پاکستان کا بھارت کیخلاف کمزور موقف

جون 2015 ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش دو روزہ دورے کے دوران ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان سے متعلق دیئے گئے بیان نے پاکستان میں ہلچل مچا دی تھی۔ وزارت خارجہ میں تو جیسے بھونچال آ گیا تھا۔ وزیر خارجہ یعنی وزیراعظم پاکستان ان دنوں تاجکستان گئے ہوئے تھے۔ وزارت خارجہ میں سارا دن کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کس طرح کا بیان جاری کیا جائے

جمعہ 29 جولائی 2016

Pakistan Ka Baharat K Khilaf Kamzor Muaqaf
خالد بیگ
جون 2015 ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش دو روزہ دورے کے دوران ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان سے متعلق دیئے گئے بیان نے پاکستان میں ہلچل مچا دی تھی۔ وزارت خارجہ میں تو جیسے بھونچال آ گیا تھا۔ وزیر خارجہ یعنی وزیراعظم پاکستان ان دنوں تاجکستان گئے ہوئے تھے۔ وزارت خارجہ میں سارا دن کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کس طرح کا بیان جاری کیا جائے۔

صحافیوں نے اس حوالے سے جب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور سرتاج عزیز سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ اس مسئلے پر ذاتی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میڈیا والے جامع سرکاری ردعمل کیلئے تھوڑا انتظار کریں شاید وزارت خارجہ کے بابوں کو وزیراعظم کی طرف سے ہدایت یا جواب کا انتظار تھا اور سرتاج عزیز منجھے ہوئے انتہائی تجربہ کار پاکستانی سیاستدان ہونے کے باوجود بھارت کیخلاف ذاتی رائے دینے کو تیار نہیں تھے۔

(جاری ہے)


بھارتی وزیراعظم نے جو کچھ ڈھاکہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں کھڑے ہو کر کہا وہ سب ایک کھلا سچ ہونے کے باوجود غیر معمولی تھا کہ بھارتی وزیراعظم پہلی بار باضابطہ طور پر نہ صرف 1971 ء میں بھارتی فوج کی جارحانہ مداخلت کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرنے کا نہ صرف اظہار کر رہا تھا بلکہ بھارتی جرم کا کھلے عام اقرار بھی کر رہا تھا۔اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کو توڑ کر پاکستان کے اس حصے کو بنگلہ دیش بنانا ہر بھارتی کی خواہش تھی۔

بھارتی فوج نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف جنگ لڑی اور بنگلہ دیش کے دیرینہ خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مودی نے تقریر کے دوران قریب ہی موجود بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی طرف دیکھتے ہوئے ستائشی انداز میں اپنی ذات سے متعلق بتایا کہ وہ 1971 ء میں مکتی باہنی کی حمایت میں سیتہ گرد تحریک میں بطور نوجوان رضاکار شرکت کیلئے خصوصی طور پر نئی دہلی پہنچے تھے۔

یہ سن کر حسینہ واجد سمیت تقریب میں موجود تمام شرکا کھڑے ہو کر تادیر تالیاں بجاتے رہے۔
ویسے تو پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے بھارتی کردار سے متعلق سوائے بھارت نواز لبرل طبقات کے کسی کو شک نہیں تھا لیکن پاکستان کا یہ طبقہ بھارت پر حقائق پر مبنی الزام کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کا ایک ہی رٹا رٹایا موٴقف تھا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے مظالم کی وجہ سے الگ ہوا تاہم اب بھارت کا اقرار سامنے آنے کے بعد دو باتیں ضروری ہو گئی تھیں کہ ایک تو پاکستان کو دو لخت کرنے کے جرم کا بھارت کی طرف سے اقرار سامنے آنے کے بعد پاکستان اس مسئلے کو ازسرنو عالمی سطح پر اٹھائے‘ دنیا کو بتائے کہ بھارت پاکستان کو مزید توڑنے کیلئے اپنی سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔


علاوہ ازیں بھارت سے وزیراعظم مودی کے پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو ”بے کار“ قرار دیئے جانے پر وضاحت طلب کی جاتی۔ بہرحال دوسرے روز دفتر خارجہ کی طرف سے رات کو ایک بیان جاری ہوا جس میں عالمی برادری کو مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے اعتراف کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی۔ دوسرے روز قومی اسمبلی و سینیٹ میں متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں جن میں بھارتی وزیراعظم کے مشرقی پاکستان کے حوالے سے بیان کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا گیا۔


تاجکستان میں وزیراعظم نوازشریف نے نریندر مودی کے بیان کو مایوس کن قرار دیا ان کی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون سے ہونیوالی ملاقات سے متعلق وہاں موجود صحافیوں نے سوال کیا تو وزیراعظم کے نمائندہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب کی ضرورت کے علاوہ دیگر بہت سے امور پر بات کی۔
پاکستان میں نریندر مودی کے بیان پر عوام کے بڑھتے ہوئے ردعمل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ حکومت نریندر مودی کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

علاوہ ازیں بھارت کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا جائیگا ۔ اسکے بعد کیا پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارت کیخلاف اقوام متحدہ میں درخواست جمع کرائی یا 1971 ء میں بھارتی جارحیت کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ؟ تا حال پاکستانی عوام اس سے بے خبر ہیں ہاں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد سے پاکستان کو 1971 ء میں دو لخت کرنے کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کی پاداش میں ایوارڈ وصول کرنے والا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چند ماہ بعد رائے ونڈ (لاہور) میں وزیراعظم پاکستان کے خصوصی مہمان کے طور پر موجود تھا۔

اس سے کہیں بڑھ کر مودی کے مشیر خاص اجیت کمار دودل کی ساتھ ہی آمد اور و زیراعظم کے گھر میں موجودگی حیران کن تھی۔مودی اگر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا اعزاز رکھتا ہے تو گودھرا ریلوے سٹیشن پر ہندو یاتریوں سے بھری بوگی میں بھڑکنے والی آگ سے لیکر گجرات میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا ”سکرپٹ رائٹر“ یہی دودل ہے۔


پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے دہشت گردی ہو یا صوبہ بلوچستان میں تخریب کاری اس میں کہیں نہ کہیں اجیت کمار دودل کا نام ضرور آتا ہے۔اور اب مقبوضہ کشمیر میں انتہا کو پہنچی بھارتی بربریت پر عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزز نے ایک بار پھر بھارت کیخلاف اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی سینیٹ کے ممبران کو بتایا گیا ہے کہ بھارت کیخلاف پاکستان کی وزارت خارجہ مختلف ممالک کو خطوط ارسال کر چکی ہے تاکہ وہ بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد روکنے کیلئے دباوٴ ڈالیں۔


آج کے دور میں جب پوری دنیا دکھائی دینے والے کشمیری عوام کے احتجاج‘ احتجاج کرنیوالوں پر بھارتی فوج کی فائرنگ اور اسکے نتیجے میں ہونیوالی شہادتوں کا خود نظارہ کررہی ہے تو اس کیلئے خطوط کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر وفود تشکیل دیں جو ذاتی طور پر مختلف ممالک میں جا کر وہاں کی حکومتوں اور میڈیا سے رابطہ کریں۔

بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانیوالے مظالم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے متعلق سب کو آگاہ کریں۔ باشعور مغربی عوام کو احساس دلائیں کہ کشمیری جو گزشتہ سات دہائیوں سے آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں وہ دہشت گرد کس طرح ہو گئے۔ بھارتی فوج اگر کم عمر بچوں پر پتھر برسانے کے بدلے ان پر گولیاں چلائے گی پرندوں ‘ جانوروں کے شکار کیلئے استعمال کئے جانیوالے کارتوس بچوں کیخلاف استعمال کر کے انہیں زند گی بھر کیلئے اندھا کریگی۔

کشمیریوں کی بہو بیٹیوں کی عصمتوں کو پامال کریگی تو کیا اس کے جواب میں کشمیری بھارتی فوجیوں کے گلے میں ہار ڈالیں گے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے بھارتی قیادتوں سے ذاتی مراسم بھارت کیخلاف پاکستان کی طرف سے موٴثر ردعمل کی راہ میں بھاری پتھر بنے ہوئے ہیں۔یہ مسئلہ صرف موجودہ پاکستانی قیادت ہی کو درپیش نہیں۔ گزشتہ حکمران بھی بھارت سے دوستی کیلئے ہمیشہ ریشہ خطمی رہے۔

آصف علی زرداری نے حلف اٹھاتے ہی پہلا خط بھارت میں کانگرس جماعت کی سربراہ سونیا گاندھی کو لکھا جس میں اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنے پر اس کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ تو عوام کا دباوٴ ہے کہ ہمارے سابقہ و موجودہ حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دلوانے میں ناکام رہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ ایک برس پہلے تک بھارت کو واہگہ کے راستے افغانستان تک رسائی دینے کیلئے ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اور اب جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی چاہنے والوں کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہو چکا تو یہی وقت ہے بھارت پر دباوٴ بڑھا کر اسے کشمیریوں کو حق رائے دہی کیلئے مجبور کیا جا سکے لیکن اس کیلئے ہمارے حکمرانوں کو بھارتی قیادت سے تعلقات کی قربانی دینا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Ka Baharat K Khilaf Kamzor Muaqaf is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 July 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.