چولستان کا تاریخی ورثہ تباہی کے دہانے پر

بے آب و گیا ہ صحرائے چولستان جو کسی زمانے میں بین الاقوامی تجارتی گزر گاہ تھا اور تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لئے دریائے ہاکڑا کے کنارے جیسلمیر کے بھٹی راجاوٴں کے دور حکمرانی 834 ہجری میں تعمیر ہونے والا قلعہ ڈیراور جو اپنے اندر کئی صدیوں کے مختلف ادوار کی تاریخ سموئے ہوئے ہے

بدھ 21 دسمبر 2016

Cholistan ka Tareekhi Virsa
بے آب و گیا ہ صحرائے چولستان جو کسی زمانے میں بین الاقوامی تجارتی گزر گاہ تھا اور تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لئے دریائے ہاکڑا کے کنارے جیسلمیر کے بھٹی راجاوٴں کے دور حکمرانی 834 ہجری میں تعمیر ہونے والا قلعہ ڈیراور جو اپنے اندر کئی صدیوں کے مختلف ادوار کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس قلعہ کو نواب صادق محمد خاں اول نے والئی جیسلمیر راجہ راول رائے سنگھ سے فتح کیا جس وقت قلعہ ڈیراور عباسی خاندان کی ملکیت بنا تو عباسی حکمرانوں نے قلعہ کے تمام برج پختہ اینٹوں سے تعمیر کروا کر اس قلعہ کا ہر برج اپنے ڈیزائن میں دوسرے سے جدا ڈیزائن میں کیا۔

قلعہ کے اندر شاہی محل ،اسلحہ خانہ ، فوج کی بیرکیں اور قید خانہ بھی بنایا گیا تھا۔ قلعہ کے مشرقی جانب عباسی حکمرانو ں نے ایک محل بھی 2منزلہ تعمیر کرایاجہاں تاج پوشی کی رسم اد اکی جاتی تھی۔

(جاری ہے)

اس وقت قلعہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا۔ ریاست بہاولپور کا پاکستان سے الحاق ہونے کے بعد اور والئی ریاست بہاولپورعباسیہ خاندان کے آخری فرمانروا نواب سر صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم کی وفا ت کے بعد چولستان کے وارثوں اور حکمرانوں کی عدم توجہی اور سی ڈی اے کے منہ زور عملہ کی مبینہ نا اہلی کے باعث انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تباہی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔

چولستانیوں کا کہنا ہے کہ چولستان میں صدیوں پرانے ہمارے قدیم تہذیبی مراکز تاریخی قلعے جن میں قلعہ بجنوٹ ، قلعہ موج گڑھ ، قلعہ اسلام گڑھ ، قلعہ نواں کوٹ ، قلعہ مروٹ ، قلعہ میر گڑھ ، قلعہ دین گڑھ اور رام کلی وغیرہ حکومتی عدم توجہی اور سی ڈی اے کی غفلت، نااہلی، عدم مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے شکست دریخت کا شکار ہو کر مٹی اور ریت کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کا ذکر اب تاریخی کتابوں میں ملے گا۔

مگر ان کے آثار اب نہ ہونے کے قریب ہیں۔ بلکہ بیشتر قلعوں کے ختم ہو چکے ہیں۔ اور چند قلعے جن میں چولستان کی پہچان قلعہ ڈیراور جو کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ جس کو دنیا بھرکے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہونے کے اعزاز حاصل ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح قلعہ ڈیراور کے مقام پر دیکھنے آتے ہیں۔ بلکہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے اور اتوار کے روزتو دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کے رش کی وجہ سے میلہ کا سما ں ہوتا ہے۔

ترقی کے اس دور میں بھی زمانہ قدیم کی یہ عظیم یاد گار ایک اجڑے ہوئے ویران بھوت بنگلہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ قلعہ کے اند ر داخل ہوتے ہی لاکھوں کی تعداد میں وہاں موجود چمگادڑوں کی گندی بو ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہے۔ جس سے کئی لوگ بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں بلکہ ناک ڈھا نپ کر اندر داخل ہونا پڑتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر سال یہاں تین روزہ چولستان جیپ ریلی میں اربوں روپے عیاشیوں پر اڑا دیے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں قلعہ ڈیراور کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لئے ملک کی مختلف حکومتوں سماجی تنظیموں اور متعدد عرب ممالک نے مختلف خطوط پر کام کرنے کا سوچا۔ملکی حکمر انوں نے وعدے اور دعوے کیے بلکہ سی ڈی اے عملہ نے بھی متعدد بار قلعہ ڈیراور کی صفائی ستھرائی ، دیکھ بھال اور مرمت کے نام پر لاکھوں کا بجٹ منظور کروا کر کاغذوں کا پیٹ بھرا مگر عملاَ کچھ بھی نہ ہوا۔

چولستانیوں کا کہنا تھا کہ جس طرح ہر سال چولستان میں جیپ ریلی پر کروڑوں روپیہ خرچ کر کے حکومت اس خطے کی تہذیب وثقافت کو اجاگر کر رہی ہے اسی طرح قلعہ ڈیراور اور دیگر قلعوں کی تعمیر و مرمت کر کے ان کی تاریخی شکل بحال کی جائے اور ان قلعوں کے آس پاس بین الاقوامی معیار کے مطابق فائیو سٹار ہوٹل بنائے جائیں جس سے ملکی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ چولستانی ثقافت اور سیاحت بہتر طریقے سے اجاگر کی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Cholistan ka Tareekhi Virsa is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 December 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.