بجلی بحران2018 میں بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا

۔ اب تازہ واردات یہ کی گئی ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں نسبتاََ بل کم آئے اور صارفین بہت خوش تھے کہ حکومت نے ان کا خیال کیا اور بجلی کے بل کم آئے ہیں۔ وزیراعظم نے بھی عام جلسوں میں اس کا کریڈٹ لیا مگر اس کی کسر مئی میں موصول ہونیوالے بلوں میں بمعہ سود نکال دی

ہفتہ 4 جون 2016

Bijli Bohran
خالد جاوید مشہدی:
میپکو کے بارے میں عام طور پر کہ جاتا ہے کہ اس بل وصولی کی شرح قابل تعریف ہے مگر اس کا کریڈٹ اس علاقے کے صارفین کو ہی دیا جانا چاہیے۔ وسطی پنجاب میپکو کے دائرہ کار میں ہی آتا ہے اور یہاں کے ”کمزور“ اور دیانتدار صارفین کی شرافت سے میپکو کے ک کرتا دھرتا حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں ورنہ بجلی چوری تو یہاں بھی بہت ہے۔

ملتان شہر کے بعض علاقے واپڈا ملازمین کے لیے ”نوگوایریاز“ ہیں جہاں دھڑلے سے بجلی چوری ہوتی ہے اور ان لوگوں کی سینہ زوری کی قیمت بھی شریف صارفین ہی ادا کرتے ہیں۔ حکومت لاکھ دعوے کرے مگر واپڈا کے اہلکار اور انتظامیہ حکومت کی ریلیف دینے کی ہر کوشش ناکام بنا دیتے ہیں۔ اب تازہ واردات یہ کی گئی ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں نسبتاََ بل کم آئے اور صارفین بہت خوش تھے کہ حکومت نے ان کا خیال کیا اور بجلی کے بل کم آئے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے بھی عام جلسوں میں اس کا کریڈٹ لیا مگر اس کی کسر مئی میں موصول ہونیوالے بلوں میں بمعہ سود نکال دی۔ کیا واپڈا اہلکاروں کو خوف خدا بھی نہیں کہ اس طرح وہ حقوق العباد کو چھیننے کے گناہ کبیرہ میں ملوث ہو رہے ہیں۔واپڈا کے دفاتر میں مارے مارے پھرنے والے بل درستی کیلئے آنے والے غریب صارفین ان کی جان کو روتے اور بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔

ایک صارف نے بپتا سنائی کہ ہم بجلی کے کم استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کولر تک استعمال نہیں کرتے۔ گزشتہ دو سال سے اے سی نہیں چلایا حکومت نے بجلی سستی کرنے کا اعلان کیا تو خوشی ہوئی۔ دو ماہ تک بل قدرے کم آئے مگر مئی میں آنے والے بل دیکھ کر بلبلا اُٹھے۔ انہوں نے بتایا کہ 18 اپریل کو ریڈنگ کی گئی اور استعمال شدہ یونٹ 400 سے اوپر درج کئے اور جب بل آیا تو مئی کی 10 تاریخ تھی ۔

گویا ریڈنگ لیے 22 روز گزر چکے تھے جب میٹر چک کیا تو 22 روز بعد بھی ریڈنگ ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی تھی جو بل میں درج تھا۔ اس طرح کم ازکم 200 یونٹ اضافی ڈال کر اس بل کا کہیں کا کہیں پہنچا دیا پھر اس پراتنا ہی زیادہ جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکس اور کم و بیش یہی سلوک بیشتر صارفین کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جس رفتار سے آبادی بڑ ھ رہی ہے اور جس طرح سے بجلی چوری بڑھ رہی ہے 2018 تک کوئی امید نہیں کہ بجلی سستی اور وافر ہونے کے حکومت کے وعدے اور دعوے پورے ہو سکیں۔


وزیر مملکت برائے بجلی عابد شیر علی نے گزشتہ ہفتے ملتان آمد پر اعلان کیا کہ 45 روز بل ادا نہ کرنے والوں کے کنکشن کاٹ دئیے جائیں گے اور اوور بلنگ کرنے والے اہلکاروں کے کیس نیب کو بھیجیں گے۔ ایسا اگر ہو سکتا ہے تو کچھ نہ کچھ بہتری ضروری آتی ۔ ایک محکمہ واپڈا ہی حکومت کی گڈگورننس جانچنے کے لیے کافی ہے۔ عابد شیر علی نے کہا ہے کہ لاہور میں ایک وفاقی وزیر، ایک ریٹائرڈ ونگ کمانڈر، کالج پرنسل، کمشنرریونیو، سیشن جج سمیت کئی اہم شخصیات کی بجلی عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ دی گئی ہے مگر وہ اس کا فالواپ بھی بتاتے کہ کتنا عرصہ بجلی کٹی رہی کیونکہ پریکٹس تو یہ ہے کہ کاٹنے والے اہلکار پہنچ جاتے ہیں۔

عابد شیر علی نے خود تسلیم کیا کہ مئی کے مہینے میں صارفین کی جیبوں سے سوا تین ارب روپے نکال لئے گے ہیں۔چاہے تو یہ کہ صارفین کو ان کے گھروں میں ریلیف دیا جاتا اور جو کچھ ان سے لوٹا گیا ہے وہ واپس کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ دفاتر جا کر بل درست کوانے والے بیشتر لوگ بے نیل دمراد واپس آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی محکمہ حکومتوں کے قابو میں نہیں اور خصوصاََ واپڈا نے تو اُلٹا عوام کی چیخیں ناکل دی ہیں۔

اگر حکومت کی خواہش ہے کہ لوگ اس پر اعتماد کریں تو خدارااس محکمہ کو کوئی پکی ٹکیل ڈالیں۔ نیب ملتان کے ڈی جی بریگیڈیئر (ر) فاروق نصیر نے کہا ہے کہ واپڈا ڈیفالٹرز کی فہرستیں فوری طور پر دی جائیں تاکہ ان سے وصولی کی جا سکے۔ ڈیفالٹرز سے بھی وصولی ضروری ہے مگر جو لوگ دیانتداری سے بل دے رہے ہیں ان کا ڈیٹا بھی محکمہ کے پاس موجود ہے کچھ ان کی حالت زار پر بھی غور کر لیا جائے۔ بجلی بنیادی ضروریات میں شامل ہے جس کے بغیر پورا نظام مفلوج ہو جاتا ہے ۔ اگر حکومت نے اس کی قابل برداشت نرخوں پر فراہمی کو یقینی نہ بنایا تو اس کی انتخابی شکست کے لیے یہ ایک مسئلہ ہی کافی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bijli Bohran is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.