موجودہ انتشار خطے کی آخری ”گریٹ گیم“ ثابت ہوگا؟

پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان” امن مذاکرات“ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہا ہے اس کا عکس اب بڑی حد تک واضح ہوتا جارہا ہے

منگل 4 مارچ 2014

Mojooda Inteshar Khitte Ki Aakhri Great Game Sabit Hoo Ga
محمد انیس الرحمن:
پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان” امن مذاکرات“ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہا ہے اس کا عکس اب بڑی حد تک واضح ہوتا جارہا ہے دونوں فریق ایک دوسرے سے پہلے جنگ بندی کے اعلان کے متقاضی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا نتائج سامنے آتے ہیں ووہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان ملک اور قوم کے حصے میںآ تا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے ہوں یا افغانستان میں افغان طالبان اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ یہ سب ماضی کی ”گریٹ گیم“ سے کہیں زیادہ ”گریٹ گیم“ ہے۔ ماضی میں بھی ”گریٹ گیم“ کا بڑا مرکز وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ہی تھا اور آج بھی یہی خطہ اسی صورتحال سے دوچار ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں اسے انتہائی محدود تناظر میں دیکھا جارہا ہے اور اسے محض ”انتہا پسندی“ کے کھاتے میں ڈال کر صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں تک محدود کر کے دکھایا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہوں یا افغانستان اور بحیرہ قزوین تک پھیلا ہوا وسطی ایشیائی خطہ ، یہاں جو کچھ بھی ہووہا ہے وہ ایک بڑے عالمی کھیل کا حصہ ہے۔

(جاری ہے)

نائن الوین کے بعد ایک عرب تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ ”افغانستان میں امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کی آمد صرف افغانستان میں طلبان اقتدار کے خاتمے کیلئے نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر ہاتھ صرف کرنا اور وسطی ایشائی ریاستوں میں موجود اسلامی جہادی گروپوں کو افغانستان کے میادان میں کھینچ کر لانے کیلئے ہے تاکہ ہوسطی ایشائی ریاستوں میں ا سلامی مزاحمتی قوت کو افغانستان میں مرکوز کر کے وہاں کے خطے میں توانائی کے ذخائر پر آسانی کے ساتھ ہاتھ صاف کئے جاسکیں“۔

حالات بتاتے ہیں کہ شام کا محاذ کھولنے کا بھی بنیادی مقصد یہ تھا کہ افغانستان سے عرب اسلامی مزاحمتی قوت کوشام اور یمن میں تقسیم کر کے حکومتی فورسز سے الجھادیا جائے اس سلسلے میں لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کیلئے جو ”لازم بندی“ کی گئی تھی اسے منصوبے کے تحت شام میں داخل ہونے دیا گیا اس کے بعد جب شامی حکومتی عسکری قوعت اور اسلامی مزاحمتی قوتیں آپس میں الجھ گئیں تو امریکہ اور برطانیہ نے ان پر سے ہاتھ اٹھا کر جینوا میں مذاکرات کی میز سجادی جس کا مطلب حالات کو جوں کا توں رکھنا تھا اور دوسری جانب عرب جہادیوں کا رخ چونکہ شام کے نئے محاذ کی وجہ سے افغانستان سے مشرق وسطیٰ کی جانب ہوچکا تھا اس لئے امریکہ اور نیٹو نے اسے اپنے لئے غنیمت جانا تاکہ وہ افغانستان میں مذاحمتی قوت کے عسکری دباؤ سے نکل سکے۔

دوسری جانب اگر شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن ہوتا ہے تو اس سے ملک میں ایک بڑے انتشار کا خطہ لاحق ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عسکری قوت بھی ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ پہلے ہی فوج کا بڑا حصہ مغربی سرحدوں پر موجود ہے، سوات میں تاحال فوج موجود ہے تو حالات کسی حد تک سنبھلے ہوئے ہیں لیکن آپریشن کے نتیجے میں اگر خدانخواستہ مزید انتشار پھیلا تو اس انتشار کو بہانہ بنا کر امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک شور مچائیں گے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار ”انتہاء پسندوں“ کے ہاتھ لگنے کے خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔

ایسی صورت میں ہم کتنی ہی وضاحتیں کیوں نہ پیش کریں لیکن عالمی صہیونی کارپوریٹڈ میڈیاسے خوب اچھالے گا جبکہ بھارت کو امریکہ اور اسرائیل نے پہلے ہی بڑی مہم جوئی کیلئے تیار کررکھا ہے۔ جبکہ دوسری جانب لیبرل سیاسی جماعتیں اور نام نہاد آزاد میڈیااور اسکے عقل سے پیدل ”دانشور“ جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ یہ وہی عناصر تھے جو لال مسجد کے معاملے میں جنرل مشرف کو اکساتے رہے اور بعد میں اسی جنرل کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔

ہمارے پالیسی ساز ادارں کو دور اندایشی سے کام لیتے ہوئے ان معاملات کو صرف پاکستان کے تناظر میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا ہوگا۔ کیونکہ یہ سارے حالات سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جان بوجھ کر پیدا کئے گئے ہیں ۔ نائل الیون کے بعد اس سارے صہیونی منصوبے پر عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا تھا ۔ افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کی جارحیت اور اس کے بعد عراق پر حملہ اس منصوبے کا پہلا حصہ تھے۔

اس کے بعد اس کا دوسرا بڑا آغاز ”عرب بہار“ کے نام سے مشرق وسطیٰ میں کیا گیا اور تیونس سے اٹھنے والی چنگاری کو تمام شمالی افریقہ اور شام اور یمن تک دراز کردیاگیا۔ دوسری جانب علامی صہیونی کمپنیاں امریکہ اور یورپ کا کور لیکر وسطیٰ ایشیا خصوصاََ بحریہ قزوین کی تیل اور دیگر معدنی دولت کی جانب پیش قدمی شروع کرتی ہیں ۔ نائن الوین کے بعد ہمیں اس تمام صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا اس کے بعد ہی آج کے حالات کو آسانی سے سمجھا جاسکے گا۔


مشرقی ازبکستان میں 2004ء کے دوران اٹھنے والی عوامی انقلاب کی لہر کو طاقت کے ذریعے دبا کر کئی سو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان زخمی کردئیے گئے تھے۔ اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک کے میڈیا نے اس انقلابی واقعے کی کوریج انتہائی محدود اور ”محتاط“ انداز میں کی جبکہ اس سلسلے میں مسلم ممالک کے میڈیا میں زیادہ تر رپورٹیں مغربی میڈیاسے براہ راست ترجمہ کر کے شائع کی گئیں۔

مسلم ممالک کے بعض صحافتی ذرائع ازبکستان میں ہونے والی انقلابی کاوشو ں کو حکومتی اور اسلامی تحریکوں کے درمیان جاری طویل کشمکش کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جبکہ اسی دوران ازبکستان میں اسرائیلی سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی مد نظر رکھا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں دبئی سے شائع ہونے والے جریدے الاتحاد نے سوال اٹھایا تھا کہ ”ازبکستان بلکہ تمام وسطی ایشیا میں اسرائیلی سرمایہ کاری کے حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ اور ان اثرات کے ازبکستان کے عوامی انقلاب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اسرائیل کس طرح بحریہ قزوین (کیسپین) کی سیال دولت تیل اور گیس سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے اس طرف آنے سے پہلے اس چیز کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ اسرائیل ازبکستان کی کاٹن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے صنعتی یونٹوں میں بری طرح اسرائیت کرچکاہے یعنی ازبکستان کی اقتصادیات کو صہیونیت کی دیمک نے چاٹنا شروع کردیا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جنہیں کسی مسلم محقق نے نہیں بلکہ مغرب کے تحقیقی مراکز نے مدون کیا ہے جو گزشتہ دس سال سے اس قسم کی معلومات افشاء کر کے خطرے کی گھنٹیا ں بجا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امت مسلمہ کے جسد میں اسرائیلی سرطان کس طرح پھیلتا جارہا ہے۔
مئی 2005ء میں ازبکستان میں جاری خونین کشمکش کے دو ہفتے بعد ہی ازبکستان کے دارالحکومت باکو میں زبردست قسم کی اقتصادی سرگرمیاں اس وقت یکھنے میں آئیں جب یہاں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، امریکہ کے زیر سایہ ہونے والی اس کانفرنس میں علاقے کے اہم ممالک جارجیا، ترکی، آذربائیجان اور ترکمانستان کے سربراہان شریک ہوئے تھے۔

اس کانفرنس کا اہم ایجنڈہ بحریہ قزوین کے تیل کو پائپ لائن کے ذریعے ترکی کے علاقے اسکند رونہ کی بندرگاہ ”جیہان“ تک پہنچانا تھا تاکہ اسی برس کے آخری حصے میں بحریہ قزوین سے تیل کی سپلائی ممکن بنائی جاسکے۔
بحریہ قزوین کے تیل کی سپلائی کے اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ تین بلین ڈالر تھا جبکہ باقی حصوں کی مجموعی تکمیل کیلئے 12بلین ڈالر تخمینہ تھا۔

اس منصوبے کے تحت 1760 کلو میٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے 2009ء تک ایک ملین بیرل تیل یومیہ سپلائی کیا جانا تھا۔ اس پائپ لائن کے بعض حصے جو سطح زمین سے 44میٹر بلند ہونے تھے جبکہ پائپ لائن کا بڑا حصہ زیر زمین یعنی ڈھکا ہوا ہوتا۔ اس پائپ لائن کے ذریعے صرف آذر بائیجان کا تیل ہی نہیں بلکہ قازقستان کا تیل بھی بحریرہ قزوین(کیسپین) کے مشرقی ساحل کی جانب سے سپلائی کیا جاتا لیکن سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ ترکی کی بندرگاہ جیہان سے یہ تیل براہ راست اسرائیل کی بندرگاہ تک پہنچانے کا منصوبہ تھا۔

۔۔!
اسلامی ملک آذربائیجان کی اقتصادیات کے حوالے سے اسرائیل کا نام آنا اس بات کی مکمل غمازی کرتا ہے کہ اس صہیونی ریاست نے اس مسلم ملک کے تیل اور گیس کے حصول کا سلسلہ اس وقت شروع کردیا تھا جب وہ ازبکستان سے کاٹن کی سپلائی کو یقینی بنا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی اس کی اقتصادی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس صورتحال کا اگر بغور عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو محصوس ہوگا کہ صہیونیوں کے نزدیک ”گریٹر اسرائیل“ کا وہ نظریہ جو اسے نیل سے فرات تک وسعت دینے کا خواب تھا اب عالمی افق پر ناکافی تصور کیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اب وسطی ایشیا کی ثروت تک پیر پھیلانا چاہتا ہے اس کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں ماوراء النہر کے اس پار جسے آج وسطی ایشیا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسلامی ثقافت کے گہوارے تک جا پہنچی ہیں۔ اسرائیل کی ان استعماری فیصلوں کی وسعت ”مشترکہ سرمایہ کاری“ کے نام پروسطی ایشیا کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتی ہے۔
وسطی ایشیا تک اسرائیل کی اس اقتصادی پیش قدمی میں سب سے بڑی معاونت امریکہ اور ترکی کی سابقہ حکومتوں کی جانب سے میسر تھی۔

جبکہ سابقہ سوویت یونین کے زمانے میں پران چڑھنے والے مقامی حکمران جواب اقتصادی سطح پر علاقے میں عالمی صہیونتی کے آلہ کار بن چکے ہیں انہوں نے اسرائیلی وجود کو علاقے میں سب سے زیادہ خوش آمدید کہا۔ وسطی ایشیا کے مغرب نواز ایجنٹ حکمران یہ سب کچھ اپنے مسلمان عوام کے مذاج کے برخلاف کررہے ہیں ایسا کر کے وہ اپنے برپا کردہ کرپشن کے طوفان کے الزامات سے بری رہتے ہیں کیونکہ مالی اور سیاسی کرپشن میں گھرے ہوئے لیڈر ہی سب سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کیلئے مفید تصورکئے جاتے ہیں۔


آذربائیجان، جارجیا اور پھر ترکی کی بندرگاہ جیہان تک تیل کی پائپ لائن کا پہنچنا ایک د شور گزار مرحلہ تھا اسی لئے یہ معاملہ ماضی قریب میں کھٹائی میں پڑا رہا مگر عالمی قوتیں جنہوں نے دہشت گردی کے نام پر دنیا کے سوائل پر قبضے کا حتمی فیصلہ کررکھا ہے کسی طور بھی اس منصوبہ سے دست کش ہونے کیلئے تیار نہیں ۔ دشواری اس لئے ہے کہ اس پائپ لائن کو بہت سے دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے گزرنا ہے، اس کے علاوہ اس پائپ لائن کی حفاظت اور تیل کے رسنے کے امکانات کو روکنے کیلئے بھی انتظامات کئے جانے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی۔

اس سلسلے میں وسطی ایشیا کے تین ممالک میں آٹھ ایسے مراکز قائم کئے گئے جو ان پائپ لائنوں سے پٹرول رسنے کے امکانات کو کم کرسکیں۔ اس لئے اگر یہ پائپ لائن روس یا ایران کے راستے سے گزرتی تو اس پر لاگت انتہائی کم آنا تھیں مگر اب اس کے راستے کے ہر کلو میٹر پر کئی گنا زیادہ لاگت آئی ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی ترکی کے علاقے جس میں کردستان بھی آتا ہے اس پائپ لائن کو زبردست خطرات لاحق ہوں گے کیونکہ یہاں پر علیحدگی پسند کرد تحریکیں کافی سرگرم عمل ہیں امریکہ اور اسرائیل کا وسطی ایشیا میں قزوین کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کا خواب افغانستان اور عراق میں زبردست ناکامی کے سبب تحلیل ہوتا محسوس ہونے لگا کیونکہ افگانستان میں طالبان نے اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے تو دوسری جانب عراق میں اسلامی مزاحمتی تحریک وسطی عراق کے ساتھ ساتھ اب شمالی عراق اور کردستان میں اپنے پیر مضبوطی سے جمائے جارہی ہے۔


بحریہ قزوین (کیسپین) کے تیل کے پائپ لائنوں سے رسنے کے امکان کے حوالے سے منصوبے پر گزشتہ دس برسوں سے کام کیا جارہا تھا اس کے علاوہ متبادل پائپ لائنوں کے حوالے سے بھی بہت سی تجاویز زیر گور تھیں کیونکہ اس پائپ لائن کا ایک سربا کو میں اور آخری سراتر کی کی بندگاہ جیہان میں ہے۔ عرب صحافتی ذرائع کے مطابق امریکہ اورترکی میں قزوین (کیسپین) کے تیل کی سپلائی کے منصوبے اس وقت ہی زیر غور آگئے تھے جب ابھی ان ریاستوں کو سوویت یونین سے آزادی نصیب نہیں ہوئی تھی، اس وقت سے چار ملکی واشنگٹن، انقرہ، باکو اور تل ابیب کی کوششیں اس علاقے تک پہنچنے کیلئے شروع چکی تھی۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو اس چار ملکی اتحاد میں بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہوگئی جو قفقاز اور مشرق قریب میں تیزی کے ساتھ پیر جمارہا تھا، اس سارے عمل میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ روس اور ایران کے درمیان سیاسی اور جغرافیائی اتحاد تھا اس کے ساتھ ساتھ آرمینیا، شام اور لبنان کی مزاحمتی تحریک بھی اس معاملے میں کسی سے کم خطرناک نہیں تھے، اسی دور میں نیٹو اور امریکہ نے بحریہ قزوین (کیسپین) کے دھانے پر واقع ممالک جن میں آذربائیجان اور جارجیا شامل تھے میں فوجی اڈے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا یہ اڈے ترکی سے یہاں منتقل کئے جارہے تھے۔


تیل کی پائپ لائن جو باکو، تبلیسی اور جیہان تک وسیع تھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکہ اپنے پر لے کر علاقے کے اہم ملک آذربائیجان کو سیاسی طور پر مضبوط کر کے یہاں پر اپنی مرضی کی انتظامیہ کو بھرپور معاونت فراہم کررہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے صدر حیدر علییف سے جب صدارت اکتوبر 2003ء میں اس کے بیٹے الھام حیدر علییف کو غیر جمہوری اور غیر آئینی طور پر منتقل کی گئی تو امریکہ اور یورپ کی رگ جمہوریت نے پھڑکنے سے انکار کردیا،دوسری جانب اس منصوبے کا اہم رکن ترکی امریکہ سے کردوں کے خلاف کارروائی میں خاموشی کی شکل میں قیمت وصول کررہا تھا، ترکی اس علاقے میں ”کردباغیوں“ کے خلاف کارروائی میں طاقت کے بے دریغ استعمال کررہا تھا جہاں سے اس تیل کی پائپ لائن کو گزرنا تھا۔


ان حالات میں اسرائیل عسکری راستے سے باکو پائپ لائن کے قریب ہورہا تھا اس سلسلے میں 23فروری 1996ء کو اسرائیل اور ترکی کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ عمل میں آیا تھاس معاہدے میں امریکہ اور اس کی صیہونی لابی نے کلیدی کردار ادا کیا تاکہ اس معاہدے کے تحت علاقے میں روس، ایران اور شام کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ترکی اور صیہونی ریاست اسرائیل کے یہ معاہدے آہستہ آہستہ بحیرہ قزوین(کیسپین) کے تیل کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔

اسرائیل اس کے ساتھ ساتھ روس سے ترکی آنے والی گیس پائپ لائن سے بھی استفادہ کرنا چاہتا تھا، اس سے پہلے اسرائیل مصر سے گیس کی پائپ لائن صحرائے سینا کے راستے حاصل کرنا چاہتاتھا تاکہ مصری قدرتی گیس سے استفادہ کیا جاسکے مگر اس سلسلے میں اس وقت اسرائیل مصر سیاسی تعلقات کی نوعیت اس طرح نہیں تھی کہ یہ کام آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا۔

اس کے علاوہ مصر کی اپوزیشن پارٹیوں اور اسلامی تحریکوں نے بھی امریکہ اور اسرائیل نواز حسنی مبارک انتظامی کا یہ منصوبہ بیچ چورا ہے میں پھوڑ دیا تھااس لئے ترکی کے راستے روسی قدرتی گیس کے اسرائیل پہنچانے کے منصوبے پر سوچ بچار شروع ہوئی (3)مگر جس وقت مئی 2005ء کو باکو۔ تبلیسی پائپ لائن منصوبے میں ترکمانستان نے شمولیت اختیار کی تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ ترکمانستان سے گیس کو پہلے ترکی اور اس کے بعد اسرائیل تک پہنچائی جاسکے۔


بحیرہ قزوین(کیسپین) کے تیل اور گیس کے ذخائر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں علاقے کی حلیفانہ قوتوں میں تغیر رونما ہوسکتا ہے، کیونکہ آذربائیجان اور ایران میں اہل تشیع کی حکومت ہے اس کے علاوہ ایران میں آذری قومیت کی ایک بڑی اقلیت سکونت پزیر ہے اس کے ساتھ ساتھ آذربائیجان کی برآمدات کا اسی فیصد انحصار بھی تہران پررہا ہے کیونکہ 1995ء سے آذربائیجان کی ایران کے ساتھ تجارت کا سلسلہ جاری ہے مگر ان تمام معاملات کے باوجود دونون ملکوں کے درمیان سخت قسم کی سرد مہری رہی۔


(4) علاقے کی صورتحال سے باخبر بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت کی ترکی کی حکمران پارٹی رفاہ کی قیادت نجم الدین اربکان کے ہاتھ میں رہتی تو جلد علاقے میں حلیف ممالک کی ترتیب تبدیل ہوسکتی تھی، کیونکہ جون 1996ء سے لیکر جون 1997ء میں انقراہ اور تہران نجم الدین اوربکان کی قیادت میں تیزی کے ساتھ قریب آگئے تھے، اس صورتحال پر اسرائیل اور مغرب کی جانب سے سخت تنقید بھی کی جارہی تھی یہ قربتیں سیاسی بنیاد پر استوار ہورہی تھی جبکہ ترک فوج میں موجود صیہونی نیٹ ورک امریکہ کے اشارے پر اس عمل کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ نجم الدین اربکان کی حکومت سے ہٹنے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں تیزی کے ساتھ قربتوں میں اضافہ شروع ہوگیا تھا۔


(5) ترکی میں بدلتے ہوئے سیاسی تناظر میں ترک فوج کے صیہونی آلہ کاروں نے وسطی ایشیا میں اسرائیل کیلئے راستے ہموار کرنے کی کوششوں میں اضافہ شروع کردیا۔ اس سلسلے میں ترکماسنتان کو اہم ہدف قرار دیا گیا کیونکہ بحیرہ قزوین (کیسپین) کے ساتھ اس کا بڑا ساحلی علاقہ متصل ہے یہاں پراسرائیل نے اپنی تیل کمپنی میرھاف گروپ Merhav Groupکا دفتر قائم کردیا جس کا انچارج اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا سابق آفیسر ”یوسف مایمان“ تھا۔

میرھاف گروپ کی ترکماستان میں ذمہ داریاں قدرتی گیس کے وسائل کو ترقی دینا تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس صیہونی کمپنی نے بحیرہ قزوین (کیسپین) کے کنارے پر واقع ترکمانستان کے ساحلی شہر میں تیل صاف کرے کی ریفائنری بھی نصب کی تھی۔
(6) صیہونی کمپنی میر ھاف نے ترکمانستان میں پیر جمانے کے بعد علاقے میں روس کی گیس کمپنیوں کا مقابلہ شروع کردیا اس کے ساتھ ساتھ یہی صیہونی کمپنی میرھاف نے ترکی میں ڈیموں کی تعمیر اور مرمت کے کاموں پر بھی سرمایہ کاری شروع کردی اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ دجلہ اور فرات دونوں دریا چونکہ ترکی سے نکلتے ہیں اس لئے شام اور عراق کیلئے ان پانیوں کو کم کر کے اسرائیل علاقے میں پانی کا بحران پیداکرسکتا ہے۔

ایک اور صیہونی کمپنی میگل Megal باکو۔ جیہان پائپ لائن جو آذر بائیجان، جارجیا اور ترکی کے بڑے حصے سے گزرتی کی سیکیورٹی کی ذمہ داری بن گئی۔
(7) بعض یہودی سیاسی محققین کے مطابق آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت صرف تیل کی پائپ لائن تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلامی تحریکوں سے خدشات روس ایران اور ایران ترکی تعلقات کا دباؤ اور ترکی کی یورپ میں شمولیت کی رغبت شام ہے ان ہی خدشات سے ملک کر علاقے کو سیاسی سطح پر نئے حلیفانہ گروپوں میں تقسیم کردیا۔

ان معاملات کے ساتھ ساتھ اب چیچنیا بھی زیادہ دور نہیں، مغربی ماہرین کا ایک گروپ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ چیچنیا کے معاملے میں روس میں بسنے والی یہودی روسی صدر پوٹن کے خلاف تہہ در تہہ پردوں میں کام کررہے ہیں ان یہودیوں کی زیادہ توداد روسی سرمایہ کاروں کی شکل میں موجود ہے جو چیچنیا میں ہونے والے اغواء کی وارداتوں میں ملوث رہے، ذرائع کے مطابق روسی سرمایہ دار یہودی چاہتے تھے ک روس چیچنیا کی دلدل میں پھنسا رہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاں روس کا آہنی دباؤ بھی جاری رہے تاکہ یہاں کی اسلامی تحریکیں مسقتبل میں اسرائیل کیلئے کئے جانے والے اقتصادی اقدامات کیلئے کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کرسکیں۔

اس سلسلے میں روس ماضی قریب میں ترکی پر بھی الزام تراشی کرتا رہا ہے کہ باکو پائپ لائن کو اپنی سرزمین تک لانے کیلئے ترکی نے اس خطے میں جنگ کے شعلوں کو ہوا دی تاکہ اس پائپ لائن کا فائدہ اسے مل سکے کیونکہ باکو جیہان پائپ لائن کو چیچنیا کی سرزمین سے بھی گزرنا تھا۔
باکو پائپ لائن اور ترکی اسرائیل اتحاد کے تناظر میں اس وقت یہ سمجھا جاتا رہا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خسارے میں ایران اور روس ہیں مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب ممالک کی بھی بڑی تعداد شامل رہی جو اقتصادی سطح پر وسطی ایشیا کے علاقے کے ممالک میں سرگرم عمل ہی نقصانات میں ان کا حصہ بھی کم نہیں ہے۔


وسطی ایشائی ممالک کی اپوزیشن جماعتیں سمجھتی تھی کہ امریکہ یہاں فوجی اڈے قائم کر کے ایک طرف یہاں کی معدنی اور تیل کی دولت پر کنٹرول چاہتاے تو دوسری جانب اسے ایک طرف روس کا اور دوسری طرف چین کا راستہ روکنا ہے، حقیقت بھی یہ ہے کہ امریکہ نے پہلے سوسیت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر اسے یہاں طویل جنگ میں الجھا کر تباہ کردیا اس کے بعد اس نے یہاں اسلامی انقلابی لہر کا مقابلہ کرنے کیلئے بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا نعرہ لگا دیا ان دہشت گردانہ صیہونی سازشوں کو کامیاب کرانے کیلئے مالیاتی رشوتوں ، آزادی رائے، حقوق انسانی اور جمہوریت کے نام سے محاذ بنالئے گئے۔

مقامی حکمرانوں اور فوجی آمروں کو فروغ جمہوریت کے نام پر نئے محاذ کھول دئیے۔
مقامی حکومتوں اور ان پر مسلط آمروں کو واضح اہداف دئیے گئے کہ وہ قوت کے ذریعے اسلامی عناصر کو روکیں ورنہ ان کی جگہ کسی اور کو مسلط کردیا جائے گا۔ اس صورتحال میں بھی روس اور چین کی پیش قدمی کسی نہ کسی طرح جاری رہی، دوسری جانب روس ایران کے راستے گرم پانیوں کی جانب دوربارہ پیش قدمی کی شکل اختیار کرتا رہا ہے ، ایران کے ساتھ اس کا جوہری تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

یہ اایسی صورتحال ہے جس سے علاقے میں امریکی استعماریت کا جواب دیا جاسکتا تھا۔
امریکہ کے عراق سے متعلق رویے نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی عالمی صیہونی استعماریت کو دنیا پر مسلط کرنے کیلئے کسی بھی کارروائی سے دریغ نہیں کررہا۔ ذرائع کے مطابق وسطی ایشیاء کے بعد عراق کے امریکی عسکری اڈے خاص اہمیت کے حامل ہیں اس سلسلے میں شمالی عراق میں کرکوک کے مقام پر نیا فوج اڈا قائم کیا گیا جس کا اول ہدف ”باغی عرب ملک“ ہوسکتے ہیں جو آئندہ امریکہ او ایران کے دمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شاکی ہیں، امریکی وزارت دفاع کے حوالے سے بعض ذرائع کا کہناہے کہ اس اڈے پر ایٹمی اور کیمیائی وار ہیڈ سے مسلح میزائل نصب کئے جارہے ہیں یہ میزائل اس سے پہلے ترکی میں انجرلیک کے امریکی اڈے پر نصب تھے، جبکہ امریکہ پہلے شمالی عراق کے اہم عسکری علاقے اربیل میں اپنا اڈا قائم کر چکا ہے۔

اس سے پہلے یہاں عراقی فوج کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی، جبکہ تیسرا بڑ ااڈا موصل شہر میں قائم کرنے کے اقدامات کئے گئے۔ عراق میں یہ امریکہ کے اہم ترین عسکری اقدامات تصور کئے جارہے ہیں خاص طور پا رایسی صورتحال میں جبکہ امریکہ خطے میں نئے حلیف بنارہا ہے ان اڈوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جس سے علاقے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے کے نئے باب کھل جائیں گے۔


وسطی ایشیا میں خاص طور پر قفقاز کے علاقے میں امریکی اڈے کئی سال سے قائم ہیں اب روس براہ راست ان عسکری امریکی اڈوں کی زد میں ہے۔ عراق میں قائم ہونے اوولے امریکیاڈون کیلئے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کئے گئے تھے تاکہ انہیں عرب مجاہدین کی کسی بھی کارروائی سے محفوظ کیا جاسکے مگر عرب ذرائع کے مطابق امریکیوں کو اس سلسلے میں زیادہ دشواریوں کا سامنا رہا کیونکہ مجاہدین کی کارروائیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی منظم ہوتی گئیں جبکہ عراقی فوج کی جانب سے تمام عراق کے طور و عرض میں چھپایا جانے والا اسلحہ ان مجاہدین کی دسترس میں رہا جن میں مشین گنیں‘ راکٹ لانچر‘ دستی بم‘ بارودی سرنگیں‘ زمین سے فضا میں مارکرنے والے ایسے میزائل جو کاندھوں پر رکھ کر فائر کئے جاتے ہیں صدام دور کے روپوش فوجی خفیہ ذرائع نے مجاہدین تک ان کے مقام اخفاء کی نشاندہی کی۔

دبئی سے شائع ہونے والے روزنامے ”الاتحاد الاسبوعی“ کے مطابق اگر عرب مجاہدین کو دس سال سے زیادہ عرصے تک بھی امریکہ کے خلاف گوریلا جنگ لڑنا پڑتی تو عراقی فوج کی جانب سے چھپایا جانے والا یہ اسلحہ ان کیلئے کافی تھا۔ یہی وجہ ے کہ جو عرب مجاہدین مختلف علاقوں سے سرحد پار کر کے عراق میں داخل ہوئے انکے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں ہوتا تھا اس لئے وہ آسانی سے عرب مسافروں کی شکل میں عراق میں داخل ہوتے رہے باقی تمام ”سامان “انہیں عراق کے اندر ہی میسر آجاتا۔

عراق میں امریکی اڈوں کے مستقل قیام سے قفقاز‘ وسطی ایشیاء اور ترکی میں قائم اڈوں کی ایک چین معرض وجود میں آنے سے اس سلسلے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد علاقے میں اثر ونفوذ قائم کرنے کیلئے امریکہ اور روس میں کشمکش کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔1 199ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھی ہی امریکی انتظامیہ کے بڑے عہدیداروں نے جیمس بیکر کی سربراہی میں وسطی ایشیاء کا طواف کرنا شروع کردیا تھا۔

آزاد ہونے والی روسی ریاستوں نے مالی تعاون کے عوض مغرب کیلئے اپنے دروازے کھولنا شروع کردئیے۔ روس سوویت تحلیل کے بعد اقتصادی اضمحلال کا شکارتھا اپنی معیشت کو سہارا دینے کلئے اس بھی امریکہ اور مغربی یورپ کی مالی معاونت کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے پہلو میں واقع حساس ریاستوں میں وہ امریکہ کو آنے سے نہ روک سکا اور اسے بھی امریکہ کے وضع کو دہ عالمی نظام کا حصہ بننا پڑا۔

امریکہ روس اور دیگر علاقائی ملکوں کو اپنے وضع کردہ نظریات اور مفادات کے تحت پشت پر کھڑا کرنا چاہتا تھا اس سلسلے میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ جن نکات کی بناپر امریکہ اس حساس علاقے میں داخل ہوا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
- علاقائی ملکوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امداد مہیا کرنا۔ اسلامی نظریات کی ترقی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر اس نے اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا نام نہاد نعرہ بلند کیا اور ان ملکوں کی ”سیکولر“ انتظامیہ کو مدد فراہم کرنے کے عملی اقدامات کئے۔


- اس کے علاوہ امریکہ نے علاقائی جھگڑوں میں بھی ٹانگ اڑانا شروع کردی ۔ امریکہ پہلے اقتصادی امداد اس کے بعد انسانی حقوق اور سلامتی کے امور کے نام پر اور آخر میں ماہرین بھیجنے کی غرض سے علاقے کا ٹھیکیدار بننے لگا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ نے آرمینیا اور آذربائیجان کے تنازعے میں جس کا محور مرکز ناگورو کارا باخ تھا سیکیورٹی آرگنائزیشن یورپ کے نام پر مداخلت کی اس کے بعد ”منسک“ کانفرنس کے حوالے سے مسئلے کے ”حل“ کی کوششوں میں جیت گیا۔


وسطی ایشیاء کا ملک ازبکستان 1991ء میں آزاد ہوا ۔ روز اول سے اس ریاست کو امریکی ہدف کہا جاتاہے کیونکہ اس ریاست کی سرحدین چین سے ملتی ہیں جو مستقبل میں چین پر امریکی دباؤ کیلئے استعمال ہوسکتی ہیں۔ امریکہ نے روس کی حمایت کرتے ہوئے ازبکستان پر دباؤ ڈالاکہ آزادی کے بعد بھی یہاں سوویت دور میں آنے والے روسی باشندے حسب سابق قیام کریں گے اور ازبکستان کی نئی تشکیل دی جانے والی فوج میں روسیوں کو ان کے تناسب سے حصہ ملے گا۔

اس کے علاوہ نئی فوج کی تشکیل میں یوکرائن اور بیلا روس سے مدد مل جائے گی۔ اس کے بعد امریکہ اور روس میں ایک بات پر اتفاق ہوا تھا کہ تیل اور گیس کی دولت سے مالال مال اس مسلم ملک میں کسی اسلام پسند تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔لیکن تھوڑے عرصے بعد واشنگٹن نے ماسکو سے ہٹ کر پالیسیاں وضع کرنا شرع کر دیں۔ امریکہ نے روس ے بالا بالا اس علاقے میں عسکری فوقیت حاصل کرنے کیلئے تاجکستان اور کرغیزستان کے ساتھ ازبکستان کو سلامتی امور سے متعلق ایک معاہدے میں منسلک کروا کر ان تین اہم ملکون کی ایک سٹریجٹک مثلث قائم کردی جسے وسطی ایشیا کے سیاسی‘ اقتصادی او عسکری امور کی چابی کہا جاتا ہے ۔

یہ چابی اب امریکہ کی جیب میں تھی۔ افغانستان پر شدید حملون کے بعد پانچ ہزار امریکی فوجی جن کے ساتھ نیٹو کے سینکڑوں فوجی شام تھے کرغیزستان میں رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ اس نئے علاقے میں امریکی عسکری اڈوں کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ عرب صحافتی ذرائع کے مطابق قرغیزستان میں امریکی فوجی کرغیزستانی فوجیوں سے زیادہ فعال حالت میں نقل و حمل کرتے ہیں۔

امریکہ فوج کے کرغیزستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک روز قبل کرغیزی صدر نے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں پارلیمنٹ سے امریکیوں کے لئے مناس کے ہوائی اڈے کے استعمال کی قرارداد منظور کروائی گئی تھی مناس کا ہوائی اڈہ کرغیزی دارالحکومت بشکیک کے قریب واقع ہے اس ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا کہا جاتا ہے۔
اس منظر نامے کو سامنے رکھ کہ انداہ لگانا مشکل نہیں کہ قزوین(کیسپین) کے تیل اور گیس کے حصول کیلئے امریکہ اور اسرائیل نے کس قسم کے اقدمات کررکھے ہیں یہ تمام سیاسی اکھاڑ بچھاڑ صرف اور صرف بحریہ قزوین(کیسپین) کے گرد ممالک تک صیہونی رسائی کیلئے کی گئی ہے۔

مشرقی وسطی میں انتشار پیدا کر کے اسرائیل کو خطے میں مکمل بالا دستی دلوانے کے لئے ہی بدقسمتی سے شیعہ اور سنی مسلمانوں میں شام، عراق، یمن اور دیگر علاقوں میں جنگ کی کیفت پیدا کی گئی ہے حالانکہ اس جنگ کا فائدہ صرف اسرائیل کی بالادستی کے خلاف چونکہ سب سے زیادہ مزاحمت روس کی جانب سے متوقع ہے اس لئے اس کی سیاسی اور معاشی چولیں ہلانے کیلئے وسطی ایشیا کی دولت کو قابو کرنا ضروری ہے جس کے بعد روس اور چین آسانی کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے رپ مجبور ہوجائیں گے۔

دوسری بڑی رکاوٹ پاکستان کے جوہری اثاثے ہیں اس کیلئے قبائلی علاقوں اور دیگر لبرل قوتوں سے کام لیا جارہا ہے۔ بہر حال معامات کچھ بھی ہوں حالات اب امریکہ کے کنٹرول میں بھی نہیں رہے ہیں۔ ترکی کا چہرہ بدل چکا ہے، عراقیوں نے مزاحمت کی تاریخ اپنے خون سے رقم کی ، افغانستان میں جدید تاریخ کی آخری سپر طاقت شکست کھا چکی ہے اس تناظر میں آنے والامورخ اسے خطے کی آخری ”گریٹ گیم“ ہی لکھ سکے گا۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mojooda Inteshar Khitte Ki Aakhri Great Game Sabit Hoo Ga is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 March 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.