تقسیم ہند اور نئی اسلامی مملکت کے قیام کا منصوبہ

اس تاریخ ساز دن ہندوستان کی تقسیم اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا فیصلہ ہوا اور مسلمانانِ ہند کو ہندو کی دو صد سالہ غلامی سے نجات حاصل ہوئی۔ اس سے قبل ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل کرنے کے لیے

جمعرات 4 جون 2015

Taqseem e Hind Or Nayi Islami Mumlikat K Qayyam Ka Mansoba
انور بشیر
تین جون انیس سو سینتالیس کا دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بے حد اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز دن ہندوستان کی تقسیم اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا فیصلہ ہوا اور مسلمانانِ ہند کو ہندو کی دو صد سالہ غلامی سے نجات حاصل ہوئی۔ اس سے قبل ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے 1945ء تک جتنی بھی کوششیں کیں وہ بے نتیجہ رہیں۔

تاہم، جولائی 1945ء کے آخر میں برطانیہ میں نئی لیبر حکومت برسراقتدار آئی جس کے وزیراعظم لارڈ کلیمنٹ ایٹلی (Lord Clement Attlee) تھے۔ لیبر حکومت نے یہ مسئلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے انگریز وائسرائے لارڈ ویول (Lord Wavell) تھے جو قبل ازیں ہندوستان آرمی کے چیف رہ چکے تھے۔ لیبر حکومت نے 1946ء کے شروع میں تین وزرا پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی لیڈروں سے مل کر کوئی ایسا آئینی فارمولا وضع کیا جائے جو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔

(جاری ہے)

لہٰذا 15 مارچ 1946ء کو وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے برٹش پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک ایسے ملک کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں جس میں نسلوں، مذاہب اور زبانوں کے کئی مجموعے ہیں۔ ان کے علاوہ اْن دیگر مشکلات سے بھی بخوبی آگاہ ہوں جو وہاں پیدا ہو رہی ہیں۔ لیکن ان مشکلات پر صرف ہندوستان کے لوگ ہی قابو پا سکتے ہیں۔

ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا بھی پورا خیال ہے مگر کسی اقلیت کو اکثریت کی راہ میں ویٹو کا روڑا اٹکانے کی اجازت نہیں دے سکتے “۔ برطانوی وزیراعظم ایٹلی کی اس تقریر کے جواب میں قائداعظم محمدعلی جناح نے 17 مارچ 1946ء کو ایک بیان میں کہا: ”یہاں ویٹو برتنے یا اکثریت کی راہ روکنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ایک مثال صادق آتی ہے کہ ایک مکڑی نے مکھی کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی۔

اب اگر مکھی انکار کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ویٹو استعمال کیا جا رہا ہے لیکن مکھی ضدی ہے“۔ اس کے بعد کابینہ مشن جس کے ارکان وزیر امور ہند لارڈ پیتھک، لارنس سر سٹیفورڈ کرپس اور دی الیگزینڈر تھے، 24 مارچ 1946ء کو ہندوستان پہنچا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد شملہ کی دوسری کانفرنس بلائی گئی جس میں گفت و شنید کے لیے کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے چار چار نمائندے شامل ہوئے۔


22 مارچ 1947ء کو متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماوٴنٹ بیٹن ہندوستان آئے اور اْن کے پیشرو لارڈ ویول 23 مارچ کو لندن چلے گئے۔ وہ 1943ء سے 1947ء وائسرائے ہندوستان رہے۔ اس تبدیلی کی کوئی وجہ تو نہیں بتائی گئی لیکن حقیقت یہی ہے کہ کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے سبب لارڈ ویول کو فارغ کیا گیا کیونکہ کانگریس کی نظر میں لارڈ ویول کا قصور یہ تھا کہ اس نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں کانگریس کے برابر جگہ دی تھی۔

کانگریس کی یہی تنگ نظری اس تبدیلی کا باعث سمجھی جاتی ہے۔ بہرحال، کابینہ مشن نے 14 مئی 1947ء کو ایک فارمولے کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے جو اعلان کیا اْس کے اہم نکات یہ ہیں:
(1) ہندوستان کی ایک وفاقی حکومت ہو جو برطانوی ہند اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے محکمے مرکز کے پاس ہوں اور اس کو ٹیکس لگانے کا اختیار بھی ہو۔


(2) مذہبی بنیادوں پر صوبوں کے تین گروپ بنائے گئے۔ پہلے گروپ میں ہندو اکثریت کے صوبے یوپی، سی پی، مدراس، بمبئی، بہار اور اڑیسہ شامل تھے جبکہ دوسرا گروپ مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل تھا جس میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان شامل تھے۔ تیسرے گروپ میں مشرقی مسلم صوبے بنگال اور آسام شامل تھے۔
(3) صوبے اور ریاستیں وفاق کی بنیادی اکائیاں ہوں گی۔

چند طے شدہ محکموں کے علاوہ باقی تمام محکمے صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔ ریاستیں جو اختیارات حکومت کو سونپیں گی ان کے علاوہ باقی تمام اختیارات اپنے پاس رکھیں گی۔
(4) صوبوں کا ہر گروپ اپنے صوبوں کے لیے آئین وضع کرے گا اور یہ بھی طے کرے گا کہ نئے انتخابات کے بعد کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کی اکثریت کی رائے سے اپنے گروپ میں سے الگ ہو سکے گا۔


(5) دستور ساز اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم اس طرح کی گئی: کل ارکان 385، مسلمانوں کی 78 نشستیں ، سکھوں کی 4 نشستیں اور دیسی ریاستوں کے لیے 93 نشستیں۔
(6) دس سال بعد ہر صوبہ اسمبلی کی خواہش پر اپنی حیثیت کو تبدیل کرنے کا مجاز ہو گا۔
(7) دس سال کے لیے مرکز میں ایک عبوری حکومت ہو گی جس میں کانگریس کے علاوہ کانگریس کے نامزد پانچ ہندو اچھوتوں سمیت مسلم لیگ کو 5، پارسیوں کو ایک، سکھوں کو ایک اور عیسائیوں کو ایک نشست دی جائے گی۔


(8) ہر پارٹی کے لیے لازم ہے کہ اس فارمولے کو بحیثیت مجموعی قبول یا رد کر دے۔ جو پارٹی اس کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کر دے گی اس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
ابتدا میں مسلم لیگ نے اس فارمولے کو مشروط طور پر قبول کر لیا تھا مگر بعد میں مسترد کر دیا۔ اس فارمولے کی روشنی میں ہندوستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے۔

لارڈ ماوٴنٹ بیٹن مئی 1947ء میں برطانیہ گئے اور وزیراعظم لارڈ ایٹلی اور دوسرے برطانوی لیڈروں سے گفت و شنید کے بعد واپس ہندوستان آکر طویل مذاکرات کیے اور ہندوستان کے اہم لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی، لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ قابل ذکر ہیں۔


3 جون 1947ء وائسرائے ہند اور مقامی قیادتوں کی کانفرنس کے بعد تقسیم ہند کا رسمی اعلان ہوا۔ اسی شام برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ اسی شام آل انڈیا ریڈیو پر ماوٴنٹ بیٹن، پنڈت نہرو، قائداعظم اور بلدیو سنگھ نے خطاب کیا۔

قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ”ہندوستانی رہنماوٴں پر بالخصوص بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے لہٰذا ہمیں اپنی تمام قوتوں کو یکجا کر کے اس امر پر تمام تر توجہ مرکز کرنا ہے کہ اقتدار پرامن اور منظم طریقے سے منتقل ہو جائے۔ میں پورے خلوص سے ہر فرقے اور بالخصوص مسلمانانِ ہند سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن و امان برقرار رکھیں“۔ تین جون کا یہ سنہرا دن مسلمانانِ ہند کے لیے غلامی کی زنجیروں سے آزادی کے ساتھ ساتھ کسی عید سعید سے کم نہ تھا۔

اسی دن ہندوٴں کا مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کا فلسفہ دم توڑ گیا۔
3 جون 1947ء کو پیش کیے گئے اس منصوبے کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
(1) برصغیر میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں جو شروع میں نوآبادیاتی حیثیت کی حامل ہوں گی۔
(2) پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور حدبندی کمیشن بھی مقرر کیے جائیں گے۔
(3) سندھ اور آسام کے مستقبل کا فیصلہ ان صوبوں کی اسمبلیاں کریں گی۔


(4) صوبہ سرحد اور آسام کے اضلاع میں استصواب رائے کرایا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ وہاں کے باشندے کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
(5) ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ہر دو مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔
(6) برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔
قائداعظم محمد اعلی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ اور کانگریس نے تقسیم ہند کے اس منصوبے کو قبول کر لیا جس کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے نشری تقریروں کے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو اس کا وجود بھی عمل میں آ گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتہائی اہم ترین دن ہے جسے انتہائی جوش اور قومی جذبے کے ساتھ منانا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taqseem e Hind Or Nayi Islami Mumlikat K Qayyam Ka Mansoba is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 June 2015 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.