رائس انڈسٹری تباہی کے دھانے پر

زرعی ملک زرعی پالیسی نہ بناسکا

جمعرات 13 اکتوبر 2016

Rice Industry Tabahi K Dhanay Par
فرحان شوکت ہنجرا :
2016-17 میں پنجاب میں 4ملین ایکڑرقبہ دھان کے زیرکاشت لایاگیا ہے جس سے 3.5 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوگی ۔ دوسری جانب پاکستان رائس ملزایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2014-15 میں سپرکرنل باسمتی مونجی کسانوں سے خریدی تھی جس کی سزا انہیں یہ ملی کہ ان کے پاس دوسال کا چاول سٹاک ہے اور وہ اس کی وجہ سے زندہ درگورہوچکے ہیں ۔

ان کے گوداموں میں چاول کی بوریاں نہیں بلکہ ان کی نعشیں پڑی ہوتی ہیں جوبینکوں میں Pledgad ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ رائس ملزایسوسی ایشن نے شکوہ کیا ہے کہ کاروباری ذہن رکھنے والے وزیر اعظیم نواز شریف کے دور میں وہ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ اس ضمن میں حکومت سے گزارش ہے کہ پاسکو کے ذریعے گوداموں سے چاول اٹھایا جائے اور ادائیگی براہ راست بنکوں کوکی جائے تو حالیہ سیزن کیلئے دو کاروبار جاری رکھ سکیں گے ۔

(جاری ہے)


لاہور چیمبرآف کامرس کے صدر، اعجاز اے ممتاز کاکہنا ہے کہ اگر پانی کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں صنعت وتجارت اور زرعی شعبے کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ کالاباغ ڈیم سے صرف پنجاب نہیں بلکہ سارے ملک کو فائدہ ہوگا لہٰذا سول سوسائٹی اور تمام طبقات کوکالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے ۔

پاکستان میں پانی اور توانائی کی قلت نے پیچیدہ صورت اختیار کرلی ہے جسے پرکالا باغ ڈیم تعمیر کرکے قابوکیا جاسکتا ہے ۔ 1960ء میں ورلڈ بنک کالاباغ اور بھاشاڈیم کی تعمیر کی سفارش کرچکا ہے اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی کاانکشاف ہوا ہے اور ماہرین کے مطابق اس وقت 1100مکعب میٹرپانی دستیاب ہے جو آئندہ دس سال میں کم ہوکر 800 مکعب میٹر رہ جائے گا ۔

زراعت میں 92 فیصد پانی کااستعمال ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہیں کرسکا اور ہمارا 60 فیصد پانی آج بھی ضائع ہورہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداور کم جبکہ گنے کی پیداوار گزشتہ چار برسوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ چنے کی فصل میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان میں چنا 62 فیصد تک خوراک کے طور پراستعمال کیاجاتا ہے ۔


پاکستان میں آج بھی زراعت میں قدیم طریقے رائج ہیں۔ بنجرزمینوں کو قابل کاشت نہیں بنایاجارہا ہے حکومت کی طرف سے زراعت کے شعبے پر ٹیکس ختم نہ کرنے کے باعث 2015ء میں کسانوں مشکلات کم نہ ہوسکیں ۔ کاشتکار زرعی مداخل پرجی ایس ٹی سمیت دیگر ٹیکسز کے خلاف سراپااحتجاج رہے ۔ کسان گندم ، گنے چاول اور کپاس کی سپورٹ پرائس نہ ملنے پر پورا سال حکومتی پالیسیوں کو کوستے رہے ۔

بتایا جارہا ہے کہ ملک میں زراعت کی طرف توجہ دینے سے زرعی شعبے میں ترقی اور خوراک کی خود کفالت کا خواب 2015 ء میں بھی پورا نہ ہوا۔ کپاس کہ قیمت 32سوروپے فی من مقرر کی گئی جبکہ کسانوں سے 24 سوسے 26 سوروپے فی من کپاس خریدی جاتی رہی ۔ باستمی چاول کی قیمت 12سوروپے گنے کی 190 روپے مقرر کی گئی لیکن کسانوں سے 150روپے سے 160 روپے تک گنا خریدا جاتا رہا ۔

کسان رہنماچوہدری علی جہاں سروبا کے مطابق حکومت نے پاکستانی کاشتکاروں کامفاد نہیں دیکھا بلکہ بھارتی کسانوں کی فصلوں کو پاکستانی منڈیوں میں بڑی پیمانے پر متعارف کروایا گیا ۔ کپاس کی فصل پر کسانوں کو 43ارب روپے ، باستمی چاول پر 25 ارب روپے ، گنے کے کم نرخ دینے پر 25ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بھارتی کسانوں کی پاکستان کی منڈیوں میں مکمل رسائی ہونے پر ٹنل فارمنگ کو بھی نقصان ہوا ۔

پاکستان کو پانی کی دستیابی بھی کم رہی، ملک کی زرعی درآمد ات بڑھ رہی ہیں اگر صورت حال یہی رہی تو زرعی درآمدات کا بل 5سوارب روپے سے بڑھ کر 8سوارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ کزرعی ماہر ڈاکٹر عام سلمان نے بتایا کہ اگرتمام اضلاع کے ڈی سی او لینڈریکارڈ مکمل کروائیں اور مناسط سوسڈی دی جائے تو زراعت کے شعبے پر جی ایس ٹی مکمل ختم ہونا چاہئے ۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ سیزن میں گندم کی فصل 19 اعشاریہ 5ملین ٹن ، کاٹن بیلز 9.90ملین ، چاول کی پیداوار 3.5 ملین ٹن ، گنے کی فصل 39.7 ملین ٹن ، مکئی کی فصل 3.63 ملین ٹن رہی ۔

محکمہ آبپاشی کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بڑے زمینداروں کی جانب سے پانی چوری کرنے کی وجہ سے نہروں اور نالوں کے آخر سروں کی زرعی زمینوں والے کسان اپنے 60سے 65فیصد پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ پنجاب بھر میں پانی کی چوری ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 2015 میں ایک لاکھ 23ہزار 415افراد کو پانی چوری میں ملوث پایاگیا لیکن صرف 315 کو گرفتار اور 82 کو قید کی سزاہوسکی ۔

پنجاب میں پانی چوری کے کیسز 77ہزار 970تک پہنچ گئے جن میں سے 25ہزار 877 کیسز زرعی آبپاشی کے نظان سے رپورٹ ہوئے ۔ پانی چوری محکمہ آبیاشی کے افسران کے علم میں بھی ہوتی ہے تاہم محکمہ اور کسان تنظیموں کی عدم دلچسپی کے باعث پانی چوری روکنے میں ناکامی کاسامنا ہے ۔ پانی چوری کے کل 77ہزار 805 مقدمات میں ملوث افراد کے 955پولیس کور پورٹ ہوئے ۔ پولیس نے ان میں سے 6 ہزار 518 کورجسٹر کیا اور صرف 3ہزار 805مقدمات میں ملوث افراد گرفتار ہوئے ۔

اسی طرح پولیس نے پانی چوری میں ملوث ایک لاکھ 23ہزار 415 میں سے صرف
4ہزار 665 کوتفتیش میں شامل کیا اور صرف 1075 کیسز کافیصلہ ہوسکا اور 82افراد کو جیل ہوئی اور 34 لاکھ 14ہزار 390 روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ محکمہ آبپاشی ، پیڈاور کسان تنظیموں کے 200 سے زائد عہدیدارپانی چوری میں ملوث ہیں تاہم ان میں اکثریت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ۔ کئی کسان نہروں کے موبگہ توڑنے پانی چوری کیلئے پائپ لگانے کیلئے افسران کوایک ہزار سے 2ہزار روپے رشوت دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Rice Industry Tabahi K Dhanay Par is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 October 2016 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.