مسیحاکا انتظار

پاکستانی واحد قوم ہیں جو ہمیشہ مسیحاکے انتظار میں رہتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی قسمت خود سنوارنے کی بجائے اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کوئی آکر انکے حالات بدلے تو ایسی قومیں سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں

بدھ 20 جولائی 2016

Maseeha Ka Intezar
نازیہ جبیں:
پاکستانی واحد قوم ہیں جو ہمیشہ مسیحاکے انتظار میں رہتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی قسمت خود سنوارنے کی بجائے اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کوئی آکر انکے حالات بدلے تو ایسی قومیں سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں جبکہ ایسی قومیں جنہوں نے محنت کو اپنا شیوہ بنا لیا انہوں نے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے باقی قوموں کیلئے مثالیں قائم کیں۔

کہا جاتا ہے کہ انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے اور اس انتظار کی گھڑیاں بیتانے کیلئے انسان ایسے مشاغل میں مصروف ہو جاتا ہے جو اسے بے عملی کی طرف راغب کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ انسان ایک طفیلے کی زندگی گزارتے ہوئے بے نام اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔کامیابی ہمیشہ ان لوگوں کے قدم چومتی ہے جو بے عملی کی زندگی چھوڑکر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور محنت و کوشش سے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں یہ عام رواج پایا جاتاہے کہ ہم جب مشکل میں پھنستے ہیں تو واویلا مچانا شروع کردیتے ہیں اور مشکل کے حل کی طرف نہیں آتے۔ ہمارے ان گنت قومی ، معاشرتی اور معاشی مسائل ہیں جو توجہ طلب ہیں اور اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ دانشمندانہ طریقے سے ان کا حل نکالا جائے۔ لیکن چونکہ ہمارے اندر وہ حِس ہی موجود نہیں جو عمل کی جانب گا مزن کرے تو ہم شور غل میں مصروف ہو جاتے ہیں اتنا شور مچاتے ہیں کہ اصل مسائل دب جاتے ہیں اور نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔


اسی قسم کا ایک منظر پچھلے دنوں نظر آیا جب ایک جماعت نے آرمی کے پوسٹرزلگانا شروع کر دیئے کیا یہ پوسٹرز اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں یا ان بینرز کا استعمال کسی سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کا محرک کوئی بھی ہو ، ان بینرز کو آویزاں کرنا ہماری ذہنی صحت کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ ایک اشارہ ہے اس قوم کے وطیرے کا کہ ہم کسی نہ کسی مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ہم بے عملی کی زندگی کا شکار ہیں۔ مسائل سے آگاہ ہیں مگر ان مسائل کی وجوہات سے آگاہ نہیں۔ کیا ایک فوجی نظام پاکستان کے مسائل کا حل ہے ؟ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام کیوں ہیں ؟ یہ ذہنیت دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات کی عکاسی کرتا ہے جب لوگ اتنی ٹوٹ پھوٹ اور ذہنی انتشار کا شکار ہو چکے تھے انکے اندر یہ احساس ختم ہو گیا کہ ان کا وجود بھی کسی اہمیت کا حامل ہے۔

ذہنی انتشار کا شکار لوگ ایسے مسیحا کا انتظار کرنے لگے جو ان کے مسائل کو حل کر دے کیونکہ وہ خود تو کچھ کسی قابل نہیں رہے تھے۔ ہمارے موجودہ لوگوں نے تو کوئی جنگ عظیم اول اور دوم تونہیں دیکھی البتہ ہمارے ملک میں بے شمار اندرونی اور بیرونی عناصر ایسے ہیں جو اس قوم کی تباہی کا باعث ہیں۔ ہمارے اندر سمجھ بوجھ اور شعور کی کمی ہے لہذا ہم بہت جلد ان اندرونی و بیرونی عناصر سے متاثر ہو جاتے ہیں۔


اس ملک میں چار فوجی جرنیلوں نے حکومت کی اور طویل المدت فوجی حکومت کے باوجود جب سیاسی جمہوری حکومت آئی تو زیر وسے کام شروع کرنا پڑا اور جب جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور اقتدار ن لیگ کے سپرد کیا تو کہا جاتا تھا کہ اب جمہوریت مضبوط ہو چکی ہے۔تمام جمہوری ادارے اپنی ابتدائی نشوونما کے عمل سے نکل کر پھل پھول کے مراحل میں داخل ہو چکے ہیں آج پھر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پھر بوٹوں کی چاپ سنائی دے اور یہ بوٹ ان کو روندتے ہوئے کسی روشن مستقبل میں لے جائیں جہاں ستاروں کی روشنیاں ہوں ، بارش کی بونداباندی ہو اور کوئی حسین منظر کے نظارے ہوں۔

ان کو کون سمجھائے کہ اس حسین منظر کو دیکھنے کیلئے ان کو خود کوشش کرنا پڑیگی اس منظر کی تلاش میں اندھا دھند بھاگنے کی بجائے خود سے پوچھیں کہ انکے مسائل کا حل بوٹ ہیں یا سیاسی جماعتیں ہیں یا کوئی اور سب سے پہلے تو اس بے حس اور سوئی ہوئی قوم کو جاگنے کی ضرورت ہے۔ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ایسا ہی ثبوت جو ترکی کے لوگوں نے دیا۔

پوری دنیا کا میڈیا جب ترکی میں فوج ٹی آر ٹی ہیڈ کوارٹر پر قبضہ اور مارشل لاء کا اعلان کر رہا تھا جس میں بی بی سی ، سی این این ، فوکس ، اے بی سی جیسے ادارے بھی شامل تھے ایسے انداز میں کوریج کر رہے تھے جیسے اردگان کا دھڑن تختہ ہو چکا اور ساتھ میں سارا ولیٹرن میڈیا فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہنے کی تیاری کر رہا تھا۔ تو عوام نے اپنے لیڈر کی ایک کال پر طاقت کا مظاہر ہ کر تے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا۔

اس منظر کو دیکھتے ہوئے ہر با شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم بحیثیت قوم کہا ں کھڑے ہیں؟کیا ہمارے رہنما اتنے طاقتور ہیں کہ آدھی رات کو قوم کو سٹرکوں پر لے آئیں۔ کیا ہم لوگ ایک قوم ہیں بھی کہ نہیں ؟ کیا ہم ایک قومی مفاد کیلئے سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے رہنماؤں کے پاس بھی عوامی طاقت موجود ہے۔ پی ٹی آئی اور طاہر القادری دھرنے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے پاس بھی عوامی طاقت ہے لیکن ہم اس عوامی کا استعمال صحیح مقاصد کیلئے نہیں کر رہے۔

ایک قومی مقصد۔ہمیں ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ صرف قومی رہنماؤں کو الزام دینے کی بجائے اپنی منزل کا تعین کرنا ہوگا۔ جب یہ شعور جگمگائے تو روشنی بھی واضع ہوگی اور اس روشنی میں ایسے رہنما پیدا ہونا مشکل نہیں جو قوم کو اس کی منزل کی طرف رہنمائی میں مدد کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maseeha Ka Intezar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 July 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.