو کرتہ آپ نے زیب تن کیا ہوا ہے اس کپڑے سے آپ کا کرتہ تیار نہیں ہو سکتا تھا۔لہذا آپ نے زیادہ کپڑا لیا ہے۔

اس پر حضرت عمرکے ماتھے پر نہ کوئی بل آیا اور نہ ہی خفگی کا اظہار کیا۔بلکہ اس شخص کی بات کو خوش دلی سے سنا اور اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا انہوں نے کھڑے ہو کر وضاحت کی کہ میرے والد کا کرتہ ان کے حصے کے کپڑے سے نہیں بنتا تھا میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دیا جس سے انہوں نے یہ کرتہ بنوایا۔اس شخص کے سامنے جب یہ وضاحت آئی تو اس نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ہمارا امیر المومنین سچ کہہ رہا ہے۔

اب ہم پر ان کی اطاعت فرض ہے۔ہماری روشن تاریخ کی شاندار مثالیں موجود ہیں۔کیونکہ مومن اس دنیا میں نفس پرستی کے لیئے نہیں آیا۔اللہ نے کتاب ہدایت میں فرما دیا ہے کہ وما الحیٰوة الدنیا الامتاع الغرور۔ دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی ہے ۔مفکر اسلام حضرت علامہ اقبال نے فرمایا ہے
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
فریب سودو زیاں لا الہ الا اللہ
اس تناظر میں جب ہم ارض پاک کے حکمرانوں اور باسیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو حرص وطمع کے مکروہ پیمانوں کو دیکھ کر نفرت اور حقارت سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔

کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا تصور قائد اعظم اور بانیان پاکستان نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کرپیش کیااور یہ خطہ ارضی حاصل کیا۔آج جس طرف نگاہ دوڑائی جائے پوری قوم کرپشن میں لت پت نظر آتی ہے جب حکمران جھوٹ کو ورد زباں بنا لیں جب ان کی اولادیں غیر معیاری رویے اپنا کر دھن دولت میں جت جائیں تو بیورو کریٹس ،سرکاری ملازم سیاست دان اور صاحب اختیار، اس برائی کو کیوں نہیں اپنائیں گے۔

جب کسی معاشرے میں معاشی دہشت گردی جڑ پکڑتی ہے تو پورا نظام انصاف دھڑام سے نیچے آجاتا ہے۔تمام حکومتی ادارے اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کر کے مال حرام کو اکٹھا کرنے پر لگ جاتے ہیں۔ہر ملازم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا وہ اپنے وسائل سے بڑھ کر عیش و آرام کا طلبگار بن جاتا ہے۔اس کا معیار زندگی اس کے وسائل آمدنی سے کہیں زیادہ جاذب نظر دکھائی دیتا ہے۔

اس میں حلال و حرام کی تمیز مٹ جاتی ہے۔یہی وہ بدترین صورت حال ہے جس سے پاکستانی معاشرہ گزر رہا ہے۔مال مفت دل بے رحم ،کا محاورہ تو زبان زد عام ہے۔نیب کا محکمہ پلی بارگین کے ذریعے کرپشن کو پھیلانے میں بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔یہ کتنی نا انصافی ہے کہ کروڑوں کی کرپشن کرنے والے سے چند لاکھ وصول کر کے اسے لوٹے ہوئے مال پرعیش و عشرت کرنے کا پروانہ جاری کر دیا جائے ۔

اس حرام خور کی نسلیں اس لوٹی ہوئی رقم سے قانون کو خرید لیتی ہیں کس کی جرات ہے کہ ان کی اعلی نسل کی گاڑیوں کو ٹریفک اشارے توڑتے ہوئے پکڑے۔وہ مال حرام کے بل بوتے پر کتنے غریب خاندانوں کے چشم و چراغ بجھا کر رکھ دیتے ہیں۔کتنی مایئں آج بھی اپنے لخت جگر کے قتل ہونے پر منصفوں کی طرف دیکھ رہی ہیں۔کون ہو گا جو ان نو دولتیوں کے خلاف عدالت میں گواہی دے گا اور اپنے لیئے زندگی کے خطرات کو دعوت دے گا۔


پاکستان آج کرپشن کی سرزمین بن چکا ہے۔وہ جو مشہور قول ہے کہ الناس علی دین ملوکہم ، کہ لوگ بادشاہوں کے طریقوں کو اپناتے ہیں یہ جمہوریت کے علمبر دار سوائے کرپشن کو قریہ قریہ ،کوچہ کوچہ، شہر شہر ،نگر نگر فروغ دینے کے علاوہ کیا کر رہے ہیں۔سرے محل سے لے کر پانامہ لیکس میں کتنے جمہوریت پسندوں کے چہرے جگمگا رہے ہیں۔ان حکمرانوں کو شاہ ایران،کرنل قذافی ،صدر صدام ، حسنی مبارک اور فراعنہ مصر کا انجام نظر نہیں آتا۔

کون ہمیشہ رہا ہے اور کس نے ہمیشہ رہنا ہے۔یہ تو اللہ تعالی کی ذات ہے جو قائم و دائم اور حیی القیوم ہے۔اللہ کرے اب بھی ہمارے حکمران معاشی دہشت گردی سے باز آکر انسانیت کی فلاح کے کاموں کو ترجیح دیں۔بے روزگار،بیمار ،تہی دست ،تہی دامن انسانوں کو روزی کا ذریعہ بہم پہنچائیں۔تعلیم کو عام کریں۔نسل نو کوزیور علم سے آراستہ کریں۔معاشرے میں اسلامی اقدار کو فروغ دیں۔باہمی اخوت و ہمدردی ،انصاف ، تحفظ ، ترقی اور میرٹ کی پالیسی اپنایئں۔اللہ ہم پر اپنی رحمت برسائے گا۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistani Muashre Main Curruption Ka Bharta Hua NasooR is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 December 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.