خصوصی بچوں کا عالمی دن

یہ دن تین دسمبر کوپوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی منایاجاتا ہے ÷

ہفتہ 3 دسمبر 2016

Khasoosi Bachon Ka Aalmi Din
مظہر حسین شیخ :
قدرت نے انسان کو نہایت خوش شکل وخوش عقل پیداکیا اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ” ہم نے انسان کو نہایت اچھی صورت میں پیدا کیا “ اور پھرانسان کے اندر اس نے ایسی عقل اورشعور کو رکھ دیا جو دنیا کی کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں ۔ قدرت کی مرض ومنشا کے تحت بعض بچے معمولی یاکچھ زیادہ جسمانی نقص کے ساتھ پیداہوتے ہیں جن میں جسمانی کمزوری، اعضا کادرست نہ ہونا۔

کچھ اعضا کا کمزور ہونا یا پھراعضا کا ٹیڑھاپن وغیرہ۔ ایسے بچے والدین کے لئے نہایت دکھ اور تکلیف کاباعث ہوتے ہیں۔ کچھ توعلاج معالجے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اور کچھ میں کمی باقی رہ جاتی ہے ۔ ان بچوں کو مخصوص یاسپیشل بچے کہاگیا ہے اس لئے کہ ہرایک کی توجہ خاص طور پر ان کی طرف ہوتی ہے کہ وہ خود کو کبھی تنہا یادوسروں سے الگ تھلگ خیال نہ کریں۔

(جاری ہے)

ایسے بچوں میں قدرت پھرایک مخصوص صبر، ہمت، حوصلہ آگے بڑھنے اور دنیا کے برابرآن کھڑے ہونے کی قوت وصلاحیت بھی پیداکردیتی ہے ۔ یہ بچے اپنی جرات وہمت کے ساتھ وہ کام کردکھاتے ہیں جو عام اور صحت مند بچے بھی نہیں کرپاتے ۔ یہ بچے یقینا ہمت وجرات کاایک روشن نشان ہیں جن پر پوری قوم کو فخر ہے۔ وہ کھیل کا میدان ہو یاعلم کاسفر فن کی دنیا ہویاجہان ثقافت ہرمیدان میں انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔

ایسے باہمت اور حوصلہ مند بچوں پر ہم بلاشبہ فخر وناز کرسکتے ہیں۔ البتہ خصوصی بچوں (جو کہ جسمانی وذہنی معذور ہیں ) ہماری تھوڑی سی توجہ انہیں کار آمدشہری بناسکتی ہے۔ ہمارا اشارہ ان بچوں کی طرف ہیں جنہیں خصوصی اسپیشل بچے کہاجاتا ہے یہ بھی ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں ان پرخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی ہماری طرح اچھی بھرپور اور خوبصورت زندگی گزارنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ان صلاحیتوں کو بروے کارلانے کے لئے انہیں ہماری توجہ کی اشد ضرورت ہے حکومت نے سپیشل یاخصوصی بچوں کے لئے ایسے ادارے قائم کررکھے ہیں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگرکرسکتے ہیں ، اکثر ٹیلی ویژن پر ایسے بچے جوہاتھوں سے محروم ہیں اپنے پاؤں کی مدد سے نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ دوسرے کام بھی سرانجام دے سکتے ہیں وہ بھی کام کرناچاہتے ہیں اسی طرح قوت بینائی سے محروم لوگوں کی محسوس کرنے کی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگرکوئی قریب آئے توفوراََ پوچھتے ہیں کون ؟ اور تو اور وہ کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں ، آپ خود سوچیں گھپ اندھیرے میں ہاؤلنگ کرانا اور بیٹنگ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی ایسی صلاحتیں عطاکی ہوتی ہیں کہ وہ ہرکام بخوبی اور احسن طریقہ سے سرانجام سے سکتے ہیں خصوصی بچے بھی عام بچوں کی طرح اس قابل بننا چاہتے ہیں کہ معاشرے میں بھی ان کاکوئی مقام ہوا۔ ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ایسے بچوں نے بڑے ہوکر خوب نام کمایاانہوں نے جسمانی معذوری کو آڑے نہ آنے دیا اور کئی سیائیسدان ، انجینئر، رائیٹر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز معذور افراد کام کررہے ہیں۔

ہرسال 3دسمبر کو خصوصی بچوں کا عالمی دن منایاجاتا ہے ان افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنانے اور انہیں معاشرے میں ان کاصحیح مقام دلانے کے وعدے کئے جاتے ہیں تاکہ ان بچوں کو بھی عام لوگوں کی طرح معاشرے کاحصہ سمجھا جائے ۔ ان کاخیال رکھاجائے ان سے اس طرح کا اچھا برتاؤ کیاجائے کہ آنے والے دنوں میں اپنے آپ کو سنبھال سکیں اور معاشرے پر بوجھ نہ بنیں بلکہ کارآمد شہری کہلائیں۔

ایسے بچیوں میں سیکھنے کی صلاحیت اجاگرکرنے والے خصوصی تعلیمی اداروں کی تعداد آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایسے بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے جوادارے محدود سطح پرکام کررہے ہیں ان بچے بچیوں کو تعلیم وتربیت کے ذریعے معاشرے کا مفید شہری بنانا صرف حکومت کاہی نہیں ہمارا بھی فرض بنتا ہے ۔ صاحب حیثیت افراد ان اداروں کی مالی امداد کرکے خصوصی بچوں کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے قابل بناسکتے ہیں۔

تاکہ اُن کے فطری ، رحجان کے تحت صلاحیت کو اجاگر کیاجاسکے اور یہ بچے معمول کی سطح پر کام کاج کرنے والے بچوں میں شامل ہوسکیں۔ دلچسپی لینے والے خصوصی بچے پیچھے رہ جاتے ہیں جن کے والدین ان پر توجہ نہیں دیتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں یہ اپنے آپ کوسنبھال نہیں سکتا ادارے میں جاکر کیا کر پائے گا ؟ یہ بات قطعی نہیں کہ والدین کون سے پیار نہیں ہوتا بلکہ دوسرے بچوں سے زیادہ خصوصی بچوں پر شفقت کرتے ہیں۔


خصوصی بچوں کے حوالے سے ہونیو الی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو معمول کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے لکھنے کے دوران اپنے ساتھیوں سے اکثر پیچھے رہ جانے کی شکایت رہتی ہے اور یہ بچے کلاس روم میں کسی کو دوست بنانے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ حالانکہ ان بچوں میں بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود تو ہوتی ہے لیکن ان کی رفتار عام بچوں سے کم ظاہر ہوتی ہے ۔

مثلاََ عام بچہ جس بات کا بروقت جواب دے گا متاثر بچہ بولنے میں اس کے لئے وقت لے گا۔ عام حالات میں والدین بچوں کو درپیش اس مسئلے سے آگاہ نہیں ہوتے ۔
ذہنی وجسمانی معذوروں کا عالمی دن ہرسال تین دسمبر کوپوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے ۔ جس کابڑا مقصد معذروں کے حوالے سے پوری دنیا میں پیغام پہنچانا اور بچوں میں خاص طور پر معذروں کے دکھ درد کاخاتمہ اور اس کے مضمرات اور اس کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنا ہے ۔

ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان خصوصی افراد کو کسی قسم کا کوئی علم نہیں ، اور نہ ہی کوئی احساس ہوتا ہے تو ہماری یہ سوچ درست نہیں۔ معاشرتی برتاؤ ان کی زندگی پر ان کی تربیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔ جب تک معاشرے میں ا س حوالے سے شعور اجاگر نہیں ہوتا ۔ معاشرہ جب تک انہیں برابری کی سطح پر نہیں دیکھتا، نہیں سوچتا تواس وقت تک ان خصوصی افراد کی فلاح وبہبود اور تعلیم وتربیت میں مشکلات کاسامنا رہے گا اور یہ بات طے شدہ ہے کہ معاشرتی رویے انسانی زندگی پراثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک خصوصی بچے کو جسے اس کی ابتدائی زندگی میں ملنے والا سماجی ، ثقافتی ماحول مناسب نہیں ملتا یا اس کے لیے مناسب نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khasoosi Bachon Ka Aalmi Din is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 December 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.