تین دسمبرمعذور افراد کا عالمی دن

پاکستان میں اس وقت معذور افراد کی تعداد خطرناک حدتک بڑھی ہوئی ہے۔ مشکل حالات اور مسائل اس میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ آئے روز ہنگاموں ، دھماکوں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی شکل میں جہاں سینکڑوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہیں ہزاروں زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں

ہفتہ 3 دسمبر 2016

3 December Mazoor Afrad Ka Aalmi Din
پاکستان میں اس وقت معذور افراد کی تعداد خطرناک حدتک بڑھی ہوئی ہے۔ مشکل حالات اور مسائل اس میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ آئے روز ہنگاموں ، دھماکوں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی شکل میں جہاں سینکڑوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہیں ہزاروں زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ عالمی فلاحی ادارہ ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچاس لاکھ سے زائد معذور افرادموجود ہیں۔

ان میں سے مردوں کی تعداد عورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔انتیس لاکھ تینتالیس ہزار مرد مختلف معذوریوں کا شکار ہیں۔جب کہ اکیس لاکھ خواتین معذوری کا شکار ہیں۔ اگر ان کا جائزہ دیہی اور شہری علاقوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیاجائے تو دیہی علاقوں میں معذوری کی شرح شہری علاقوں سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

تقریباً تینتیس لاکھ سے زائد افراد ،دیہی علاقوں میں معذوری کا شکار ہیں جب کہ شہری علاقوں میں ان کی تعداد سترہ لاکھ سے زائد ہے۔

ان معذور افراد میں نابینا ، گونگے، بہرے، جسمانی معذور ،محبوط الحواس اور ذہنی طور پر معذوری کا شکار افراد شامل ہیں۔
صوبائی لحاظ سے سب سے زیادہ معذور افرادپنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں معذور افرادکی تعداد اٹھائیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پرسندھ آتا ہے۔ یہاں معذوروں کی تعدادچودہ لاکھ بیس ہزارسے متجاوز ہے۔ خیبر پختون خواہ میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار افراد اور بلوچستان میں دو لاکھ دس ہزار لوگ مختلف معذوریوں کا شکار ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے چند لاکھ آبادی کے شہر میں سولہ ہزار سے زائد معذور افراد زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کی یہ تعداد ناروے یانیوزی لینڈ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ اگر اس کا موازنہ پاکستان کے بڑے شہروں سے کیاجائے تو معذوروں کی یہ تعداد حیدر آباد، ملتان اور پشاور کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ ان حالات کو سامنے رکھ کر معاشرے کی مجموعی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو معذوروں کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا۔

ان کو معاشرے میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تعلیم ، صحت ، برابری کے حقوق ، عزتِ نفس کے تحفظ کا تصور ، نقل و حرکت اور شہریت حاصل کرنے کی آزادی ، اظہارِرائے کی آزادی، اطلاعات اور جدید دنیا تک رسائی کی آزادی ، خاندان اور نجی زندگی کے احترام کی آزادی ،روزگار کی فراہمی ، مناسب معیار زندگی، سماجی تحفظ،سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شرکت ، ثقافتی زندگی اور فرصت کے لمحات کو گزارنے کی سہولت سے ان افراد کو عمومی طور پر محرو م رکھا جاتا ہے۔

حالانکہ اس طرح کے غیر مساویانہ سلوک کی نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی کوئی حساس معاشرہ اس کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔
معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق وہ افراد جنہیں طویل المیعاد جسمانی و ذہنی کمزوری کا سامنا ہو۔ جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا مناسب کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہوایسے افراد کو معذور کہا جا سکتا ہے۔

عام طور پر انسانی جسم کے کسی بھی عضو یا جسمانی صحت کے بنیادی اصولوں سے محرومی کے حامل افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ہر وہ شخص جس کے لیے عارضی یا مستقل بنیادوں پر کاروبار حیات میں حصہ لینا محدود ہو جائے یا انسانی بدن کو ایسے عارضے لاحق ہو جائیں جن سے ان کا مزاج اور اعتدال بگڑ جائے اور انسان کی کارکردگی متاثر ہو اس کو معذوری کہتے ہیں۔

معذوری کی کئی اقسام ہیں عام طور پر اس کو چار بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ذہنی ‘ جسمانی ‘پیدائشی اور حادثاتی۔ جسمانی اعضاء کی معذوری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ریڑھ کی ہڈی، اوپر کے جسمانی حصے اور زیریں جسمانی حصے کی معذوری۔ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہونے کی صورت میں بعض اوقات زندگی بھر کی معذوری کا سامنا ہوتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹ جانے کی صورت میں انسان ،معمول کی کارکردگی اور جسمانی اعضاء کے مناسب امور کی تکمیل کے قابل نہیں رہتا۔

عموماً اس طرح کی معذوری کسی حادثے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ریڑھ کی ہڈی معمولی سے متاثر ہوتی ہے مگر انسان کو افعالِ زندگی سر انجام دینے اور روز مرہ کے کاموں میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ریڑھ کی ہڈی مکمل ٹوٹنے کی صورت میں انسان حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا اور زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔یہی صورت سر میں لگنے والی چوٹ کی بھی ہے۔

سر پر لگنے والی چوٹ اگر زیادہ شدید ہو تو انسان سکتے کی حالت میں چلا جاتا ہے یا اپنے حافظے کو کھو دیتا ہے۔ ماضی کے تمام واقعات ایسے انسان کے دماغ سے محو ہو جاتے ہیں۔
بعض اوقات بچوں میں ذہنی نشوونما کی کمی جیسے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بچے جسمانی طور پر بڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان کا دماغ جسم کی عمر کے برابر پروان نہیں چڑھتا جس کی بنا پرذہنی نشوونما کی کمی جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

قوتِ سماعت اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ لیکن بعض اوقات بچے پیدائشی طور پراس نعمت سے محروم ہوتے ہیں یا کسی حادثے کے باعث لوگ اس نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سننے اور بولنے کی معذوری کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہے۔ بینائی سے محروم افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ یہ جسمانی معذوری کی چند بڑی اقسام ہیں۔ ذہنی معذوری کا شکارافراد معاشرے کے اندر فعال زندگی گزارنے سے محروم رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے کنونشن برائے معذور افراد کے مطابق معذوری کی بنیاد پر کسی شخص کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا انسانی وقار کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے باوجود دنیا بھر میں معذور افراد کے حقوق کی برابر خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
معذور افراد کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اشدضرورت ہے۔

کیونکہ معذور افراد کو ان کے مکمل انسانی حقوق اور بنیادی آزادی فراہم کی جائے تو یہ دنیا سے غربت کے خاتمے سمیت معاشرے کی سماجی اور معاشرتی ترقی کے لیے اہم ثابت ہوگا۔معذور افراد کی بحالی میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ معذور افراد کو رنگ ، نسل، جنس ، زبان ، سیاسی تعلق اور سماجی درجہ بندی کی تفریق کے بغیر مکمل مدد فراہم کرنی چاہیے۔


ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت کی ضرورت معذور افراد کو عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ معذور افراد کو ہنگامی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا چاہیے۔عمارتوں ، سڑکوں ، ذرائع نقل و حمل اور اندرون خانہ اور بیرونی سہولتوں کی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول ، گھر ، ہسپتال اور دوسری عمارتوں میں وہیل چیئر کی رسائی کے لیے انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان عمارتوں میں بریل اور آسانی سے پڑھنے یا سمجھ آنے والے دیگر طریقوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ اگر ان اقدامات کی جانب توجہ دی جائے تو معاشرے میں معذور افراد کو ان کا مناسب مقام دینے کی جانب یہ ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

3 December Mazoor Afrad Ka Aalmi Din is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 December 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.