نبیہہ چودھری کی موت

قتل‘ اتفاقی حادثہ یا خود کشی ؟ مقتولہ کے والد پروفیسر سلیم کو بھی چند سال قبل قتل کر دیا گیا محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ نبیہہ چوہدری کی ہلاکت پر اب پردہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ اس کی والدہ خاوند کی ناگہانی موت کو نہیں بھول پائی تھیں

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Nabiha Chaudhry Ki Moot
شہزاد چغتائی:
پر اسرار طور پر جاں بحق ہونے والی سی ایس پی افسر نبیہہ چوہدری کو کراچی کے کنٹری کلب قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ ان کی موت بدستور معمہ بنی ہوئی ہے۔نبیہہ چوہدری کا تعلق ایک بدنصیب خاندان سے تھا‘ جس کے سربراہ اور نبیہہ کے والد سلیم چوہدری کی چند سال قبل قتل کر دیا گیا تھا۔سلیم چوہدری پروفیسر تھے اورداوٴد انجینئرنگ کالج کے پرنسپل تھے۔

کراچی پولیس ان کے قتل کی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی کہ اب نبیہہ چوہدری کی ہلاکت پولیس کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ نبیہہ چوہدری کی ہلاکت پر اب پردہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ اس کی والدہ خاوند کی ناگہانی موت کو نہیں بھول پائی تھیں کہ نبیہہ چوہدری کے پراسرار موت نے ان کو نڈھال کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

11 سال قبل جب اس کے والد کو قتل کیا گیا تھا نبیہہ بہت چھوٹی تھی’جب اخبار والے بیگم سلیم چوہدری سے ملنے گلشن اقبال میں ان کے گھر جاتے تو دونو ں بہنیں بھی آکر بیٹھ جاتی تھیں، ان کی خالی آنکھوں میں کئی سال ہوتے تھے۔

جیسے ہو پوچھ رہی ہوں کہ ہمارا کیا قصور ہے؟ اور ظالم نے ہمارے باپ کو کیوں مار دیا۔ والد کی موت کے بعد نبیہہ نے اپنا کیرئیر بنانے کے لئے بہت محنت کی وہ اپنی والدہ سے بہت محبت کرتی تھی اور ان کا خیال بھی رکھتی تھی وہ والدہ کی آنکھوں کا تارا تھی۔ سی ایس پی افسر بننے کے لئے اس نے دن رات ایک کیا۔ جانفشانی سے منزل پالینے کا یہ عمل ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ خودکشی نہیں کرسکتی کیونکہ منزل پرپہنچ کر کوئی موت کو گلے نہیں لگاتا۔

المیہ یہ ہے کہ اس کا جنازہ اس گھر سے اٹھایا گیا جہاں ا کے والد کا اٹھایا گیا تھا۔ نبیہہ کے رشتہ داروں ’ سہیلیوں اور اہل ومحلہ کو یقین ہے کہ اس کو قتل کیا گیا ہے‘جس کی بازکشت اس کی تدفین کے موقع پر سنائی دی۔ یہ چہ مگوئیاں پہلے دن سے شروع ہو گئی تھیں کہ نبیہہ کو منظر سے ہٹایا گیا ہے۔اس کے موبائل فون پر دھمکی آمیز پیغامات کی بھر مارتھی لیکن پولیس جان چھڑانے کے لئے سانحہ کو خودکشی کا رنگ دینے پر تلی ہوئی ہے۔

جس نمبر پر دھمکی آمیز پیغام ملے ہو نمبر کراچی کا ہے اور بند ہے۔ پولیس نے نبیہہ کی سہیلیوں کے بیانات قلم بند کئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ 5 روز سے ڈپریشن کا شکار تھی اور خاموشی اختیار کررکھی تھی اور اس نے ملنا جلنا بند کردیا تھا، شاید ہو دھمکی آمیز پیغامات ملنے پر اپ سیٹ تھی ۔ پولیس نے اس کے موبائل پر موجود تمام لووں سے رابطے کئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ پولیس معاملہ کو داخل دفتر کرنے پرکیوں تلی ہوئی ہے۔ کراچی میں یہ باتیں ہو رہی ہے کہ بعض بااثر اور طاقتور شخصیات کی خواہش ہے کہ تحقیقات کا با ب بند کردیا جائے۔ پولیس کی عدم دلچسپی کے بعد اہل خانہ کی نگاہیں اب انٹرنل انکوائری پر مرکوز ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ شہزاد رضا نے انٹرنل انکوائری کے لئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔

وہ بھی نبیہہ کی پر اسرار ہلاکت پر غمزدہ ہیں۔ کراچی میں نبیہہ کے گھر والوں نے پہلے دن سے ہی پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کر دیا تھا۔ جب مرحومہ کی والدہ لاہور پہنچیں تو پولیس نے جائے وقوعہ دکھانے کے لئے دو گھنٹے انتظار کرایا۔ پولیس افسران نے بہانے تراشے اور سردمہری کا مظاہرہ کیا جس پر نبیہہ کی والدہ اور ہمشیرہ سخت برہم ہو گئیں۔ نبیہہ کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وہ ایک نوجوان عمر سے محبت کرتی تھی لیکن اس کے گھر والے شادی پر تیار نہیں تھے جس پر وہ دل برداشتہ تھی اور پریشان رہتی تھی۔

اس نے بعض سہیلیوں کو اپنی پسند بتا دی تھی لیکن جہاں تک خودکشی کا تعلق ہے تو وہ خودکشی نہیں کر سکتی۔ اس کی سہیلیاں کہتی ہیں کہ وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی دوران ٹریننگ اس کا رویہ بہت مثبت تھا نبیہہ چوہدری کی ہمشیرہ جویریہ چوہدری کو یقین ہے کہ اس کی بہن کو قتل کیا گیا ہے وہ مذہبی رجحانات کی حامل تھی اور خود کشی نہیں کر سکتی۔ جویریہ چوہدری نے نبیہہ کی سہیلیوں کے دعویٰ کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ وہ کئی دن سے خاموش تھی۔

جویریہ کا موقف ہے کہ وقوعہ والے دن میری نبیہہ سے بات ہوئی تھی وہ بہت خوش وخرم تھی اور اس نے ہنسی مذاق بھی کیا جب ہم فون پر بات کر رہے تھے تو وہ کیک کھا رہی تھی جو شخص خودکشی کے لئے تیار بیٹھا ہو وہ کیک نہیں کھاتا۔ جویریہ کہتی ہے میری بہن ہیرا تھی وہ خوش اخلاق اور ملنسار تھیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق نبیہہ چوہدری کی ہلاکت کے کئی پہلو ہیں ان کے مطابق نبیہہ کی موت اچانک آگ لگنے سے بھی ہو سکتی ہے جبکہ قتل اور خودکشی کے امکانات ہیں۔

نبیہہ کا تعلق متوسط طبقے سے تھا‘ والد کے قتل کے بعد اس کی والدہ نے پالا تھا‘ جوکہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ بیٹی نے خود زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔نبیہہ چوہدری کی والدہ کی زندگی دکھوں سے عبارت ہے ‘ خاوند کے قتل کے بعد انہوں نے ان کی یادوں کے سہارے زندگی گزاری اور آنسو بہاتی رہیں اب نبیہہ کی موت نے ان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔


نبیہہ آڈٹ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں تربیت حاصل کر رہی تھی وہ ہاسٹل میں رہتی تھی کہ اچانک اس کے کمرہ میں آگ لگ گئی۔ جب آگ بجائی گئی وہ 90 فیصد جل گئی تھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق موت دھوئیں سے ہوئی ۔ ایک مشکوک پہلویہ ہے کہ پولیس نے جائے وقوعہ کو اوپن نہیں کیا اور میڈیا کو ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے باہر روک دیا گیا۔ اس کے بعد صرف پولیس کا موقف باہر آسکا۔

آڈٹ اینڈ اکاونٹس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ڈائریکٹر جنرل شہزاد رضا کے مطابق ان کا بتایا گیا کہ ہاسٹل میں آگ لگ گئی ہے اور ایک لڑکی جل گئی۔ اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ نبیہہ چوہدری مضبوط اعصاب کی مالک تھی اور خود کشی نہیں کر سکتی تھی جو لڑکیاں ہاسٹل میں موجود تھیں وہ بھی کہہ رہی تھیں کہ دال میں کالا ہے ان کی ساتھی کو مارا گیا ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ وقوعہ سے 15 منٹ پہلے نبیہہ چوہدری اپنی بہن سے لیپ ٹاپ پرخوشگوار موڈ من بات کر رہی تھی اور جویریہ اس کو طعنے دے رہی تھیں کہ سرکاری لاگ تو ہر وقت مال کھانے کے چکر میں رہتے ہیں نبیہہ کی ساتھیوں نے کہا کہ اس نے گزشتہ روز کلاس اٹینڈ کی تھی وہ بہت زیادہ مذہبی خیالات رکھتی تھی۔

پولیس نے تمام شہادتیں اکٹھا کر کے فرانزک لیبارٹری بھجوادیں پولیس اس پہلو پر تفتیش کر رہی ہے کہ کمرہ میں شارٹ سرکٹ ہو گیا ہو پولیس نے نبیہہ کی والدہ کی درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے مرحومہ کا لیپ ٹاپ ڈائری اور فون والدہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اس کی بدنصیب والدہ نے زندگی میں تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک بیٹی کی لاش وصول کرنے لاہور جانا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nabiha Chaudhry Ki Moot is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 October 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.