دہشت گردی کے خطرات اور تعلیمی ادارے

پشاور اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی میں بچوں کے بیہمانہ قتل عام کے بعد پورے ملک کے تعلیمی ادارے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ کیونکہ عوام تعلیم اداروں کی حفاظت کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی سے مکمل طور پر مایوس اور بد ظن ہو چکے ہیں

جمعرات 11 فروری 2016

DehshaatGardi K Khatrat Or Taleemi Idare
ادیب جاودانی:
پشاور اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی میں بچوں کے بیہمانہ قتل عام کے بعد پورے ملک کے تعلیمی ادارے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ کیونکہ عوام تعلیم اداروں کی حفاظت کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی سے مکمل طور پر مایوس اور بد ظن ہو چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حفاظت کے حوالے سے حکومت نے نادر شاہی احکامات جاری کر دئیے ہیں اور دہشتگردی کیخلاف حفاظت کی مکمل ذمہ داری سکول مالکان پر ڈال دی ہے۔

یکم فروری کو حکومت پنجاب اور پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کے درمیان مذاکرات کے بعد حکومت کی جانب سے ایک ایس او پی جاری کیا گیا تھا جس میں پرائیویٹ سکولوں کیخلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا اور مذاکرات میں حکومت نے مزید مقدمات درج نہ ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

(جاری ہے)

لیکن پنجاب حکومت نے تو پرائیوٹ سکولوں کے مالکان کیخلاف ایک ہزار مقدمات واپس لئے اور نہ ہی لاہور سمیت پنجاب بھر میں سکولز مالکان کو دئیے گئے 1312 شوکازنوٹسز ابھی تک واپس لئے ہیں اور تعلیمی اداروں میں پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔

حکومت نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو واک تھرو گیٹ لگانے کے بھی احکامات جاری کر دئیے ہیں چھوٹے تعلیمی اداروں کیلئے دو اڑھائی لاکھ روپے کا واک تھروگیٹ لگانا بہت مشکل ہے۔ راقم نے مذاکرات میں کہا کہ حکومت اگر چاہتی ہے کہ تعلیمی ادارے اپنی حفاظت کے انتظامات خود کریں تو حکومت ان پر لگائے گئے تمام ٹیکس ختم کر دے۔ آج پورے ملک میں تعلیمی اداروں کو جس طرح کے اقدامات کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے یہ تعلیم کو تالے لگانے کے مترادف ہے۔

حکومت نے سکیورٹی کے تمام انتظامات پرائیویٹ سکولوں پر ڈال دئیے ہیں اگر پرائیویٹ سکولوں کے مالکان اور شہری انفرادی طور پر اپنی جان و مال کے تحفظ کا خود پابند ہے تو پھر حکومت کا سیکورٹی اداروں پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ حکومت نے سیکورٹی کی تمام ذمہ داری پرائیویٹ سکولوں پر ڈال دی ہے جبکہ سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کو منظم بنائے جو صرف ”دہشت گردوں کی آمد کی اطلاع ہی نہ دیں بلکہ انہیں کسی کارروائی سے قبل گرفتار بھی کریں“۔پنجاب پولیس پرائیویٹ سکولوں میں جاکر خواتین اساتذہ سے انکے شناختی کارڈ اور موبائل فون نمبر او رگھروں کے ایڈریس طلب کر رہی ہے پولیس کے اس اقدام سے خواتین اساتذہ جو شادی شدہ نہیں ہیں وہ بہت پریشان ہیں وہ ملازمتیں چھوڑ کر جانا چاہتی ہیں اور وہ پولیس کے اس روّیے پر احتجاج بھی کرنا چاہتی ہیں۔

خادم پنجاب میاں شہبازشریف کو پولیس کو روکنا چاہیے کہ وہ خواتین اساتذہ سے یہ انفارمیشن حاصل نہ کرے۔دو روز پیشتر راقم کی لاہور کے ڈی سی او کپیٹن (ر) محمد عثمان سے ملاقات ہوئی انہوں نے راقم کو بتایا کہ حا ل ہی میں دہشتگردوں نے لاہور کے 9 اے پلس سکولوں کو تھریٹ کیا ہے۔جن لاہور کے سکولوں کو دہشتگردوں نے تھریٹ کیا ہے ان سکولوں کے مالکان سے ڈی سی او لاہور نے ایک میٹنگ بھی کی اور انکو یقین دہانی کرائی کہ ہم آپکے سکولوں کو بھرپور سیکورٹی فراہم کرینگے ۔

ہم نے ان سکولوں کو سیکورٹی فراہم کر رکھی ہے لیکن ان پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کو بھی حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے حوالے سے بنائے گئے تمام ایس او پیز پر ہر صورت عمل کرنا ہو گا۔
میں ڈی سی او صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے کہنے پر لاہور کے 175پرائیویٹ سکولوں کو 15 روز کے اندر رجسٹریشن دینے کے احکامات جاری کر دئیے۔ رجسٹریشن کے یہ کیسز عرصہ کئی ماہ سے ای ڈی اولاہور کے آفس میں پڑے ہوئے تھے اسکی وجہ رجسٹریشن کیلئے بنائی گئی نئی کمیٹیاں تھیں جن کے انچارج اسسٹنٹ کمشنر تھے اور انکے پاس رجسٹریشن کیلئے پرائیویٹ سکولوں کو چیک کرنے کیلئے وقت ہی نہیں تھا۔

دریں اثناء دو روزپیشتر ضلعی انتظامیہ لاہور کے زیرِ اہتمام لاہور شہر کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا جس کی مشترکہ صدات کمشنر لاہور ، عبداللہ خان سنبل، ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان ، سی سی پی او لاہور امین وینس ، ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے کی۔ اجلاس میں سرکاری و پروائیویٹ سکولوں ، یونیورسٹیز کے نمائندگان اور ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان نے شرکت کی۔

اس موقع پر کمشنر لاہور ، سی سی پی او اور ڈی سی او نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس مل کر شہر کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں سیکورٹی کے انتظامات کو یقینی بنا رہی ہے۔ شہر کے تعلیمی اداروں میں سختی کے ساتھ سکیورٹی انتظامات پر عملدرآمد کروایا جائیگا۔ ڈی سی او نے کہا کہ اگر کسی ادارے نے گورنمنٹ کے جاری کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کیا تو اسے بند کر دیا جائیگا، انہوں نے سکیورٹی انتظامات پر عملدرآمد کیلئے 10 دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

سی سی پی او نے کہا کہ سکیورٹی گارڈز کی ٹریننگ کیلئے پولیس لائن میں بندوبست کیا گیا ہے۔ ادھر ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے تمام ڈویڑنل ایس پیز کو مراسلہ جاری کیا ہے کہ ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے شہر میں موجود یونیورسٹیوں ، فیڈرل آرمی سکولز ، کالجز ، انگلش میڈیم و دیگر پرائیویٹ و سرکاری تعلیمی اداروں میں سخت حفاظتی انتظامات کئے جائیں، تمام ڈویڑنل ایس پیز ، ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوزاپنے علاقہ جات کے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے ذاتی طور پر ملیں، داخلی و خارجی راستے کم کروائیں اور سکیورٹی کابندوبست کروائیں، متعلقہ محکمہ سے تعلیمی اداروں کی چار دیواری کو اونچا اور محفوظ بنوائیں۔

پارکنگ کو تعلیمی ادارہ کی بلڈنگ سے مناسب فاصلے پر رکھا جائے، نجی سکیورٹی گارڈ کسی اچھی کمپنی کے تربیت یافتہ اور انکی تصدیق بذریعہ سپشیل برانچ سے کروائی جائے۔ تمام تعلیمی اداروں پر CCTV کیمروں کا بندوبست کروایا جائے، ڈی آئی جی آپریشنزڈاکٹر حیدر اشرف نے کہا کہ پولیس کے ساتھ ساتھ سکولوں کی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے سکولوں میں حفاظتی انتظامات مکمل کروائیں، پولیس عوام کی مدد کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

DehshaatGardi K Khatrat Or Taleemi Idare is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.