پاک روس تعلقات، نیا دور شروع ہورہا ہے

دونوں ممالک نے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کیا۔۔۔۔ افغان جنگ میں پاکستان روس تعلقات خاصے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ اب جبکہ اس میں بہتری آرہی ہے تو اسے مزید آگے بڑھانا ہوگا

پیر 12 جنوری 2015

Pak Russia Taluqat
بلال اے شیخ:
روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتری اور تبدیلی سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بہت مثبت انداز میں لی جارہی ہے۔ سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں اور عمومی طور پر تناؤ کی فضا قائم رہی ہے۔ افغان جنگ میں پاکستان روس تعلقات خاصے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ اب جبکہ اس میں بہتری آرہی ہے تو اسے مزید آگے بڑھانا ہوگا۔


روس کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات یکم مئی 1948ء سے قائم ہیں۔ سوویت یونین نے لیاقات علی خان کو خوش آمدید کا پیغام بھجوایا ۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں تھا جب امریکہ اور روس کی سرد جنگ اپنے عروج کی طرف جارہی تھی۔
جوزف سٹالن کے اس دور میں قائداعظم کو نئی مملکت کے وجود میں آنے کے بعد کوئی مبارکباد نہیں بھیجی گئی بلکہ برطانیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے بنگال اور پنجاب کے حصے کر کے غلط فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ سوویت یونین نے پاکستانی وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دی۔ حقیقت یہ تھی 1947ء کی پاک بھارت جنگ میں روس نے تکنیکی لحاظ سے بھارت کو فائدہ دیا۔
سوویت یونین کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ تھا۔ اسی لئے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے باوجود سوویت یونین نے بھارت کے رد عمل کا انتظار کیا۔ بھارت نے جب دولت مشترکہ میں رہنے کا فیصلہ کیا اور جواہر لال نہرو نے مئی 1949ء میں امریکہ کے دورے کا اعلان کی ا تو سوویت یونین نے پاکستانی وزیراعظم کو اپنے ملک انے کی دعوت دی لیکن دورے کی تاریخوں کا اعلان نہ کیا۔

اسی وجہ سے لیاقت علی خان امریکہ روانہ ہوگئے کیونکہ اس وقت پاکستان کو معاشی، فوجی اور تربیتی امداد کی ضرورت تھی۔ اس نے پاکستان اور روس کے تعلقات کشیدہ کردئیے۔
روس پاکستان کا امریکہ کی طرف جھکاؤ سے نالاں تھا۔ افانستان میں روسی بہت مضبوط ہوچکے تھے جبکہ ایران کا جھکاؤ بھی تیزی سے امریکہ کی طرف ہوگیا تھا کیونکہ رضا شاہ پہلوی یورپ اور امریکہ کے حلیف تھے۔

حسین شہید سہروردی جنہوں نے راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان کا مقدمہ لڑانے اقتدار میں آتے ہی جنرل اکبر سمیت تمام افراد کو بری الذمہ قرار دے دیا اور رس کے ساتھ تعلقات میں سرگرمی آگئی۔ کراچی میں روسی فلموں کی نمائش، روسی ثقافتی وفد کی پاکستان آمد، پاکستانی وفد کی روس روانگی، صنعتی اور زرعی تواون کا آغاز یہ سبھی معاملات تھے جنہوں نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو بہتر بنایا۔

روسی وزیعاعظم نے پاکستان کیلئے ہرطرح کے تعاون کا اعلان کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی بھی پیش کی۔ پاکستان کی پہلی سٹیل مل کا معاہدہ طے پایا۔ 1958ء میں روسی تعاون سے پاکستان میں تیل کی تلاش بھی شروع کی گئی۔ سہروردی امریکہ سے بھی قریبی تعلقات کے خواہاں تھے، اس لئے پشاور میں امریکہ کو اڈوں کی پیشکش کی۔ سکندر مرزا کے بعد ایوب خان نے امریکہ سے تعلقات میں بہت تیزی دکھائی لیکن اس مرتبہ بھی روس کو نظر انداز نہ کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو روس بھیجا گیا۔


1959ء میں روس کے ساتھ تعلقات بہت کشیدہ ہوگئے تھے۔ پاکستان نے امریکہ کو جو اڈے فراہم کئے تھے وہاں سے U-2جاسوسی طیاروں کی پرواز کی اجازت دی گئی۔ لیکن یہ پاکستان کے فضائی حدود کے اندر اجازت تھی تاکہ دیگر ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔ امریکی U-2جاسوسی طیارے نے روسی علاقہ کی خلاف ورزی کی اور روسی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نے اس کو مار گرایا اور اس طیارہ کا پائلٹ کیپٹن فرانسس کرے پاورز گرفتار کرلیاگیا۔

سوویت یونین نے پاکستان سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور پاکستان کے اندر ان اڈوں پر حملہ کی دھمکی بھی دی۔ روس نے فوری طور پربھارت سے تعلقات بہتر کردئیے اور اس کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے علاوہ اسلحہ کی وسیع کھیپ فراہم کی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں روس نے بھارت کی کھل کر مدد کی۔ 1971ء میں بھی روس نے بھارت کا بھرپور ساتھ دیا۔ مشرقی پاکستان میں روس کے حامی بہت تھے۔

مشرقی پاکستان میں روس کے حامی بہت تھے۔ مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی نے امریکی مخالفت اور جمہوری نظام کی کبھی حمایت نہ کی تھی۔ پاکستان نے جب 1954ء میں امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا تو مشرقی پاکاستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ بھارت نے روس کے ساتھ مل کر ساری صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے خلاف کام کیا اور ایک بار پھر امریکہ اور یورپ جس کیلئے یہ سارا کچھ کیا گیا تھا وہ کہیں نظر نہ آئے۔

2012ء میں پاکستان میں روس کے سفیر نے مشرقی پاکستان کے واقعہ کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ قرار دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے روس سے تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا۔ پاکستان نے سیٹو اور سنٹو سے نکلنے کا اعلان کیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی کم ہوگئے جس کے باعث سوویت یونین نے بھٹو حکومت کوبڑی اہمیت دی۔ بھٹو پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جو روس کے دورے پر گئے۔

ان کا دورہ بہت کامیاب ہوا۔ روس نے کئی شعبوں میں تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔ سٹیل مل جو کئی سال سے تکمیل کیلئے اجازت کی طلبگار تھی۔ اس پر فوری عمل درآمد ہوگیا۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس وقت تعططل کا طلبگار ہے جب جنرل ضیاء حکومت کے تحت بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ روسی حکومت نے جنرل ضیاء کو اس سلسلے میں اپنی شدید ناراضگی سے آگاہ کیا اور بھٹو کی رہائی کیلئے بھیدباؤ ڈالا۔

جنرل ضیاء الح نے تمام روسی احتجاج کو مسترد کردیا اور پاک روس تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے۔
سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو یہ صورتحال بھی پاکستان کیلئے خطرناک تھی کیونکہ سوویت یونین کئی دوست ممالک پر قابض ہو چکا تھا اور اگلی بار پاکستان کی بھی ہوسکتی تھی۔ سوویت یونین نے پاکستان کے خلاف سخت پالیسی شروع کردی اور برارہ راست دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

پاکستان اس وقت افغانیون کو پناہ دے رہا تھا جو روسیوں کو قابل قول نہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے روسی صدر برزنیف کی وفات پر روس جانے کا فیصلہ کیااور روسی صدر آندری گروموکوف اور سیکرٹری جنرل یوری آندراپوف سے ملاقت کیاگرچہ روسی قیادت نے ناراضگی کے باوجود جنرل ضیاء کی بات توجہ سے سنی لیکن روسیوں کو افغانستان میں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی مداخلت قابل قبول نہ تھی۔


بینظیر دور میں افغانستان پر جلال آباد شہر میں ملٹری آپریشن کیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اس آپریشن کی اجازت دی تھی جسے جنرل حمید گل نے ترتیب دیا تھا اس آپریشن میں ناکامی کے باعث جنرل حمید گل کو ان کے عہدہ سے ہٹایا گیا اور روس کے ساتھ تعلقات پھر سے کشیدہ ہوئے۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کے آخری دنوں میں روس نے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے ایٹمی پلانٹ کی آفر کی جسے نواز شریف کی نئی حکومت نے خریدنے سے انکار کردیا۔

بینظیر بھٹو کے اگلے دور میں پھر سے تعلقات بہتر بنانے کا آغاز ہوا لیکن طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر روس پھر سے پیچھے ہٹ گیا۔ 1996ء میں روس نے پاکستان کو سیٹلائٹ بدر (بی) خلا میں چھوڑنے کیلئے لانچنگ پیڈ Baikonurکی آفر کی۔
1997ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اسے روسی تعاون حاصل تھا لیکن بعد ازاں پاکستان ایٹمی دھماکوں پر بھارتی دباؤ کے باوجود خاموشی اختیار کی۔

1999ء میں کارگل جنگ میں بھارت کا ساتھ دینے اور پاکستان کی مذمت پر ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوگئے حالانکہ وزیراعظم نواز شریف کا 1998ء میں دورہ روس میں تعلقات بہتر ہوئے تھے۔
پاکستان اور روس کے تعلقات میں اتار چھڑاؤ بہت زیادہ دیکھا گیا ہے لیکن دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو نظر انداز کبھی نہ کیا۔ 11ستمبر 2001ء میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملہ اور پاکستان کا عالمی برادری کے ساتھ تعاون، روس کو پھر پاکستان کے قریب لے آیا مشرف دور میں روس سے تعلقات بہتر ہوئے۔

2007ء میں روسی ازیراعظم پاکستان آئے، یہ کسی بھی روسی وزیراعظم کا 38سال بعد پاکستان کا دورہ تھا۔ اگرچہ 2010ء میں روسی وزیراعظم پیوٹن نے پاکستان سے سٹریٹیجک تعلقات بنانے سے انکار کردیا لیکن 2011ء میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور شنگھائی تعاون کی تنظیم میں پاکستان کی حمایت اور انتہائی اہم مسلم اور اہم ایشیائی ملک قرار دیا۔ روس نے پاکستان کے اندر نیٹو طیاروں کے حملوں کی مذمت بھی کی لیکن 2012ء میں پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے ایک بار پھر تھوڑی تبدیلی کا اظہار کیا لیکن جلد ہی پاکستان کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کا دورہ کیا جو کامیاب رہا۔

اس کے فوری بعد روسی کرنل جرنیل نے پرکاستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون پر زور دیا گیا۔
پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعاون کا تاریخی معاہدہ 2014ء کی ایک بڑی خبر تو ہے ہی لیکن مستقبل میں بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ جنرل سرجی سوئے روس کے پہلے وزیر دفاع ہیں جو پاکستان کے دورے پر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ روس نے پاکستان پر عائد ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی اٹھالی ہے اور روس پاکستان کو مل جی 35ای ہیلی کاپٹر بھی فراہم کرنے کو تیار ہوگیا ہے۔

ایسے 20ہیلی کاپٹرز کی فراہمی ی توقع ہے۔ بھارت نے ان معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ بھارت اس وقت روس سے اپنے کل اسلحہ کا 75فیصد خرید رہا ہے جو کسی وقت میں 90سے 95فیصد تھا۔ روسی اسلحہ کی جبکہ اب امریکی، اسرائیلی اور یورپی ہتھیار لے رہے ہیں۔ روس اس نئی مارکیٹ کو اب نظر انداز نہیں کرسکتا کیونکہ مستقبل میں بھارت کی روس سے اسلحہ کی خریداری صرف 50فیصد رہ جائے گی۔
مل جی 35ای ہیلی کاپٹر کی فراہمی سے روس کا پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلق تیزی کی راہ پر چل نکلے گا اور آئندہ آنے والے سالوں میں روس کے ساتھ تعاون مضبوط ہوگا جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Russia Taluqat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 January 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.