موسمیاتی تبدیلی ۔۔ایک سنگین مسئلہ

پاکستان کے کار زار سیاست اور سرحدوں پر بپا ہونے والی گرما گرمی میں ہم موسمیاتی گرمی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ چند ماہ قبل فرانس کے شہر پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ کیا گیا ہے جس پر دنیا بھر کے 171 ممالک کے نمائندوں نے دستخط کیے ہیں۔ پاکستان بھی ان دستخط کنندہ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شدت سے سامنا کر رہے ہیں یا ان کی حالت نازک ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا معاہدہ ہے کیا؟ اس کی اہمیت کیا ہے

منگل 15 نومبر 2016

Mosmiyati Tabdeeli
پاکستان کے کار زار سیاست اور سرحدوں پر بپا ہونے والی گرما گرمی میں ہم موسمیاتی گرمی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ چند ماہ قبل فرانس کے شہر پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ کیا گیا ہے جس پر دنیا بھر کے 171 ممالک کے نمائندوں نے دستخط کیے ہیں۔ پاکستان بھی ان دستخط کنندہ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شدت سے سامنا کر رہے ہیں یا ان کی حالت نازک ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا معاہدہ ہے کیا؟ اس کی اہمیت کیا ہے اور پاکستان میں اس سلسلے میں کیا کیا جائے گا اور کیا کیا جاسکتا ہے اس بارے میں عام طور پر لوگوں کو زیادہ علم نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اتنا ہی علم ہے کہ پاکستان میں گرمی زیادہ پڑنے لگی ہے۔

(جاری ہے)

کچھ علاقوں میں برسات زیادہ ہوتی ہے اور کچھ علاقوں میں بالکل بارش نہیں ہوتی عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے ہی سیلاب آنے اور پہاڑوں پر موجودبرفانی تودے پگھل جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

پیرس سمٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے جن چار اہم نکات پر اتفاق کیا گیا ہے ان کے مطابق:
1۔ گرین ہاوٴس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جائے۔
2۔ 2050ء تک عالمی حدت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دیا جائے بلکہ اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کی کوشش کی جائے۔
3۔ ہر پانچ سال بعد اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے۔


4۔ 2020ء سے ترقی پذیر ممالک میں (گرین ٹیکنالوجیز کے فروغ کے لیے) 100 ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری اس عہد کے ساتھ کی جائے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔عالمی حدت اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے سندھ کے کچھ ساحلی علاقے پہلے ہی سمندر برد ہو چکے ہیں۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ضلع ٹھٹھہ ، بدین، کراچی، سجاول اور ان سے ملحقہ ساحلی علاقوں کو سطح سمندر میں اضافے سے خطرہ ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ آئندہ 25 برسوں میں ان علاقوں کی بہت سی زمین سمندر برد ہو جائے گی جبکہ بہت سی زرعی زمینیں سیم اور تھور کا شکار ہو جائیں گی۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ ضلع ٹھٹھہ کی 24 لاکھ ایکڑ زمین پہلے ہی سمندر برد ہو چکی ہے۔ کہا جا رہاہے کہ حکومت سندھ نے 220 کلومیٹر طویل کوسٹل ہائی وے اور ٹھٹھہ اور بدین کو بچانے کے لیے 225 کلومیٹر طویل دیوار بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تاہم آئندہ 50 برس میں جب سطح سمندر میں موجودہ سطح سے 5 سینٹی میٹر کا اضافہ اور موسم میں مزیدشدت پیدا ہو چکی ہوگی تو کیا یہ دیواریں سمندر کو آگے بڑھنے سے روک سکیں گی؟پاکستان نیوی کے اندازے کے مطابق سندھ کی 615 مربع کلومیٹر زمین سمندر برد ہونے کا خدشہ ہے۔

اتنے بڑے خطے کے سمندر برد ہو جانے کی وجہ سے سے بے زمین، بے روزگار اور بے آسرا لوگوں کی نئے علاقوں میں آباد کاری کا مسئلہ مستقبل کی حکومتوں کے سامنے سر اٹھائے گا، جس کی ابھی سے پیش بندی نہ کی گئی تو لاکھوں افراد اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کیمپوں میں جا بیٹھیں گے یا دوسرے شہروں میں نئی کچی آبادیاں بننا شروع ہو جائیں گی جس سے نئے سماجی، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی مسائل جنم لیں گے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں نے ہمیشہ سے تہذیبوں کے بننے اور مٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وادی مہران کی تہذیب ہڑپہ دور میں دریائے گھگر ہکڑہ کے سوکھ جانے کے بعد معدوم ہوتی چلی گئی۔ یہ وہی دریا ہے جسے ہندووٴں کی مقدس کتابوں میں دریائے سرسوتی کا نام دیا گیا ہے۔ آج اس دریا میں مون سون کی بارشوں کا پانی بہتا ہے جبکہ اس دریا کے کنارے آج بھی ہڑپہ تہذیب کے آثار مل جاتے ہیں ۔

دریائے گھگر ہکڑہ کے سوکھ جانے سے سرسبز علاقوں کی جگہ جو صحرا وجود میں آئے انہیں آج ہم تھر پارکر، چولستان اور راجستھان کے نام سے جانتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں اور خشک سالی کی وجہ سے پاکستان کو حالیہ برسوں میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والے ہر سیلاب کے نقصانات کا بھی اندازہ بھی اربوں روپے کا نقصان ہوتا رہا ہے۔

ایک طرف جہاں موسمیاتی تبدیلیوں سے بارشوں اور سیلابوں میں شدت آتی جا رہی ہے لیکن یہی سیلابی پانی پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سیلابی پانی کو جمع کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں بنانے کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارت نے اس سلسلے میں صوبوں پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ پانی کے ذخیرے بنانے کے لیے علاقوں کی نشاندہی کریں۔

اسی کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ ملک بھر میں پانی کے ذخائر سکڑتے جا رہے ہیں جو 2025 ء تک مزید سکڑ جائیں گے جبکہ صنعتی اور شہری ضروریات بڑھ جائیں گی جس کا اثر پاکستان کی زراعت پر پڑے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارت کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 365 ارب روپے سالانہ یعنی ایک ارب روپے یومیہ کا نقصان ہو رہا ہے۔

گرمی اور صحرا زدگی میں اضافے کے باوجود ملک میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک حالیہ اندازے کے مطابق ملک میں ہر سال 70 ہزار ایکٹر زمین سے جنگل کاٹ دیے جاتے ہیں یہ محض حکومت پاکستان کی بد نظمی اور ہر سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ دوسرا ملک بن گیا ہے جس میں جنگل تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں جس تیزی سے ترقیاتی کاموں کے نام پر بڑے بڑے درخت کاٹے گئے ہیں اس سے شہر کا نہ صرف نقشہ بدل گیا ہے بلکہ اتنی بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی کے نتیجے میں اسلام آباد کا موسم بھی تبدیل ہونے لگا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے پانچ فیصد حصے پر جنگلات ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق اس وقت پاکستان کے 2.1 فیصد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں جبکہ ہر ملک کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے جو دنیا بھر کی 6 فیصد سالانہ کاربن خارج کرتا ہے۔

اور کوہ ہمالیہ کی دوسری جانب چین ہے جو دنیا بھر میں کاربن گیس خارج والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ تاہم ہمارے موسم پر بھارت کی پھیلائی ہوئی آلودگی کا براہ راست اثر ہوتا ہے۔ بھارت کی خارج کی ہوئی کاربن اور سلفر کے نتیجے میں نیپال خاص طور پر بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے پہاڑوں پر سے قدیم گلیشیر غائب ہو چکے ہیں۔ پہاڑوں پر برف باری اور بارشوں میں کمی اور پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کا نتیجہ ہے کہ اس وقت خود بھارت قلت آب کا شکار ہے اور اب ایک بار پھر پاکستان پر آبی جارحیت کو بڑھانے اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔

فضائی آلودگی عالمی حدت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن ہمیں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے کوئی خاص منصوبے نظر نہیں آ رہے۔ کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ فضائی آلودگی پھیلانے والی صنعتوں پر کاربن ٹیکس عائد کیا جائے۔ پاکستان کی صنعت اتنی بڑی ہے کہ اس سے ہر سال اربوں ڈالر سالانہ کا کاربن ٹیکس جمع کیا جا سکتا ہے جس سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، نکاسی آب کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں، سڑکیں تعمیر کی جا سکتی ہیں اور اس رقم سے کلین انرجی کے پروجیکٹس شروع کیے جا سکتے ہیں۔

دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور مختلف ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جبکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ حکومتی کی ترجیحات میں طویل مدتی منصوبہ بندی شامل نہیں ہے جو پاکستان کے مستقبل کا تحفظ کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mosmiyati Tabdeeli is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.