محافظ یا قاتل؟

”را“ اور طالبان نے پولیس میں اپنا نیٹ ورک قائم کرلیا! اب انکشاف ہوا ہے کہ عسکریت پسند ہی نہیں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ بھی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہے

Syed Badar Saeed سید بدر سعید ہفتہ 26 اپریل 2014

Muhafiz Ya Qatil
پولیس عوام کی محافظ ہے۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور دہشت گردوں کو گرفتار کرنا اسی کا فرض ہے لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ عسکریت پسند ہی نہیں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ بھی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہے۔ یہ نہ صرف پولیس میں بھرتی کے معیار اور سکروٹنی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ عوام ہی نہیں وی آئی پیز کی زندگیاں بھی داؤ پر لگ چکی ہیں۔

یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ کیا ملک کی اعلیٰ شخصیات را اور عسکریت پسندوں کے حصار میں سفر کررہی ہیں۔ کیا شہر کے داخلی راستوں پر بھی یہی لوگ کھڑے ہیں۔ ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور ایسے کالی بھیڑوں کا نیٹ ورک ختم کرنا چاہئے۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ایک ٹریفک وارڈن گرفتار ہوا تو انکشاف ہوا کہ شدت پسند سرکاری اہلکاروں خصوصاََ سیکیورٹی ادارون میں اپنی ”آنکھیں“ بھرتی کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

بظاہر ایک ٹریفک وارڈن کی گرفتاری اتنی بڑی خبر نہیں ہے۔ آض کل ٹریفک وارڈنز اور شہریوں کے درمیان جھگڑے معمول کی بات ہیں جس کی وجہ سے بعض وارڈنز کے خلاف بھی محکمانہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔ وارڈنز کی بدتمیزی اور دائرہ کار سے باہر نکلنے پر ان کیخلاف کارروائی ہوتی ہے۔ یہ معمول کی کارروائی ہے لیکن اس ٹریفک وارڈن کی صورتحال مختلف تھی۔
ٹریفک وارڈن اعظم کو لاہور پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

اس گرفتاری میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ سی آئی اے میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ایک انسپکٹر کو ٹریفک وارڈن اعظم کے بارے میں ایسی معلومات ملی تھیں جن کی بنیاد پر پولیس نے ڈرامائی انداز میں ڈیوٹی کے دوران ہی ٹریفک وارڈن کو گرفتار کرلیا۔ سی آئی اے پولیس نے اعظم کو گھر پر بھی چھاپا مارا جہاں سے اسلحہ برآمد ہوا۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ٹریفک وارڈن اعظم کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی سے ہے اور وہ ٹارگٹ کلنگ کی متعدد کارروائیوں میں بھی ملوث ہے۔

ان کی گرفتاری کے بعد سٹی ٹریفک پولیس کے حکام نے اپنی غفلت چھپانے کیلئے ٹریفک وارڈن کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع کردیں۔ سی آئی اے نے تحقیقات کا سلسلہ آگے بڑھایا تو وہ شدت پسندوں کا ساتھی نکلا۔ دوران تفتیش اس نے کئی انکشاف کئے۔ اس کی نشاندہی پر پولیس نے شہر کے مختلف مقامات سے مزید افراد کو بھی گرفتار کیا۔
رپورٹس کے مطابق ٹریفک وارڈن اعظم عسکریت پسندوں کیلئے ریکی کرتا تھا۔

ڈاکٹر سید علی حیدر اور ان کے بیٹے مرتضیٰ کی ٹارگٹ کلنگ سے قبل بھی ان کی ریکی کی تھی۔ وہ علامہ ناصر عباس ، شمالی چھاؤنی میں ایک پروفیسر کے ساتھ ساتھ معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید پر حملے کی بھی ریکی کرچکا ہے۔ اس نے دو سال قبل لشکر جھنگوی میں شمولیت اختیار کی ۔ اس کے کچھ دوستوں کا تعلق بھی اسی تنظیم سے تھا اور انہی کے توسط سے وہ بھی لشکر جھنگوی کا حصہ بن گیا۔

اسکی سرکاری ملازمت کومدنظر رکھتے ہوئے اسے اہم شخصیات کی ریکی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ٹریفک پولیس کی محکمانہ غفلت بھی سامنے آئی ہے۔ وارڈن اعظم دفتر میں ساز باز کر کے اس علاقے میں ڈیوٹی لگوالیتا تھا جہاں اسے ریکی کرنا ہوتی تھی۔ پھر کسی ساتھی وارڈن سے کام کا بہانہ کر کے ڈیوٹی چھوڑ کر ٹارگٹ کی ریکی کو چلا جاتا۔ سٹی ٹریفک پولیس کے افسران چونکہ چیکنگ کرنے کم ہی نکلتے ہیں اس لئے وہ کبھی پکڑا نہیں گیا۔

یہاں ٹریفک پویس کے افسروں کی قابلیت کا بھی پول کھل جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے انجام دے رہے ہوتے تو وارڈن اعظم کب کان نظروں میں آچکا ہوتا۔ ٹریفک وارڈنز کا عملے سے مل کر من پسند سینکڑوں میں ڈیوٹیاں لگوانا بھی بہت بڑا سیکیورٹی خلا ہے بلکہ محکمہ کی نااہلی کا بھی ثبوت ہے۔ ملزم نے دوران تفتیش یہ بھی بتایا کہ اس نے ساتھیوں کے ہمراہ مذہبی رہنما حیدر علی مرازا کی بھی ریکی کی تھی لیکن ان کے گاڑی اچانک نظروں سے اوجھل ہوگئی جس کی وجہ سے وہ بچ گئے۔

اس حوالے سے سی سی پی او لاہور چودھری شفیق احمد اور اس پی سی آئی اے عمر ورک نے مبینہ دہشت گرد وارڈن کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ وہ ریکی کر کے طالبان کے لاہور میں موجودہ نمائندوں کو معلومات فراہم کرتا تھا۔ اس نے ایک خوفناک انکشاف یہ بھی کیا کہ کئی پولیس اہلکاروں کے طالبان سے رابطے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ طالبان پولیس میں نقب لگا کر اپنا سیٹ اپ بنا چکے ہیں۔

طالبان سے رابطوں میں ہرنے والے اہلکاروں کے نام سامنے نہیں آئے، یہ ابھی تک خفیہ ہی ہیں۔ اگر واقعی طالبان پولیس سسٹم میں اپنا جال بچھا چکے ہیں تو شہریوں کے تحفظ اور محافظوں کے حوالے سے کئی سوال اٹھتے ہیں۔
پولیس میں بھرتیوں کے طریقہ کار کا جائزہ لیں تو اصول و قواتین دیکھ کر لگتا ہے جیسے مجرمانہ ذہن کے افراد سیکیورٹی اداروں میں بھرتی نہیں ہوسکتے۔

بھرتی سے قبل نہ صرف نفسیاتی ٹیسٹ ہوتا ہے بلکہ محکمہ پولیس کے ذریعے ہی چلا چلن کی بھی تصدیق کرائی جاتی ہے۔ مجرمانہ ریکارڈ کے حامل کو بھرتی نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں نفسیاتی ٹیسٹ سفارش اور رشوت سے پاس کرلیا جاتا ہے جبکہ علاقے کے تھانیدار کو بھی کھانے اور پیسے دے کر اچھے چال چلن کی رپورٹ لے لی جاتی ہے۔ یوں عسکریت پسند اپنے لوگوں کو بھرتی کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا ایک ثبوت ٹریفک وارڈن اعظم کی صورت ہمارے سامنے ہے۔

ایک رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کیلئے بھی ریکی کرتا تھا۔ ”را“ کے بارے میں حال ہی میں اعلیٰ سطحی رپورٹ سے یہ بھی معمول ہوا ہے کہ پاکستان میں پولیو مہم کو تباہ کرنے میں بھی اسی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ تھا۔ حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے دوران جب حکومت نے پولیس ورکرز پر حملوں کا معاملہ اٹھایا تو طالبان کا کہنا تھا کہ وہ پولیو مہم کیخلاف ہیں لیکن ان حملوں میں ملوث نہیں۔

اس پر خفیہ اداروں نے دیگر پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیقات کیں تو ”را“ کا نام سامنے آیا۔ رپورٹ کے مطابق ”را“ یہ کام پاکستان بھر میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کروارہی ہے۔ خصوصا کراچی میں ”را“ کو ایسے گروپوں اور تنظیموں کا تعاون حاصل ہے جنہوں نے ٹارگٹ کلرز کے باقاعدہ ونگ بنا رکھے ہیں۔ یہ ٹریفک وارڈن ”را“ کیلئے بھی ریکی کرتا رہا ہے۔

اگر مبینہ دہشت گرد ٹریفک وارڈن اعظم سے حاصل شدہ معلومات درست ہیں اور کئی پولیس اہلکار شدت پسندوں اور ”را“ کیلئے کام کررہے ہیں تو ان کا کسی بھی وقت اہم شخصیات تک پہنچنا ممکن ہے۔ محکمانہ ساز باز کر کے من پسند ڈیوٹیاں لگوانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کیلئے بھی اسی طرح ڈیوٹی لگوائی گئی تھی۔ یہ خفیہ ایجنٹ من پسند ڈیوٹیاں لگوا کر نہ صرف حملہ آوروں کو وی وی آئی پی روٹ سے آگاہ کرسکتے ہیں بلکہ خود بھی انہیں نشانہ بناسکتے ہیں۔

یہ شہر میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کو بھی تحفظ مہیا کررہے ہوں گے۔ پولیس میں ہونے کی وجہ سے اعلیٰ افسر اور بہادر اہلکار بھی ان کے نشانے پر ہوں گے۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ ”را“ اپنا دائرہ کار سیکیورٹی اداروں تک پھیلا چکی ہے تو عوام اور خواص دونوں ہی مکمل طور پر خطرے کے نشان پر کھڑے ہیں۔ اس وقت ٹریفک پولیس کا وارڈن اور اس کے ساتھی گرفت میں ہیں۔

اب سیکیورٹی اداروں کا امتحان شروع ہوچکا ہے ۔ اپنی ساکھ اور عوام کی جانیں بچانے کیلئے انہیں اسی کلیو پر کام کرتے ہوئے ”را“ کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا۔ یاد رہے پولیس میں جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی پر تو کئی اہلکاروں کو معطل اور فارغ کیا جا چکا ہے۔ لیکن طالبان کا کوئی ساتھی تاحال سامنے نہیں آسکا تھا۔ اسی طرح ”را“ کے مبینہ ایجنٹ کے طور پر بھی پہلی بار کوئی آواز آئی ہے جس نے سیکیورٹی اداروں میں تھرتھلی مچا دی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Muhafiz Ya Qatil is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 April 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.